گولے نے طیارے کو ’’ ہٹ‘‘ کر بھی دیا لیکن ہٹ ہونے سے چند لمحے پہلے ہی اس نے پے در پے جو راکٹ داغے تھے ، وہ بھی اپنا کام کرگئے ۔ فضامیں طیارہ شعلوں کی لپیٹ میں آکر گرنے لگا اور زمین پر اس مکان کے پرخچے اڑ گئے جہاں ائیر کرافٹ گن تھی ۔ دھماکوں سے فضا گونج اٹھی تھی اور پھر گرتا ہوا طیارہ بھی زمین سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گیا ۔ ’’ تباہی.....تباہی.....تباہی۔‘‘ میں بڑبڑا کر رہ گئی ۔ ’’ ہماری یہ مہم بہت ہنگامہ پرور ثابت ہوئی لیڈر!‘‘ سونیا بولی : ہیلی کوپٹر سے اترنے والوں نے بھی اس واقعے پر کوئی تبصرہ کیا لیکن ان کی آوازیں ہم تک نہیں پہنچی تھیں ۔ سونیا پھر میری ڈریسنگ میں مصروف ہوگئی۔ ’’ زخمی تو تم بھی ہو سونیا ! ‘‘میں نے کہا ۔ ’’معمولی زخم ہے لیڈر!‘‘سونیا نے بتایا ۔’’گولی میری بغل سے اس طرح گزری تھی کہ میرا بازو اور جسم کا کچھ حصہ چھل گیا ہے ۔‘‘ ’’ اس کی ڈریسنگ تم خود نہیں کر سکتیں اور میرے ہاتھ..... ‘‘ میں نے جملہ ادھورا ہی چھوڑ دیا ۔ میں اپنے جلے ہوئے ہاتھوں سے سونیا کی ڈریسنگ نہیں کرسکتی تھی ۔ سونیا کچھ نہیں بولی ۔ وہ جلد از جلد میری ران کی ڈریسنگ کردینا چاہتی تھی ۔ میری نظریں دو جگہ لگی ہوئی آگ کی طرف بھٹک رہی تھیں ، ایک آگ اس مکان کے ان حصوں میں لگی ہوئی تھی جو تباہ ہونے سے بچ گئے تھے ۔ دوسری طرف طیارے کے ٹکڑے جل رہے تھے ۔ ’’ اب اس وادی کے ہر مکان کو مشتبہ سمجھنا چاہیے۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا ۔’’ ان لوگوں نے نہ جانے کس کس مکان کو اپنی آماج گاہ بنا رکھا ہے ۔ یہ لوگ اس وادی کو اب بالکل محفوظ سمجھ رہے تھے لیکن اب ان کا خیال بدل گیا ہوگا ۔ ہمیں اب بہت ہوش یار رہنا چاہیے ۔ وہ کسی طرف سے نمودار ہو کر ہم پر حملہ آورہوسکتے ہیں ۔‘‘ سونیا نے میری ران کی ڈریسنگ کرنے کے بعد میرا لباس ٹھیک کردیا جس سے میری عریانیت ختم ہوگئی ۔ ’’ اب آپ لوگ ہماری طرف دیکھ سکتے ہیں آفیسر!‘‘سونیا نے میرے ہاتھوں پر دوا لگاتے ہوئے کہا ۔ دونوں آفیسر تیزی سے مڑ کر ہمارے قریب آئے ۔ ’’ ہمارے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے! ‘‘ ان میں سے ایک بولا۔ ’’ آپ میری ساتھی کی ڈریسنگ کرسکتے ہیں ؟‘‘ میں نے ان سے پوچھا ۔ ’’ ارے نہیں لیڈر !‘‘ سونیا جلدی سے بولی۔ ’’معمولی زخم ہیں ، میں خود کرلوں گی ۔پہلے آپ کے ہاتھ.....‘‘ میں سمجھ گئی ۔ سونیا نہیں چاہتی تھی کہ کوئی مرد اس کے جسم کا کوئی حصہ بھی دیکھے ۔ سونیا کی بات سننے کے بعد دونوں آفیسرز بھی اس معاملے میں خاموش ہوگئے ۔ ’’ آپ جانتے ہیں ، ہم کون ہیں ؟‘‘ میں نے ان کی طرف دیکھا ۔ ’’ جی ہاں۔‘‘ ایک آفیسر نے جواب دیا۔ ’’آپ پانچ افراد کسی کام سے ادھر آئے تھے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ آپ کا ایک ساتھی طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہوچکا ہے ۔ اب آپ کی تعداد چار ہونی چاہیے تھی لیکن .....!! سونیا نے اس کی بات کاٹی ۔’’