میں حماقت کرتی اگر اپنی فائٹر کار سے نیلی کار پر فائر کھول دیتی ۔ یہ حماقت دو وجہ سے ہوتی ۔اگر نہایت لازم ہوجاتا ، تبھی مجھے اپنی کار کی خصوصیات ظاہر کرنی ہوتیں ۔ دوسرے یہ اندیشہ بھی تھا کہ ہیلی کوپٹر سے میری کار پر راکٹ فائر کردیا جاتا ۔ میری کار بلٹ پروف تو تھی لیکن راکٹ اسے تباہ کردیتا ۔ میں نے نیلی کار اور ہیلی کوپٹر کو ایک ہی سمجھا تھا ۔ دونوں نے بہ یک وقت ہی مجھے ہدف بنانے کے لیے خود کو تیار کیا تھا۔ اسے میں ’’ تیار کرنا ‘‘ ہی کہہ سکتی ہوں کیونکہ دونوں نے مجھے بہ یک وقت گھیرا تھا ۔ میرے پیچھے مسٹرڈ کار رک چکی تھی ۔ ’’ تم نے سمجھ داری کا ثبوت دیا ہے صدف! ‘‘ بانو کی آواز نے مجھے چونکا دیا ۔ میں نے چونک کر اسکرین کی طرف دیکھا ۔ مجھے اس پر بانو کا عکس نظر آیا ۔ ’’ بہتر ہوا کہ تم نے اپنی فائٹر کار سے کوئی کام نہیں لیا ۔ ‘‘ بانو پھر بولیں ۔ ’’ لیکن ۔‘‘ ’’ میں سیکیورٹی کے آدمیوں کو بھی ہدایت دے چکی ہوں کہ وہ کوئی ایکشن نہ لیں۔‘‘ ’’ کیا آپ یہ بھی جانتی ہیں کہ یہ معاملہ کیا ہے ؟‘‘میں نے پوچھا۔ اسی وقت میرے موبائل کی گھنٹی بجی ۔ ’’ کسی کی کال ہے بانو !‘‘ میں نے جلدی سے کہا ۔ ’’ دیکھو ! شاید وہی ہو !‘‘ ’’ کون ؟‘‘ میں نے پوچھا ۔ موبائل اسکرین پر مجھے اجنبی نمبر دکھائی دیا تھا ۔ ’’ کال سنو! ‘‘ بانو نے کہا ۔ میں نے کال ریسیو کی ۔’’ ہیلو!‘‘ ’’ میں آپ کے سامنے رکی ہوئی نیلی کار سے بول رہا ہوں ۔ ‘‘ شائستہ لہجے میں کہا گیا ۔ ’’ کار سے اتر آئیے ۔ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔ اپنے ساتھیوں سے بھی کہہ دیں کہ وہ کوئی غلط حرکت نہ کریں۔‘‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ بولنے والا ان لوگوں سے بھی واقف تھا جو مسٹرڈ کار میں میری سیکیورٹی کے لیے تھے ۔ ’’ آپ کون ہیں ؟ اور اس حرکت کا مطلب؟‘‘ میں نے تیز لہجے میں کہا ۔ میں نے اسپیکر شروع ہی میں کھول دیا تھا تاکہ بانو بھی مجھ سے بات کرنے والے کی آوازیں سن لیں ۔ ’’ اطمینان سے بتائوں گا ۔‘‘ آواز آئی ۔’’ یقین کیجئے کہ ہماری یہ ملاقات دوستانہ انداز کی ہوگی ۔‘‘ ’’ پہلے آپ بتائیے کہ آپ کون ہیں ؟‘‘ میں نے اصرار کیا۔ ’’ مجھے انہی دونوں کا ساتھی سمجھ لیں جنہوں نے لارسن کو گرفتار کیا تھا ۔‘‘ ’’ اوہ ! آپ ذرا ہولڈ کیجئے !‘‘ میں نے موبائل کا وہ بٹن دبا دیا جس کے باعث بولنے والا میری اور بانو کی آوازمیں نہیں سن سکتا تھا ۔ میں نے بانو سے کہا ۔ ’’ کیا یہ بات درست ہے؟ آپ نے اس کی آوازیں تو سن لی ہوں گی ؟‘‘ ’’ وہ ٹھیک کہہ رہا ہے صدف!‘‘ بانو نے کہا ۔’’ اس کا تعلق اسی محکمے سے ہے ۔‘‘ ’’ مجھے اچانک اس طرح گھیرنے کا سبب؟‘‘ ’’ تم کار سے اتر کر اس سے بات تو کرو ۔‘‘ ’’ اچھا ۔‘‘ میں نے موبائل کا ’’ ہولڈ‘‘ ختم کیا اور بولی ۔’’ تم لائن پر ہو؟‘‘ ’’ منتظر ہوں ۔‘‘ ’’ میں اتر رہی ہوں کار سے ۔‘‘ ’’ میں ویلکم کہوں گا ۔ ‘‘ اس نے نیلی کار کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا اور مجھ سے پہلے کار سے باہر آگیا ۔ وہ نیلی سرج کے سوٹ میں تھا ۔ ٹائی بھی بہت خوب صورت تھی ۔ عمر چالیس سال کے لگ بھگ ہوگی ۔ وہ فیلٹ ہیٹ پہنے ہوئے تھا اس لیے مجھے چھوٹا گارڈ فادر شہباز شریف یاد آگیا ، لیکن نقش کے اعتبار سے وہ کوئی برا آدمی نہیں معلوم ہوتا تھا ۔ میں بھی کار سے اتر آئی اور دروازہ بند کیا ۔ وہ میری طرف بڑھتا چلا آرہا تھا اس لیے میں ذرا ہوش یار ہوگئی حالانکہ بانو نے مجھے اس کی طرف سے اطمینان دلادیا تھا۔وہ ہنسا ۔ اس کی ہنسی بھی دل کش تھی ۔ میں یکایک افسردہ ہوگئی ۔ عماد کی ہنسی یاد آگئی تھی ۔ وہ بالکل اسی طرح ہنسا کرتا تھا ۔ ’’ کیا میں آگے نہ آئوں!‘‘ وہ مسکراتا ہوا اپنی جگہ رک گیا ۔ ’’ نہیں ۔‘‘ میں نے کہا ۔’’ آئیے!‘‘ وہ پھر میری طرف بڑھنے لگا ۔ عدنان کار ہی میں بیٹھا رہا تھا ۔ میں نے کار سے اترتے وقت اسے یہی ہدایت کی تھی ۔ ’’ میرا نام عماد ہے ۔‘‘ وہ قریب آکر بولا ۔ ’’ کیپٹن عماد۔‘‘ میرے دماغ کو پھر جھٹکا لگا ۔ اس کا نام بھی عماد تھا ۔ ’’ میں خجستہ ہوں‘ خجستہ عدنان ۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا ۔ ’’ آپ کے نام سے تو میں واقف ہوں ۔ ‘‘ وہ بولا ۔ ’’ اگر آپ دوستانہ انداز میں بات کرنا چاہتے ہیں تو اس ہیلی کوپٹر کا مطلب؟‘‘میں نے اشارہ کیا ۔ ’’صرف اس لیے کہ آپ کے ساتھی مجھے آپ کا دشمن سمجھ کو گولیاں نہ برسانے لگیں ۔اس صورت میں ہیلی کوپٹر بھی گولیاں برساتا لیکن صرف ڈرانے کے لیے ۔ مقصد انہیں ہلاک کرنا نہیں ہوتا ۔ ‘‘ ’’ لیکن کیا دوستانہ ملاقات اس انداز میں ہوتی ہے ؟‘‘ اس کے نام اور اس کے انداز نے مجھے جارحانہ انداز میں بات کرنے سے روکا ۔ ’’ مجبوری تھی ۔‘‘ کیپٹن عماد نے کہا ۔ ’’ میں آپ سے ملنے ہوٹل پہنچا تھا ۔ وہاں میں نے کار روکی تو دیکھا کہ آپ اپنی کار میں وہاں سے روانہ ہورہی ہیں ۔ میں آپ کی کار کے پیچھے آتا اور آپ کو روکنے کی کوشش کرتا لیکن اسی وقت میں نے وہ کار آپ کے پیچھے نکلتے دیکھی ۔ ‘‘ اس کا اشارہ مسٹرڈ کار کی طرف تھا ۔ ’’ میں سمجھا تھا کہ اس میں آپ کا کوئی دشمن ہوسکتا ہے۔ میں نے اپنی کار اس کے پیچھے رکھی لیکن خاصی دور نکل آنے کے بعد مجھے گمان ہوا کہ اس کار میںآپ کے دوست یا ساتھی ہیں یا شاید آپ کے باڈی گارڈز! کیا میں درست سمجھا ؟‘‘ ’’ ہاں ۔‘‘ میں نے جھوٹ بولنا مناسب نہیں سمجھا ۔ ’’ وہ میرے باڈی گارڈز ہیں۔ میں اس پر کیسے یقین کرلوں کہ آپ انھی دونوں کے ساتھی ہیں جنہوں نے لارسن کو پکڑا تھا ؟‘‘ ’’ یہ میرا شناختی کارڈ ہے ۔ ‘‘ اس نے ایک کارڈ نکال کر میری طرف بڑھایا ۔ میں نے کارڈ پر اس کے ادارے کا نام دیکھا ۔ ’’ اب آپ مجھے اپنے بارے میں کچھ بتائیے !‘‘ کیپٹن عماد بولا ۔ ’’ میں ایک عام لڑکی ہوں جو شکار کے ارادے سے چولستان جارہی ہوں ۔ ‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ آپ مجھ سے ملنے ہوٹل کیوں پہنچے تھے ؟‘‘ ’’ اس کی وجہ .....‘‘ کیپٹن عماس کا جملہ ادھورا رہ گیا ۔ عدنان کھڑکی سے سر نکال کر چیخا تھا ۔ ’’ خطرہ!..... وہ ٹرک بہت تیزی سے آرہا تھا ۔‘‘ وہ وہی ٹرک تھا جوپہلے میرے پیچھے تھا لیکن بعد میں آگے نکل گیا تھا۔ اس وقت ایک دھماکہ ہوا ۔ ریورس گیئر میں برق رفتاری سے آتے ہوئے اس ٹرک نے کیپٹن عماد کی کار کو ٹکر ماری تھی ۔ کار اچھل کر ایک طرف لڑھکتی چلی گئی ۔ ٹرک کی رفتار میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ صاف ظاہر ہوگیا کہ وہ میری کار کو بھی اتنی ہی زور سے ٹکر مارنا چاہتا تھا ۔ اس کے ساتھ میں اور کیپٹن عماد بھی دنیا سے سدھار جاتے ! نتیجہ کیا نکلا؟ ٹرک میں کون لوگ تھے؟ کل کے روزنامہ 92 میں پڑھیے !