جب ہماری روانگی عمل میں آئی تو ذہن میں آنے والا پہلا خیال یہ تھا کہ اب سے پہلے کبھی صرف تین خواتین نے طالبان کے گڑھ تک پہنچنے کے لیے قدم نہیں اٹھایا ہوگا۔ ران کے زخم کی وجہ سے میری چال میں ہی لنگ تھا تو میرے لیے پہاڑ پر چڑھنا کس قدر دشوار ہوگا ،اس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے کوہ پیمائی کی ہو ۔ ہم نے صرف ہتھیار اپنے ساتھ رکھے تھے ، دیگر سامان کے تھیلے نیچے ہی چھوڑ دیے تھے ۔ ان سے ایک مضبوط ڈوری باندھ دی تھی جس کا دوسرا سرا ہم تینوں نے اپنی کمر سے باندھ لیا تھا ۔ بلندی طے کرتے ہوئے ہم جب بھی تھک کر کسی جگہ رکتے تو ڈوری کھینچ کر اپنا سامان بھی اوپر لے آتے اور یہ کام ہمیں ڈیڑھ گھنٹے بعد ہی کرنا پڑا ۔ ’’ بہت با ہمت ہو ۔‘‘ بانو نے میری پیٹھ تھپکی ۔ ’’ آپ کی وجہ سے ہمت اور بڑھ گئی ہے ۔‘‘ میں نے پانی کی چھاگل سے دو گھونٹ لے کر کہا ۔ سونیا سامان میں سے کچھ سینڈوچ اور چائے کا تھرماس نکالنے لگی تھی ۔ وہ میری طرف دیکھ کر بولی ۔’’ لیڈر! ایک سوال میرے دماغ میں شروع ہی سے چکرارہا ہے ۔ ہم جس جگہ کی تلاش میں جارہے ہیں ، وہ آپریشن کرنے والوں کی نظر میں کیوں نہیں آیا ۔ طیارے پیٹرولنگ تو کرتے رہے ہوں گے ۔ وہ وادی ان کی نظر میں کیوں نہیں آئی ؟‘‘ ’’ یہ سوال میں نے علی محمد سے بھی کیا تھا ۔اسی نے بتایا کہ ساری وادی کیمو فلاج کردی گئی ہے ۔ اوپر کی طرف جھاڑ جھنکاڑہے ۔ کسی بھی طیارے کو وادی کیسے نظر آتی !‘‘ ’’ اتنی بڑی وادی کیمو فلاج؟‘‘ سونیا کے لہجے میں حیرت تھی ۔ ’’ تم بھول رہی ہو ۔ پانچ سال ہوئے آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں ایک ایسا کرکٹ گرائونڈ بنایا جاچکا ہے جو اوپر سے ڈھکا ہوا ہے ۔ وہاں بارش میں بھی میچ ہورہے ہیں یا نہیں ، یہ تو مجھے نہیں معلوم لیکن ہوسکتے ہیں اور شاید ہوتے ہوں ۔‘‘ ’’ وہ تو ہے میرے ذہن میں لیڈر!‘‘ سونیا نے کہا ۔’’ اس کا نام غالباً کولونیل اسٹیڈیم ہے لیکن کسی وادی کے مقابلے پر تو وہ بہت ہی چھوٹا ہے ۔‘‘ ’’ یہ کام ان لوگوں نے بڑے پیمانے پر کرڈالا ہے جس کا کریڈٹ مغربی ممالک میں سے کسی ملک کے انجینیر کو جاتا ہے ، بلکہ میں صاف صاف کہہ سکتی ہوں کہ وہ کوئی یہودی ہوگا ۔ کئی طاقتیں ان طالبان کی پشت پناہی کررہی ہیں جن میں اسرائیل سرفہرست ہے ۔ کیموفلاج کا یہ کام کسی یہودی انجینئر کا ہوگا ۔‘‘ ’’ تو اسے دنیا کے عجائبات میں سے ایک کہا جاسکتا ہے ۔‘‘ تمھارا یہ خیال درست ہے ۔‘‘ میں نے کہا ۔’’ ایسی وادی کو عجوبہ ہی کہا جاسکتا ہے ۔‘‘ بانو خاموشی سے ہماری باتیں سن رہی تھیں ۔ اسی دوران سونیا نے پیالیوں میں چائے انڈیل لی تھی اور ایک پلیٹ میں سینڈوچ بھی رکھ کر باقی سامان بند کردیا تھا ۔ ’’ قدرتی روشنی اور ہوا سے تو وہ لوگ بالکل محروم رہتے ہوں گے !‘‘وہ بولی۔ ’’ اس کا بھی انھوں نے کسی حد تک ازالہ کیا ہے ۔ مصنوعی چھت میں تھوڑے تھوڑے فاصلے سے دو دو فٹ کے سوراخ بھی بنائے گئے ہیں جو طیاروں سے نہیں دیکھے جاسکتے ۔‘‘ ’’ بارش یہاں کم ہوتی ہے لیکن ہوتی تو ہے ۔‘‘ سونیا نے کہا ۔’’ بارش میں وہ لوگ کیا کرتے ہوں گے؟‘‘ ’’پانی کی نکاسی کا بھی کوئی بندوبست کرلیا ہوگا انھوں نے ۔‘‘میں نے جواب دیا ۔’’