عقاب کی اس حرکت سے عدنان نے جانے کیا سمجھا کہ اٹھ کر تیزی سے دروازے کی طرف لپکا ۔ اس کو اس طرح دیکھ کر میں بھی لیٹی نہ رہ سکی اور بہ سرعت بستر سے اٹھ کر اس کی طرف جھپٹتی ہوئی بولی ۔ ’’ کیا.....‘‘ میں پوچھنا چاہتی تھی کہ ’’ کیا معاملہ ہے عدنان !‘‘ لیکن مجھے خاموش ہوجانا پڑا کیونکہ عدنان نے تیزی سے سر گھماکر میری طرف دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھی تھی ۔ یہ چپ کرنے کا اشارہ تھا ۔ عقاب اڑ کر عدنان کے کندھے پر بیٹھ گیا تھا اور اب چیخ بھی نہیں رہا تھا ‘البتہ اس کا سر اور اس کی گول گول آنکھیں اپنے حلقوں میں تیزی سے گھوم رہی تھیں ۔ عدنان تیزی سے دروازے کے قریب پہنچ گیا تھا لیکن وہ دروازے کے سامنے نہیں رہا ، بلکہ اس کی بائیں جانب دیوار سے چپک گیا ۔ اس کی یہ احتیاط دیکھ کر میں نے بھی دروازے کے سامنے جانے سے گریز کیا اور عدنان کے قریب پہنچ گئی ۔ میں اس سے وہی سوال کرنا چاہتی تھی جو کر نہیں سکی تھی لیکن مجھ سے پہلے عدنان نے بہت مدھم سرگوشی کی ۔ ’’ دروازے کے باہر ضرور کوئی تھا ۔ عقاب کی اس حرکت کا مطلب کچھ اور نہیں ہوسکتا ۔ ‘‘ ’’ عقاب کی چیخیں سن کر تو بھاگ گیا ہوگا ۔ ‘‘ میں نے بھی اتنی ہی مدھم سرگوشی کی جو دروازے کے باہر نہیں سنی جاسکتی تھی ۔ ’’ امکان تو یہی ہے لیکن میں نے اس خیال سے احتیاط برتی کہ وہ دروازے پر ہی فائر نہ جھونک دے ۔‘‘ ’’ ایک امکان اور بھی ہے ۔ شاید وہ انتظار کررہا ہو کہ ہم دروازہ کھولیں اور وہ ہم پر گولیاں بر سا دے !‘‘ میں سوچنے لگی ‘ پھر پہلے ہی جیسی سرگوشی میں بولی ۔ ’’جب میں اشارہ کروں تو دروازہ کھول دینا لیکن دیوار سے ہی لگے رہنا ۔ ‘‘ عدنان نے الجھی ہوئی نظروں سے میری طرح دیکھا لیکن اس وقت مجھے اس کی الجھن دور کرنے کے لیے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ میں آہستگی سے بیٹھی اور آہستگی ہی سے اوندھی لیٹ بھی گئی ۔ پھر میں آہستہ آہستہ سرکتی ہوئی دروازے کے سامنے اس طرح گئی کہ میرا سر دروازے کی طرف اور پیر مخالف سمت میں تھے ۔ ریوالور میں نے پہلے ہی نکال کر اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا ۔ عدنان اس وقت بھی الجھی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا حالانکہ اسے سمجھ لینا چاہئے تھا کہ میرے ذہن میں کیا تدبیر تھی ۔ میں نے اسے اشارہ کیا کہ دروازہ کھول دے ۔ اس وقت شاید اس کی سمجھ میں آیا کہ میں نے کیا سوچا تھا ۔ اس نے بڑی تیزی سے دروازہ کھولا اور دیوار سے چپکا رہا ۔ ریوالور پر میری گرفت مضبوط تھی لیکن اسے استعمال کرنے کی نوبت نہیں آئی ۔ سامنے کوئی تھا ہی نہیں ۔ اگر ہوتا تو اس کی نظریں سامنے ہوتیں ۔ یہ خیال اس کے ذہن کے کسی گوشے میں نہ ہوتا کہ میں فرش پر لیٹی ہوئی ہوں گی ۔ وہ مجھے ایک لمحے بعد دیکھ پاتا لیکن میں اس لمحے سے پہلے ہی وہ کچھ کر گزرتی جس کا اسے سان گمان بھی نہیں ہوتا ۔ ’’ کوئی نہیں ہے ۔ ‘‘ میں دھیمی آواز میں کہتی ہوئی کھڑی ہوگئی ۔’’ تمھارا خیال ٹھیک نکلا ۔ اگر کوئی تھا تو وہ بھاگ چکا ہے ۔ ‘‘ ’’ لیکن کوئی تھا ضرور ۔ ‘‘ وہ بولا ۔ ’’ عقاب کی یہ حرکت کسی اور وجہ سے ہر گز نہیں ہوسکتی ۔ ‘‘ میں نے اس کے عقاب کو دیکھتے ہوئے کہا ۔’’ کیا تم پہلے بھی چولستان کے صحرا میں شکار کیلئے آتے رہے ہو؟‘‘ ’’ جی نہیں۔ میں چولستان کبھی نہیں گیا ۔ ‘‘ ’’ تو پھر یہ عقاب؟‘‘ ’’ اوہ! میرا خیال تھا کہ آپ جانتی ہوں گی !‘‘ ’’ کیا جانتی ہوں گی؟‘‘ ’’ اس عقاب کے بارے میں !‘‘ ’’اس عقاب کے بارے میں ؟ کیا؟‘‘ ’’ ایک معاملے میں عقاب کی ضرورت پیش آئی تھی ۔ یہ بانو نے خرید کر اسے سدھا دیا تھا ؟‘‘ ’’ بانو نے سدھا دیا تھا ؟‘‘ میں نے تعجب کا اظہار کئے بغیر سوال کیا ۔ ’’ جی ہاں ۔وہ ہر جانور کو سدھا سکتی ہیں ۔‘‘ میں چپ رہ گئی ۔ گزرتے وقت کے ساتھ بانو کے بارے میں نت نئی باتیں سامنے آتی ہی رہتی ہیں ۔ میں کہیں لکھ چکی ہوں کہ میں ان حیران کن باتوں کی عادی ہو چکی تھی لیکن یہ سوال میرے ذہن میں رہا کہ بانو کو اس کی ضرورت کب اور کن حالات میں پیش آئی ہوگی ۔ میں اس بارے میں عدنان سے نہیں پوچھنا چاہتی تھی ۔ شرمندگی کا احساس ہوتا ۔ وہ تو سمجھ رہا تھا کہ میں بانو کے بارے میں سبھی کچھ جانتی ہوں گی کیونکہ میں بانو کے بہت قریب تھی ‘ اور حقیقت بھی یہی ہے ۔ میں بانو کے بہت قریب رہی ہوں لیکن مجھے ہمیشہ یہ احساس رہا ہے کہ مجھے ابھی انکے بارے میں بہت کچھ معلوم نہیںہوگا ۔ عدنان دروازے کے ’’ کی ہول ‘‘ کا جائزہ لینے لگا تھا ۔ ’’ اب بند کردو دروازہ ۔ ‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ ’’ کچھ نشانات ہیں اس پر ۔ ‘‘ عدنان کے لہجے میں تشویش تھی ۔ ’’ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی نوک دار چیز سے لاک کھولنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ ‘‘ میں بے اختیار جھک کر دیکھنے لگی ۔ عدنان نے غلط نہیں سمجھا تھا ۔ ’’ کی ہول‘‘ پر خراشیں نظر آرہی تھیں ۔ میں نے متفکر نظروں سے عدنان کی طرف دیکھا ۔ ’’ تم ٹھیک کہہ رہے ہو ۔ خیر ! دروازہ بند کردو ۔ سوچنا پڑیگا۔ جو کچھ ہوچکا ہے ‘ اسکی باقیات ابھی موجود ہیں ہوٹل میں ۔ ‘‘ عدنان نے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا ۔ ’’ وہ جو کوئی بھی ہو ‘ چاہتا وہ یہ تھا کہ ہم پو سوتے میں وار کیا جائے !‘‘ ’’ معلوم کرنا اچاہئے کہ وہ کون ہے !‘‘ میں نے بستر کی طرف بڑھتے ہوئے کہا ۔ ’’ اور وہ ہم پر کیوں وار کرنا چاہتا تھا۔ کیا سمجھا ہے وہ ہمارے بارے میں ! چولستان پہنچنے سے پہلے اس کا سراغ لگنا چاہے ۔‘‘ عدنان نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے مجھ سے اتفاق کیا ۔ میں پھر بولی ۔ ’’ رات خاصی گزر چکی ہے ورنہ میں ابھی بانو کو فون کرتی ۔ ‘‘ ’’ کیوں نہ پولیس کو رپورٹ کی جائے!‘‘ میں نے پر خیال نظروں سے اس کی طرف دیکھا ۔ اس کی تجویز مجھے معقول معلوم ہوئی ۔ اگر اس سلسلے میں خاموشی اختیار کرلی جاتی تو ہمارے بارے میں اس نامعلوم شخص کے شبہات کچھ اور بڑھ سکتے تھے ۔ ’’ تم ٹھیک کہہ رہے ہو! میں نے کہتے ہوئے آگے بڑھ کر بستر کی سائڈ ٹیبل سے اپنا موبائل اٹھایا اور نمبر دبانے لگی ۔ ابھی میں پورے نمبر نہیں دبا پائی تھی کہ باہر سے ایک چیختی ہوئی آواز سنائی دی ۔ ’’ ہیلپ ...... ہیلپ .....‘‘ میں نے پورے نمبر دبائے بغیر جلدی سے ڈسکنکشن کا نمبر دبا دیا ۔ وہ چیختی ہوئی آواز کس کی تھی ؟ کل کے روزنامہ 92نیوزمیں پڑھیے!