میرے منہ سے بے اختیار نکلا ۔’’ یہ مسئلہ نہ بن جائے ۔‘‘ سونیا نے سر ہلایا ۔’’ وہ دونوں طالبان تو مکان میں ہیں ۔ طیارے کو ٹارچ سے سگنل دیا جاتا تو ٹارچ کی روشنی دیکھ نہیں پاتے لیکن یہ گاڑی ؟ یہ آخر اس وقت کیوں آرہی ہے !..... نہ جانے اس میں کتنے آدمی ہوں ۔ ان میں سے اگر کوئی مکان کے باہر رکا رہا تو وہ ٹارچ کا سگنل دیکھ لے گا ۔‘‘ ’’ یہی خیالات میرے ذہن میں چکرائے ہیں ۔ ‘‘ میں نے آہستہ سے کہا ! گاڑی اب بہت قریب آچکی تھی ۔ وہ بھی جیپ ہی تھی ۔ اس میں دو آدمی نظر آرہے تھے ۔ ان میں کوئی بھی نوجوان نہیں تھا ۔ ’’ ہمیں چھت پر پہنچ جانا چاہیے ۔‘‘ میں نے کہا ۔’’ جو ہوگا، دیکھا جائے گا ۔‘‘ ہم چاروں تیزی سے چھت پر پہنچ گئے ۔ سامان بھی ساتھ لے لیا تھا جس میں کوہ پیمائی کا سامان بھی شامل تھا ۔ جب چھت سے جھانک کر دیکھا گیا تو جیپ دروازے پر آکر رک چکی تھی ۔ انجن بند کردیا گیا تھا ۔ دونوں طالبان دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔ ’’ طیارے کے آنے تک وہ دونوں اندر ہی رہیں تو اچھا ہے ۔ ‘‘ زاہد بڑبڑایا ۔ ’’ ہاں ۔‘‘ میں نے کہا ۔’’ اسی صورت میں سگنل دینے سے وہ لوگ چونکیں گے نہیں ۔‘‘ شام کی سرمئی رنگت ، سیاہی میں تحلیل ہونے کو ہی تھی کہ نیچے جھانکتی ہوئی سونیا نے مجھے اطلاع دی کہ آنے والے طالبان مکان ہی میں رہ گئے تھے اور جو وہاں پہلے سے موجود تھے ، باہر نکل کر جیپ پر سوار ہوگئے تھے ۔ میں اس وقت سامان سے ٹارچ نکال رہی تھی ۔ زاہد بولا۔’’ اس کا یہی ایک مطلب لیا جاسکتا ہے کہ ڈیوٹی چینج ہوئی ہے ۔ دن میں یہ دونوں کام کرتے ہوں گے اور رات کو وہ جو ابھی آئے ہیں۔‘‘ ’’ ایسی صورت میں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہاں دن رات جیکٹیںتیار کی جارہی ہیں ۔‘‘ ’’ اور یہ بھی کہ یہ لوگ کہیں بڑے حملے کی تیاری کررہے ہیں ۔‘‘ ’’ تو اس مکان کی تباہی ایک بڑا کام ہوگا ۔‘‘ میں نے کہا ۔ اس وقت نیچے سے جیپ کا انجن اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی ۔ ’’ اب وہ جارہے ہیں ۔‘‘ سونیا نے بتایا ۔’’ جو آئے تھے وہ اندر ہی رہ گئے ہیں ۔‘‘ اس وقت میں نے بھی جھانکا۔جیپ کی ہیڈ لائٹس آن کردی گئی تھیں اور جیپ حرکت میں آچکی تھی ۔ ’’ طیارہ اب آجانا چاہیے تھا ۔‘‘ میں بڑبڑائی ہی تھی کہ کہیں دور سے ایک مدھم آواز آئی ۔’’شاید طیارہ ہی آرہا ہے ۔‘‘ ’’ تو اب یہ جیپ بھی اُڑے گی ۔‘‘ سونیا نے کہا ۔’’ جیپ کی ہیڈ لائٹس ہی ان دونوں کی موت کا سبب بنیں گی ۔‘‘ جیپ اب کچھ دور نکل گئی تھی ۔ اندھیرے کی وجہ سے وہ نظر نہ آتی لیکن ہیڈ لائٹس کے باعث اس کی نشان دہی ہورہی تھی ۔ جیسے ہی طیارے کی آواز واضح ہوئی ، جیپ کی ہیڈ لائٹس آف کردی گئیں ۔ طالبان کو بھی خطرے کا احساس ہوگیا تھا ۔ ستاروں کے پیش منظر میں طیارہ اب دکھائی دینے لگا تھا ۔ یکایک اس نے غوطہ لگایا اور اس کی زمین پر پڑنے والی اسپاٹ لائٹ بھی روشن ہوئی ۔ زمین کا خاصا حصہ روشنی میں آگیا ۔روشن اسپاٹ کے کنارے پر جیپ بھی دکھائی دے گئی ۔ طیارے سے ایک راکٹ داغا گیا اور ہم نے جیپ کے پرخچے اڑتے دیکھے ۔ ’’ کہا تھانا!‘‘ سونیا نے پر جوش انداز میں کہا ۔’’ انھوں نے اس وقت ہیڈ لائٹس بند کی تھیں جب وہ پائلٹ کی نظر میں آچکے تھے ۔‘‘ اب فائیٹر طیارہ وادی پر چکر کاٹنے لگا ۔ ’’ دھماکے کی آواز تو ان دونوں نے بھی سنی ہوگی جو نیچے ہیں ۔‘‘ زاہد بولا ۔ ’’ یقینی بات ہے ۔‘‘ میں نے کہا ۔’’ وہ دروازے پربھی آئے ہوں گے ۔وہ دیکھنا تو چاہیں گے کہ دھماکا کہاں ہوا ہے ۔جیپ سے جو شعلے بھڑک رہے ہیں ، وہ بھی دیکھ لیے ہوں گے انھوں نے ۔ طیارہ بھی دکھائی دے گیا ہوگا !‘‘ ’’ کیا رد عمل ہوا ہوگا ان کا !‘‘ سونیا اس طرح بڑبڑائی جیسے خود سے سوال کررہی ہو ۔ ’’ مکان کے اندر ہی رہنے میں انھیں اپنی عافیت نظر آسکتی ہے ۔‘‘ میں نے کہا اور فائیٹر طیارے پر نظریں جمائے رہی جس کی تمام ہیڈ لائٹس آف تھیں۔ وہ ایک سائے کے مانند نظر آرہا تھا ۔ میں منتظر تھی کہ اس کا رخ مکان کی طرف ہوتو میں اسے ٹارچ کی روشنی کا سگنل دوں۔ ’’ نیچے اترنے کے لیے تیار رہیں ۔‘‘ میں نے کہا ۔ سونیا اس وقت پائپ سے وہ رسّا لٹکا رہی تھی جس کے ذریعے ہم اوپر آئے تھے ۔ ’’ ہم تیار ہیں لیڈر!‘‘ علی محمد حسبِ معمول خاموش رہا تھا ۔ میں نے جیسے ہی طیارے کا رخ اس طرف ہوتے دیکھا ، ٹارچ کی روشنی کا سگنل دے دیا ۔ جواب میں اسے بھی ایک لائٹ جلا کر بجھانی چاہیے تھی جس سے مجھے معلوم ہوتا کہ اس نے سگنل دیکھ لیا ہے لیکن ایسا نہیں ہوا تھا ۔ میں نے ٹارچ جلائے ہی رکھی ۔ اس کا امکان نہیں تھا کہ نیچے موجود طالبان اس کی روشنی دیکھ لیتے ۔ آخر تیس چالیس سیکنڈ بعد طیارے کی ایک لائٹ جلی اور دس سیکنڈ کے بعد بجھ گئی ۔ اب میں نے ٹارچ جلدی جلدی دو مرتبہ جلا کر بجھاکر طیارے کو سگنل دے دیا کہ ہم نے اس کا سگنل دیکھ لیا ہے ۔ ’’ پہلے تم اترو سونیا !‘‘ میں نے کہا ۔’’ جلدی کرو ۔ آدھے گھنٹے بعد اس مکان پر راکٹ برس پڑیں گے ۔ ہمیں آدھے گھنٹے کے اندر اندر نہ صرف نیچے اترنا ہے بلکہ یہاں سے اتنی دور نکل جانا ہے کہ مکان کے ملبے سے محفوظ رہیں ۔‘‘ میرا آخری فقرہ مکمل ہونے سے پہلے ہی سونیا نے نیچے اترنا شروع کردیا تھا ۔ ’’ وہ جب زمین پر پہنچ جائے تو تم نیچے اترنا ۔‘‘ میں نے کیپٹن زاہد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہ خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا کہ پائپ پر زیادہ وزن پڑے۔ اندازہ نہیں ہے کہ پائپ کی دیوار کا حصہ کتنا وزن سنبھال سکتا ہے۔ ‘‘ ’’تم ٹھیک کہہ رہی ہو لیڈر! ‘‘زاہد نے نیچے دیکھتے ہوئے کہا۔ سونیا بہت تیزی سے نیچے اتر رہی ہے۔ اس وقت تیزی ہی کی ضرورت ہے۔ میں نے کہا، پھر علی محمد سے بولی۔ زاہد کے بعد تمہیں اترنا ہے۔ میں تمھارے بعد اتروں گی۔‘‘ گروپ لیڈر کی حیثیت سے میرا فرض تھا کہ اپنے ساتھیوں کو زمین پر محفوظ دیکھنے کے بعد اتروں۔ میری ہدایت کے مطابق زاہد کے بعد علی محمد نے اترنا شروع کیا ہی تھا کہ میں نے فضا میں طیارے کی آواز کے علاوہ ایک گڑگڑاہٹ سنی، نظریں اٹھائیں تو ایک ہیلی کوپٹر دکھائی دیا۔ تو ہیلی کوپٹر بھی بھیجا گیا ہے، مجھے خیال آیا۔ اس کا مقصد صرف یہی ہوسکتا تھا کہ مکان کی تباہی کے بعد ہیلی کوپٹر لینڈ کرے اور تباہی کا جائزہ لے۔ میں نے جھانک کر علی محمد کو دیکھا۔ وہ ابھی نصف ہی اترا تھا۔ ’’اے عورت! ‘‘پشتو ہی میں ایک مردانہ آواز نے للکارا تھا۔ میں تیزی سے مڑی۔ زینے کے قریب نئے آنے والے دونوں طالبان میری طرف کلاشنکوفیں تانے کھڑے تھے۔ میری ریپٹر گن میرے شانے سے لٹکی ہوئی تھی۔ طالبان مجھے اتنی مہلت ہرگز نہ دیتے کہ میں وہ شانے سے اتار کر ہاتھوں میں لے سکوں۔ میری ایسی کسی کوشش کو بھانپتے ہی وہ مجھے گولیوں سے چھلنی کردیتے۔ اس خطرناک صورت حال میں کیا ہوا؟ کل کے اخبار میں پڑھیے!