گھڑسوا رہمارے بالکل قریب آکر رکا ۔ اس پر کوئی عورت سوار تھی ۔ اندھیرے میں اس کے نقش و نگار دکھائی نہیں دے رہے تھے ۔ پھر بھی میرا دل بہت زور سے دھڑکا ۔’’ بانو۔‘‘یہ میری سرگوشی تھی ۔ وہ بانو ہی تھیں جو جینز پر کوٹ پہنے ہوئے تھیں ۔ وہ تیزی سے ہمارے قریب آئیں ۔ ’’ مرحباصدف!‘‘ انھوں نے مجھے گلے لگالیا ۔ دونوں آفیسر ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر رہ گئے ۔ ان کی سمجھ میں آہی نہیں سکتا تھا کہ اس ویرانے میں ہماری کوئی ہم درد عورت بھی ہوگی ۔ ہماری دوست! ’’ یہ کون ہے لیڈر! ‘‘ سونیا نے مجھ سے پوچھا ۔ اوہ ،تو یہ وہ سونیا نہیں ہے جس کا مجھے خیال آیا تھا ، میرے ذہن میں آیا ۔ ’’ یہ وہ ہیں جن کی وجہ سے مجھے بڑی تقویت حاصل رہتی ہے ۔ ‘‘ میں نے اسے جواب دیا ۔’’تفصیل بعد میں بتائوں گی ۔‘‘ ’’ تم پہاڑوں کے قریب کسی مکان میں جانا چاہتی ہو!‘‘ بانو بولیں ۔ وہ میری اس خواہش سے بھی واقف تھیں لیکن اب مجھے ان کی ایسی باتوں پر حیرت نہیں ہوتی تھی ۔ ’’ ہاں بانو!‘‘ میں نے کہا ۔’’ میری ران کا زخم دو چار دن میں اس حد تک تو ٹھیک ہوجائے گا کہ میں کچھ چل سکوں۔‘‘ ’’ میں بھی چلتی ہوں تمھارے ساتھ ہیلی کوپٹر کو رخصت کرو۔گھوڑے پر تم دونوں بیٹھ سکتی ہو میرے ساتھ !.....لیکن نہیں ، اس طرح تمھارے زخم کو جھٹکے لگیں گے ، تکلیف ہوگی ۔ ہیلی کوپٹر ہی مناسب ہے ۔‘‘ ’’ہمارے ساتھ یہ بھی جائیں گی ۔‘‘ میں نے آفیسرز کی طرف دیکھتے ہوئے بانو کی طرف اشارہ کیا ۔ دونوں آفیسرز نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں انھوں نے ایک دوسرے سے بات کی ، پھر ہماری طرف دیکھ کر کہا ۔ ’’ہم پانچ منٹ بعد بتاتے ہیں آپ کو۔ ‘‘پھر وہ دونوں تیزی سے ہیلی کوپٹر کی طرف بڑھ گئے ۔ ’’ میرے بارے میں اجازت لینی ہوگی انھیں اپنے کسی آفیسر سے ۔‘‘ بانونے مسکراتے ہوئے کہا ۔ ’’خیر! اجازت تو مل جائے گی ۔‘‘ اتنا کہہ کروہ گھوڑے کی طرف گئیں ۔ میں ان کی طرف دیکھتی رہی ۔ بانو نے گھوڑے کے قریب جا کر اس کی گردن پر تھپکی دی اور اسے چوما ۔ مجھے ایسا لگا جیسے انھوں نے گھوڑے کے کان میں کچھ کہا بھی تھا ۔ پھر وہ واپس ہمارے قریب آگئیں ۔ ’’گھوڑے سے بات کر رہی تھیں آپ ! ‘‘ ۔ میں نے حیرت سے کہا ۔ ’’ ارے نہیں ۔‘‘ بانو ہنس دیں ۔ ’’ بس پچکار ا تھا اسے !‘‘ مجھے ان کے جواب پر یقین نہیں آیا ، لیکن میں نے اس معاملے میں خاموشی اختیار کی ۔ سونیا اپنی بغل کے معمولی زخموں پر کسی دوا کے پھائے لگا چکی تھی ۔ میں نے اس سے پوچھا ۔ ’’ اس کم بخت طالب کی گولیوں سے تم کیسے بچی تھیں سونیا؟ ‘‘ ’’اسے قسمت کی بات سمجھ لیں لیڈر ! ‘‘سونیا نے جواب دیا ۔’’ وہ دونوںجب نہ جانے کتنی گولیاں کھا کر گرے تھے تو میں بڑی حد تک ان کے نیچے دب گئی تھی ۔ ایک گولی میری بغل سے گزر گئی تھی جس سے یہ معمولی زخم آئے ۔ بس یوں ہی خیال آیا مجھے کہ دوسرا برسٹ نہیں چلایا جائے گا، اس لیے میں ساکت پڑی رہی ۔‘‘ ’’ اپنے اطمینان کے لیے وہ دوسرا برسٹ چلا بھی سکتا تھا۔‘‘ ’’اگر میں کسی طرف بھاگنے کی کوشش کرتی ، تب تو وہ مجھے دیکھ ہی لیتا ۔ اس صورت میں وہ مجھ پر گولیاں ضرور برساتا ۔‘‘ ’’ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ ‘‘ بانونے سونیا سے کہا ۔ پھر مجھ سے پوچھا ۔ ’’وہاں کیا ہوا تھا ۔‘‘ میں نے انھیں سارے واقعے سے آگاہ کردیا ، پھر سونیا کی طرف دیکھ کر بولی ۔’’ تمھاری وجہ سے مجھے دوسری زندگی ملی ہے سونیا ! ورنہ وہ مجھے گولیوں سے بھون چکے ہوتے۔ ‘‘ ’’میں ناچیز کسی کو دوسری زندگی کیا دے سکتی ہوں لیڈر! …بس قسمت ہے کہ میں زندہ بچ گئی ۔ میں نے سجھ لیا تھا کہ جو کچھ ہوا ، وہ انھی طالبان کی وجہ سے ہوا جو اس مکان میں تھے ۔ انھی میں سے کسی ایک نے گولیوں کا برسٹ چلایا تھا ۔ میں فکر مند ہوگئی تھی کہ آپ پر نہ جانے کیا بیتی ہو ۔ میں نے رسے سے اوپر چڑھنا خطرناک سمجھا اور شاید بازو کی تکلیف کے باعث چڑھ بھی نہیں سکتی تھی ۔ میں مکان میں ہی گھس گئی ۔ وہ دونوں گرائونڈ فلور پر نہیں تھے اس لیے میں زینے طے کرتی ہوئی چھت تک پہنچ گئی ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا ، آپ کے سامنے ہوا ۔‘‘ بانو اس کا جواب خاموشی سے سنتی رہی تھیں ۔ وہ اس وقت بھی کچھ نہیں بولیں جب سونیا چپ ہوچکی تھی ۔ وہ مجھ سے مخاطب ہو گئی تھیں ۔ ’’تمھاری ا اس تکلیف میں ابھی کمی تو نہیں ہوئی ہوگی ! ‘‘ ’’ اتنی جلدی کمی کیسے ہوسکتی ہے بانو ! …بس ضبط کر رہی ہوں ۔‘‘ میں نے جواب دیا ، پھر سونیا سے بولی ۔ ’’ تم نے مجھ سے بانو کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا ؟ ‘‘ ’’ میں مسٹر داراب سے ان کا ذکر سن چکی ہوں۔ ‘‘ اسی وقت ہیلی کوپٹر کی طرف سے آواز آئی ۔ ’’ آپ تینوں آجائیں۔‘‘ میں نے کھڑے ہونے کی کوشش کی لیکن کام یاب نہیں ہوسکی ۔ مجھے ہیلی کوپٹر تک جانے کے لیے بانو اور سونیا کا سہارا لینا پڑا ۔ سیڑھیاں چڑھنا بھی میرے لیے دشوار ثابت ہوا ۔ میں سونیا اور بانو ہی کی وجہ سے کسی نہ کسی طرح اوپر پہنچ گئی ۔ میرے بعد سونیا اور بانو ہی کی وجہ سے کسی نہ کسی طرح اوپر پہنچ گئی ۔ میرے بعد سونیا اورر بانو بھی آگئیں ۔ ہیلی کوپٹر کا انجن اسی وقت اسٹارٹ کردیاگیا تھا جب ایک آفیسر نے ہم سے آنے کے لیے کہا تھا ۔ بانو کا گھوڑا وہیں رہ گیا ۔ پہاڑوں کے قریب ہم تینوں ہیلی کوپٹر سے اتر گئیں ۔ بانو نے ایک ایسے مکان کا انتخاب کیا جس پر کوئی منزل نہیں بنائی گئی تھی ۔ ہم نے اس مکان کی طرف بڑھنا شروع کیا ۔ ہیلی کوپٹر ہمیں چھوڑ کر پرواز کرچکا تھا ۔ چوکنا رہتے ہوئے بہت احتیاط سے مکان میں داخلہ ہوا ۔ اس میں بس دو ہی کمرے تھے ۔ کمروں میں سامان بھی تھا ۔ اس کے مکین صرف ضروری سامان لے کر اس گھر سے رخصت ہوئے ہوں گے ۔ ’’تیراندازی بھی آپ ہی نے کی تھی نا ! ‘‘ میں نے بانو سے اس وقت کہا جب مجھے ایک بستر پر لٹایا جاچکا تھا ۔ ’’ہوں۔‘‘ بانو مسکرائیں اور اپنے ڈھیلے ڈھالے کوٹ سے ایک کمان اور چند تیر نکال کر دکھائے ۔ ’’میری کوشش تھی کہ فائرنگ نہ کرنی پڑے ، لیکن انتظام اس کا بھی ہے ۔ دو ہلکی مشین گنیں بھی ہیں ۔‘‘ ’’کہاں ہیں ؟ ‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ۔ ’’تم نے گھوڑے کے دائیں بائیں لٹکے ہوئے بڑے تھیلے نہیں دیکھے تھے ؟ ‘‘ ’’ان میں ہیں مشین گنیں؟ ‘‘ ’’ہاں ، اور خورونوش کا کچھ سامان بھی !‘‘ ’’لیکن گھوڑا تو …‘‘مجھے اپنا جملہ ادھورا چھوڑنا پڑا ۔ مکان کے باہر سے گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز آئی تھی ۔ ’’یہ انتظام ضروری تھا ۔ یہاں خود کو بالکل محفوظ نہ سمجھو ! طالبان ہم پرحملہ آور ہوسکتے ہیں۔ ‘‘ بانو نے کہا اور دروازے کی طرف بڑھ گئیں ۔ میں چکرا گئی کیا بانو جانوروں کو بھی اپنا طابع کرسکتی ہیں ؟ کیا طالبان نے اس مکان پر حملہ کیا ؟ کل کے اخبار میں پڑھیے!