اس آواز نے عدنان کو بھی چونکا دیا تھا ۔ ’’ یہ تو جانی پہچانی آواز لگتی ہے !‘‘ وہ تیزی سے بولا ۔ میں بہ عجلت دروازے کی طرف بڑھی ۔ ’’ یوں باہر نہ نکلیے !‘‘ عدنان پھر بولا ۔ ’’ یہ ہمیں کمرے سے باہر نکالنے کی ترکیب بھی ہوسکتی ہے ۔ ‘‘ ’’ نہیں ۔ ‘‘ میں دروازے کے قریب پہنچ گئی ۔ ’’ ہم ابھی باہر نکل چکے ہیں !اگر کسی کو ہمارے خلاف کچھ کرنا ہوتا تو اسی وقت کر گزرتا ۔‘‘ دو مرتبہ کے بعد تیسری بار مدد کے لیے کوئی نہیں چیخا تھا لیکن میں دروازہ کھول کر باہر نکل گئی ۔ اسی وقت آس پاس کے تین کمروںمیں مقیم افراد بھی باہر نکل آئے تھے ۔ ’’ یہاں تو کوئی نظر نہیں آرہا ہے ۔ ‘‘ انہی میں سے ایک بولا ۔ میرے پیچھے عدنان بھی کمرے سے نکل آیا ’’ آواز کچھ دور کی تھی ۔ ‘‘ میں نے ان لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ اسی وقت دو اور کمروں سے بھی تین افراد نکل آئے ۔ مدد کے لیے چیختی ہوئی وہ آواز اتنی ہی زور کی تھی کہ سوتے ہوئے لوگوں کو بھی جگا سکتی تھی ۔ ’’ آواز تو شاید اسسٹنٹ منیجر کی تھی ۔ ‘‘ جو لوگ پہلے باہر آئے تھے ‘ انہی میں سے ایک نے کہا ۔ ’’ ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ! ‘‘ عدنان بولا ۔’’ اب مجھے بھی یاد آگیا ۔‘‘ یہ وہ مجھ سے بھی کہہ چکا تھا ۔ اسے وہ آواز جانی پہچانی سی لگی تھی ۔ ’’ ادھر دیکھنا چاہئے ۔‘‘ ایک شخص نے اس طرف اشارہ کیا جدھر زینوں کے ساتھ ہی لفٹ بھی لگی تھی ۔ سبھی لوگ اس طرف بڑھے ۔ کیا ہوسکتا ہے ‘ میں سوچتی ہوئی ان سب کے پیچھے تھی ۔ میری وجہ سے عدنان بھی اتنی تیزی سے آگے نہیں بڑھا تھا جس طرح وہ لوگ بڑھے تھے ۔ ’’ لاش!‘‘ انہی لوگوں میں سے کسی کی چیختی ہوئی سی آواز آئی ۔ ’’ لاش‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جسے اس سچویشن میں سن کر کسی کے بھی خون میں گرمی آسکتی ہے ۔ میں تیزی سے جھپٹی تو عدنان بھی پیچھے نہ رہا ۔ سبھی لوگ لفٹ اور زینے کے درمیان گھبرائے ہوئے سے کھڑے تھے ۔وہاں ایک شخص خون میں لت پت اوندھا پڑا تھا ۔ ’’قتل۔‘‘ کسی کے منہ سے نکلا۔ ’’اسسٹنٹ منیجر یا نائٹ سپر وائزر کو اطلاع دینی چاہئے۔‘‘ ایک اور آواز ’’شاید یہ ابھی زندہ ہو۔‘‘ کسی نے خیال ظاہر کیا۔ اتنی ہمت کسی میں نہیں ہو رہی تھی کہ خون میں لت پت شخص کے قریب جاتا لیکن اس وقت میں تیزی سے آگے بڑھی۔ میں نے اس شخص کے جسم میں خفیف سی حرکت محسوس کرلی تھی۔ عدنان بھی میرے ساتھ ہی تیزی میں آتا تھا۔ فرش پر پڑے شخص کا چہرہ ایک طرف مڑا ہوا تھا جو قریب جانے پر نظر آ گیا۔ ’’یہ وہی ہے۔‘‘ عدنان کے منہ سے نکلا۔‘‘ اسسٹنٹ منیجر…! میں نے اس کی کلائی پر انگلیاں رکھ کر نبض دیکھی۔ عدنان کی اور میری وجہ سے دوسرے لوگوں کو بھی قریب آنے کی ہمت ہو گئی۔ ’’یہ ابھی زندہ ہے۔‘‘ میں جلدی سے کھڑی ہو گئی۔ کمرے سے نکلتے وقت بھی موبائل میرے ہاتھ میں ہی رہا تھا۔ ’’پولیس کو فون کیجئے!‘‘ کسی نے مجھے مشورہ دیا۔ پھر ہر شخص ہی اپنی اپنی بولی بولنے لگا۔ پولیس نے وہاں پہنچنے میں دیر نہیں لگائی۔ اتنی ہی دیر میں ہوٹل میں مقیم کچھ افراد کے علاوہ ہوٹل کا عملہ بھی وہاں آ گیا تھا جن میں نائٹ سپروائزر بھی تھا۔ پولیس نے وہاں آتے ہوئے ہاسپٹل بھی فون کر دیا تھا اس لیے ایمبولینس نے بھی وہاں پہنچنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔ اسسٹنٹ منیجر کو فوراً ایمبولینس میں منتقل کرکے ہاسپٹل روانہ کر دیا گیا۔ ساتھ میں پولیس کے دو آدمی بھی گئے تھے۔ ابتدائی پوچھ گچھ تو پولیس نے فوراً ہی کر لی تھی۔ اب وضاحت سے بیانات لینے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ’’میں اور یہ۔‘‘ میں نے عدنان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔‘‘ اس وقت جاگ رہے تھے جب ہم نے ہیلپ ہیلپ کی آواز سنی۔ ہمارے جاگنے کی وجہ یہ تھی کہ کسی شخص نے ہمارے دروازے کا لاک کھولنے کی کوشش کی تھی۔‘‘ ’’لاک کھولنے کی کوشش؟‘‘سب انسپکٹر نے چونکے ہوئے انداز میں کہا۔ ’’جی ہاں‘‘ میں نے کہا۔‘‘ اور یہ ممکن ہے کہ اسسٹنٹ منیجر نے اس شخص کی وہ حرکت دیکھ لی ہو۔ اسی لیے اس نے بھاگتے بھاگتے منیجر پر چاقو کے کئی وار کر ڈالے۔‘‘ ’’آپ کو کیسے معلوم کہ چاقو کے وار کئے گئے!‘‘ سب انسپکٹر نے تیزی سے پوچھا۔ ’’گولی چلنے کی آواز نہیں سنائی دی تھی۔‘‘ میں نے جواب دیا۔‘‘ اس لیے چاقو ہی کی طرف دھیان جاتا ہے۔‘‘ میں نے اپنے کمرے کے لاک پر پائے جانے والے نشانات کا بھی ذکر کیا۔ اس کے بعد یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ میرے کمرے کے دروازے کا جائزہ نہ لیا جاتا۔ نہ صرف جائزہ لیا گیا بلکہ پولیس کے فوٹوگرافرز بلا کر لاک کی تصاویر بھی لی گئیں۔ جس وقت تصاویر لی جا رہی تھی،میں نے سب انسپکٹر سے کہا۔’’ اس کا امکان نہیں ہے کہ جس شخص نے لاک کھولنے کی کوشش کی تھی‘ وہ اتنی رات گئے ہوٹل کے باہر سے آیا ہو۔ اسے ہوٹل ہی کا مقیم ہونا چاہئے۔‘‘ سب انسپکٹر نے میری بات سنجیدگی سے سمجھی اور اسی وقت ہوٹل کے نائٹ سپروائزر کو بلا کر اس سے کہا۔’’ جو لوگ ہوٹل میں مقیم ہیں انہیں کم از کم آج رات ہوٹل چھوڑنے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔‘‘ سپر وائزر نے اسی وقت موبائل پر ریسیپشن نے رابطہ کیا اور ہدایت کی۔’’ آج رات کوئی مسافر ہوٹل نہ چھوڑنے پائے۔‘‘ پھر وہ دوسری طرف کی بات سن کر چونکا۔’’ کیا؟‘‘ جواب سن کر اس نے کہا۔’’اسے روکو! میں آ رہا ہوں نیچے۔‘‘ پھر اس نے رابطہ منقطع کرکے سب انسپکٹر سے کہا۔‘‘ البرٹو نام کا ایک آدمی ہوٹل چھوڑنا چاہتا ہے۔ میں نے ہدایت کر دی ہے کہ اسے روکا جائے۔ میں ابھی نیچے جا کر اس سے بات کرتا ہوں۔‘‘ ’’ میں بھی چلتا ہوں آپ کے ساتھ۔‘‘ سب انسپکٹر نے کہا۔ ’’اگر آپ اسے غیر ضروری نہ سمجھیں تو میں بھی چلتی ہوں۔‘‘ میں بولی۔ سب انسپکٹر نے کچھ سوچا‘ پھر بولا۔’’آیئے!‘‘ ’’عدنان !‘‘ میں نے جاتے جاتے کہا۔‘‘ تم یہیں رکو۔‘‘ لاک کے فوٹو گراف نہ جانے کس کس زاویئے سے بنائے جا رہے تھے۔ عدنان کو ہیں چھوڑ کر میں سب انسپکٹر اور سپروائزر کے ساتھ زینے کی طرف جانے لگی۔ سب انسپکٹر نے زینے کی بہ جائے لفٹ کو ترجیح دی۔ ’’ہاسپٹل سے رابطہ کیجئے!‘‘ میں نے سب انسپکٹر سے کہا۔‘‘ اسسٹنٹ منیجر کو بچا لیا گیا تو وہ البرٹو کے خلاف ایک اہم گواہ ہوں گے اگر البرٹو ہی نے میرے کمرے کا درروازہ کھولنے کی کوشش کی تھی۔‘‘ پھر جیسے ہی ہم لفٹ سے نکلے کچھ شور اور دوڑ بھاگ کی آواز سنائی دی۔ معلوم ہوا کہ البرٹو نے ریسیپشنسٹ پر بھی چاقو کے وار کیے تھے اور بھاگ نکلا تھا۔ میں ایک طویل سانس لے کر رہ گئی۔ اس رات ہوٹل میں جانے کیا کچھ ہونا شاید ابھی باقی ہو۔ کیا اس کے بعد کچھ اور بھی ہوا؟ کل کے روزنامہ 92نیوز میں پڑھیئے!