جب حجازی میری کار میں ڈرائیونگ سیٹ کے برابر میں بیٹھا تو اس کی نظر کار کے اس مکینزم پر پڑی جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا ۔ اس کے چہرے پر حیرت کا تاثر ابھرا لیکن وہ کچھ بولا نہیں ۔ میں نے بھی اسے اس مکینزم کے بارے میں بتانا ضروری نہیں سمجھا ۔ جب میں ضرورت پڑنے پر اس مکینزم کے کسی حصے کو استعمال میں لاتی ، تبھی وہ جان لیتا کہ یہ غیر معمولی صفات کی حامل کار ہے ۔ ہوا کی تیزی میں بہت دھیمے دھیمے ضافہ ہورہا تھا ۔ حجازی کی بات ٹھیک ہی معلوم ہوتی تھی کہ ریت کا طوفان آنے والا تھا ۔ میں نے اس کا خیال نظر انداز بھی نہیں کیا تھا ۔ ہم نے وہ لباس پہن لئے تھے جن کی وجہ سے نوکیلی ریت ہمارا جسم نہیں کاٹ سکتی تھی اور اس کا موقع بھی اس وقت آتا جب ہم کار سے باہر نکلتے ۔ آنکھوں پر لگائے جانے والے چشمے ہماری گود میں تھے۔ میں نے کاراس سمت میں بڑھانی شروع کی جس طرف حجازی نے اشارہ کیا تھا ۔ بہ مشکل ایک ڈیڑھ فرلانگ کا فاصلہ طے ہوا تھا کہ فضامیں گڑگراہٹ سنائی دی ۔ مجھے فوراً خیال آگیا کہ ایک ہیلی کوپٹر وہاں آتا جاتا رہتا تھا ۔ میں نے کار کی رفتار کچھ کم کرتے ہوئے کھڑکی سے باہر ، اوپر کی طرف دیکھا لیکن ہیلی کوپٹر مجھے دکھائی نہیں دیا ۔ وہ کسی اور جانب ہوگا ۔ ’’ یہ کسی ہیلی کوپٹر ہی کی آواز معلوم ہوتی ہے ۔ ‘‘ حجازی بولا ۔ ’’ آپ کو نہیں معلوم ؟‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ ایک ہیلی کوپٹر بیسٹ ہائوس آتا جاتا رہتا ہے ۔ ‘‘ ’’ مجھے علم نہیں ۔ ‘‘ حجازی نے کہا ۔ ’’ میں تو آج ہی یہاں آیا ہوں ۔ ریسٹ ہائوس میں جو ملازم ہے ، اسی کے پاس بھیجا تھا مجھے بانو نے ! وہی مجھے یہاں لایا ہے۔ اسی کے پاس چابی تھی ریسٹ ہائوس کی۔ ‘‘ میں نے حجازی کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ میری دماغی رو تیزی سے ایک طرف چل پڑی تھی ۔ اگر چہ اس رات میں بیسٹ ہائوس کا صرف محل وقوع ہی دیکھنا چاہتی تھی لیکن ہیلی کوپٹر کی وجہ سے میں نے اسی رات بیسٹ ہائوس میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا ۔ میری دانست میں اس کا امکان تھا کہ ہیلی کوپٹر میں کوئی اہم شخصیت آئی ہو ‘ یا کوئی اہم چیز لائی گئی ہو ۔ ہیلی کوپٹر کی آواز اب دور جاچکی تھی ۔ ’’ ہم بیسٹ ہائوس کتنی دیر میں پہنچیں گے ۔ ؟‘‘ ’’ جس رفتار سے آپ کار چلا رہی ہیں‘ اس سے میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ دس منٹ لگیں گے ۔ ‘‘ میں نے کچھ سوچتے ہوئے سیٹلائٹ موبائل نکالا۔ میں کیپٹن جمال سے رابطہ کرنا چاہتی تھی جو بانو کی ہدایت کے مطابق چھ کمانڈوز کے ساتھ بیسٹ ہائوس سے چند میل دور کسی جگہ ہوسکتا تھا ۔ میں نے مسٹر داراب سے بھی چھ کمانڈوز کی بات کی تھی جنہیں اس وقت تک اللہ ڈینو کے ڈیرے پر پہنچ جانا چاہئے تھا ۔ میں ان سب لوگوں سے اسی صورت میں کام لیتی جب خود کسی خطرے میں پھنس جاتی۔ فوری طور پر میں جمال کر صرف الرٹ رہنے کی ہدایت کرتی لیکن رابطہ ہوجانے پر مجھے جمال کی بہ جائے بانو کی آواز سنائی دی ۔ ’’ ہاں صدف!‘‘ انہوں نے کہا تھا ۔ ’’ بانو ؟‘‘ میں نے حیرت سے کہا ۔ ’’ آپ نے تو کہا تھا کہ آپ یہ سیٹلائٹ فون جمال کو دیں گی ۔ ‘‘ ’’ میں نے بعد میں ارادہ بدل دیا تھا لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ در اصل میں چاہتی ہوں کہ خود بھی تمہارے اقدامات سے باخبر رہوں ۔ میں تم سے جو باتیں کررہی ہوں ‘ وہ جمال بھی اپنے سیٹلائٹ فون پر سن رہا ہوگا !‘‘ ’’ وہ کیسے؟‘‘ میری حیرت بر قرار رہی ۔ ’’ تمہیں ایک سائنٹسٹ سے یہ سوال نہیں کرنا چاہئے ۔ عام ٹیلی فون پر بھی کئی افراد ایک دوسرے سے بات کرسکتے ہیں ۔ یہ تو تمہارے علم میں ہونا چاہئے کہ ٹیلی فونک میٹنگز بھی کی جاتی ہیں ۔ بس اسی تھیوری کے مطابق میرا ‘ تمہارا اور جمال کا سیٹلائٹ فون انٹرلنک ہے ۔ تم وقت ضائع نہ کرو ۔ بات کیا ہے ؟‘‘ ’’ میں بیسٹ ہائوس میں داخل ہونے جارہی ہوں ۔ میں نے سوچا ہے کہ جمال کے بعد ان کمانڈوز کو بھی الرٹ کردوں گی جو اللہ ڈینو کے ڈیرے پر پہنچ گئے ہوں گے ۔ ‘‘ ’’ تم نے کل رات بیسٹ ہائوس میں داخل ہونے کا پروگرام بنایا تھا ۔ ‘‘ بانو نے یاد دلایا ۔ ’’ پروگرام ابھی چانک تبدیل کیا ہے ۔ ‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ ان لوگوں کا ہیلی کوپٹر دکھائی دے گیا ہے ۔ اب اس کی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے ۔ وہ وہاں لینڈ کرچکا ہوگا ۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ وہاں کون پہنچا ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں کوئی اہم چیز پہنچائی گئی ہوں ۔ ‘‘ ’’ ٹھیک ہے ۔ ‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ سمجھ لو کہ تم نے جمال کو الرٹ کردیا ہے ۔ اب تم ان کمانڈوز کو بھی الرٹ کردو جو یقنا اب اللہ ڈینو کے ڈیرے پر ہوں گے ۔اور ہاں! کیا تم اکیلی اندو جائو گی ؟‘‘ ’’ حجازی میرے ساتھ ہیں ۔ انہیں بھی اندر لے جائوں گی ۔ اندر جاکر مجھے کیا کرنا ہے ‘ میں نے ابھی سوچا ہے ۔‘‘ ’’ کیا سوچا ہے ؟‘‘ میں نے بانو کے اس سوال کے جواب میں جو کچھ کہا ‘ اس نے حجازی کو چونکا دیا ۔ اس نے اپنی نشست پر پہلو بدلا تھا ۔ ’’ حجازی کو بتا دیا ہے ؟‘‘ بانو نے پوچھا ۔ ’’ ابھی تک نہیں بتایا تھا لیکن ابھی آپ کو بتایا ہے تو انہوں نے بھی جان لیا ہوگا ۔ وہ میرے برابر میں بیٹھے پہلو بدل رہے ہیں ۔ ‘‘ میں نے مسکرا کر کہا ‘ اور کن انکھیوں سے حجازی کی طرف دیکھا ۔ ’’ ٹھیک ہے ۔ بیسٹ آف لک ۔ ‘‘ بانو نے مجھ سے پہلے رابطہ منقطع کیا ۔ ’’ آپ کے اعصاب بہت مضبوط ہیں۔ ‘‘ حجازی نے مجھ سے کہا ۔ وہ بہت سنجیدہ نظر آرہا تھا ۔ ’’ یہ آپ نے کیسے سمجھ لیا ؟‘‘ ’’ بانو کو اپنے اس خطرناک فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے آپ مسکرارہی تھیں!‘‘ ’’ میں ہر قسم کے حالات میں مسکراتی ہوں ۔ ‘‘ ’’ اسی لئے میں نے کہا تھاکہ آپ کے اعصاب بہت مضبوط ہیں ۔ ‘‘ حجازی نے کہا ۔پھر بولا ۔ ’’ اس طرح آپ مجھے خاصی مصیبت میں ڈال دیں گی !‘‘ ’’ ایسا نہیں ہوگا ۔‘‘ ’’ وہ ہے بیسٹ ہائوس ۔‘‘ حجازی نے اشارہ کیا ۔ ’’ اسے کچھ دور سے بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔ ‘‘ جلد ہی میں نے کار بیسٹ ہائوس کے داخلی راستے پر روکی ! صدف کے خطرناک عزائم کیا رنگ لائے اگلی قسط روزنامہ 92 میں پڑھیے!