ہمارے دو اور ساتھی بھی ایک طالب کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں ۔‘‘ وہ اس وقت میرے ہاتھوں پر دوا لگارہی تھی ۔ ان دونوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ۔ میری سمجھ میں اس وقت تک نہیں آیا تھا کہ سونیا کیسے بچ گئی تھی جبکہ طالب نے ان تینوں ہی پر کلاشنکوف کا برسٹ مارا تھا ۔ ’’ اب آپ دونوں زخمی ہیں ۔‘‘ ایک آفیسر بولا۔ ’’خاص طور سے آپ بہت زیادہ ہیں ۔‘‘ اس کا اشارہ میری طرف تھا ۔’’ یہ ہیلی کوپٹر آپ کو واپس لے جاسکتاہے۔‘‘ ’’ ہر گز نہیں ۔‘‘میں نے کہا ۔’’ میں اپنی زندگی کی آخری سانس تک اپنے فرض سے منہ نہیں موڑ سکتی ۔‘‘ ’’ لیکن اب آپ کو چلنے میں بھی دشواری ہوگی ۔‘‘ ’’ میں یہاں دوچار دن کسی مکان میں رک جائوں گی ۔یہاں خاصے مکان خالی پڑے ہیں۔مجھے امید ہے کہ میں دوچار دن میں چلنے کے قابل ہوجائوں گی ۔‘‘ سونیا نے میری طرف کچھ عجیب نظروں سے دیکھا ۔ شاید اس کا خیال ہو کہ میں دو چار دن میں چلنے کے قابل نہیں ہوسکوں گی ۔ آفیسر بولا ۔’’ مناسب تو یہ ہوتا کہ .....‘‘ میں نے اس کی بات کاٹی ۔’’ مناسب یہ ہے کہ میں اپنا مشن جاری رکھوں ۔‘‘ ’’ تو کیا ہم جائیں ؟‘‘ ’’ بس ایک کام کرتے جائیے ۔ ہمیں کسی ایسے مکان تک پہنچادیجیے جو ان پہاڑوں کے قریب ہو ۔ مجھے ان پہاڑوں تک پہنچنے کے لیے زیادہ نہ چلنا پڑے ۔‘‘ ’’ او کے ! ہم پہنچادیتے ہیں ۔‘‘ ’’ کچھ دیر آپ ہیلی کوپٹر میں ہمارا انتظار کریں ۔ ‘‘سونیا نے کہا ۔ میں سمجھ گئی ۔ سونیا ان دونوں کے سامنے اپنے زخموں کی خبر نہیں لینا چاہتی تھی ۔ ’’ ایک خیال رہے ۔ ان دونوں مکانوں کے بعد اب یہاں کے کسی مکان کو بھی غیر مخدوش نہیں سمجھا جاسکتا ۔‘‘ ’’ ہاں ۔‘‘ میں نے کہا ۔’’ ہمیں احتیاط تو کرنی ہوگی ۔‘‘ دونوں آفیسرز سر ہلا کر واپس ہیلی کوپٹر کی طرف چلے گئے ۔ سونیا جب اپنی بغل کے زخموں پر دوا لگارہی تھی ، میں نے سیٹلائٹ فون پر مسٹر داراب سے رابطہ کیا ۔ میں نے کچھ کہا نہیں تھا کہ وہ بول پڑے ۔ ’’ میں ساری صورت حال سے آگاہ ہوں ۔ صرف یہ نہیں معلوم ہوا کہ زاہد اور علی محمد تمھارے ساتھ کیوں نہیں ہیں !‘‘ ’’ وہ بھی شہید ہوچکے ہیں ۔تفصیلی رپورٹ میں آپ کو ایک گھنٹے بعد دوں گی ۔ابھی مجھے خود نہیں معلوم کہ سونیا کیسے بچ گئی ۔ ابھی اس سے پوچھنے کا موقع ہی نہیں ملا ہے ۔‘‘ ’’ مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اتنا زخمی ہونے کے باوجود تم واپس آنے کے لیے تیار نہیں ہو ۔‘‘ ’’ جی ! میں اپنی آخری سانس تک اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کروں گی ۔‘‘ جواب دیتے ہوئے مجھے ایک گھوڑے کی ٹاپوں نے چونکا دیا ۔ ’’ میں آپ سے بعد میں بات کروں گی ۔ابھی کچھ خطرہ ہے۔‘‘ میں نے جواب دے کر رابطہ منقطع کیا اور اپنی ریپیٹر گن سنبھال لی ۔ یہی سونیا نے بھی کیا تھا ۔ ہیلی کوپٹر سے دونوں آفیسر بھی اتر آئے ۔ ان کے ہاتھوں میں ریوالور تھے۔‘‘ گھوڑے پر کون آرہا تھا ؟ کل کے اخبار میں پڑھیے!