ساری وادی کو چھپانے والے اس چھوٹے سے مسئلے کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔ کچھ نہ کچھ کرلیاہوگا انھوں نے ۔ میں نے علی محمد سے اس بارے میں کوئی سوال نہیں کیا تھا ۔‘‘ بانو اب بھی خاموشی سے چائے پیتی رہیں۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ پہلے سے یہ سب کچھ جانتی ہوں۔ سینڈوچ کھانے اور چائے پینے کے بعد ہم نے پھر اوپر چڑھنا شروع کیا ۔طالبان نے کوہ پیمائی کا جو سامان جمع کیا تھا ، وہ ہمارے کام آرہا تھا ۔ ایک گھنٹے بعد ہمیں پھر ایک مسطح جگہ پر قیام کرنا پڑا ۔ اس مرتبہ ہم کچھ جلدی ہی تھک گئے تھے ، یا یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ میں اور سونیا جلد تھک گئے تھے، بانو تو بالکل تازہ دم نظر آرہی تھیں ۔ یہاں ہم نے پھر تھوڑا سا کھایا پیا تاکہ تھکن اتار کر تازہ دم ہوسکیں ۔ ہمارے اس پڑائو پر بھی سونیا نے مجھ پر ایک سوال داغ دیا ۔’’ جو نقشہ علی محمد نے بنا کر ہمیں دیاتھا لیڈ!ر وہ فوج کو بھی دیا جاسکتا تھا ۔ ہمیں اس مہم پر آنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی ۔‘‘ ’’ بگ پرسن ہی نے کہا تھا کہ پہاڑی علاقوں کے نقشے بعض اوقات بھٹکا بھی دیتے ہیں ، اور پھر یا دداشت کے سہارے بنایا ہوا نقشہ ہو تو اس کا خدشہ اور بڑھ جاتا ہے ۔ فوج سے بھی غلطی ہوسکتی تھی ۔ دوسری اہم بات یہ کہ وہاں پہنچ کر ہی ہمیں معلوم ہوسکتا تھا کہ یہ لوگ کس طرح خودکش بم بار تیار کرتے ہیں ۔اس کے علاوہ بھی کچھ اہم باتیں معلوم ہوسکتی ہیں ۔‘‘ سونیا نے پرُ خیال انداز میں سرہلادیا ۔ چڑھائی کی طرف ہمارا سفر پھر شروع ہوگیا ۔ جب شام کی سرمئی رنگت کجلانے لگی تھی ، اس وقت ہم پہاڑ سر کرنے میں کام یاب ہوئے ۔ اس کجلاہٹ میں ہمیں یہ نظر نہ آسکا کہ اب ہمیں کتنا نیچے اترنا ہوگا۔ ٹارچ روشن کرنا خطرے کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ۔ ویسے بھی میں اور سونیا اتنی تھک چکی تھیں کہ اب ہمیں آرام کی ضرورت تھی ۔ بانو نے میرے اس خیال کی تائید کی ، سو ایسی جگہ تلاش کی گئی جو زیادہ سے زیادہ ہم وار ہو ۔ ایک مناسب جگہ دیکھ کر ہم نے ’’ پڑائو ‘‘ ڈال دیا ۔ ’’ آپ نے اب تک ایک بات نہیں بتائی بانو !‘‘ میں بولی۔ ’’ وہ کیا ؟‘‘ بانو نے پوچھا ۔ ’’ آپ نے اپنے گھوڑے کے بارے میں نہیں بتایا ۔وہ طالبان کے ہاتھ لگ چکا ہے یا نہیں !‘‘ ’’ لگ چکا ہے ۔‘‘ بانو کی ہنسی بہت دھیمی تھی ۔’’ اور جھگڑے میں پڑگیا ہے ۔‘‘ ’’ جھگڑے میں ؟ کیا مطلب ؟‘‘ ’’ وہ بہ یک وقت دو طالبان کے ہاتھ لگا ہے اور ان میں تو تو ، میں میں بھی ہوچکی ہے ۔ دونوں اپنی اپنی جگہ اس گھوڑے کے حق دار بن گئے ہیں اور آخر میں یہ طے پایا ہے کہ یہ معاملہ ملا فضل اللہ کے سامنے پیش کیا جائے ۔ وہ جو بھی فیصلہ کرے گا، ان دونوں کو قبول ہوگا۔‘‘ ’’ ملا فضل اللہ ہے مرکز میں ؟‘‘ میں نے جلد ی سے پوچھا ۔ ’’ آج کسی وقت آئے گایہاں! وہ ہمیشہ کسی ایک جگہ نہیں رہتا ۔ جہاں جہاں طالبان کی کمین گاہیں ہیں ،وہ وہاں بھی جاتا ہے اور افغانستان بھی چلا جاتا ہے ۔‘‘ میرے اعصاب میں تنائو آگیا ۔ خیال یہ آیا تھا مجھے کہ اگر میں ملا فضل اللہ کو ہلاک کرسکی تو یہ میرا ایک بڑا کارنامہ ہوگا ۔ وہ تینوں مرکز میں پہنچیں تو کیا واقعات پیش آئے ؟ یہ کل کے روزنامہ92 میں پڑھیے! ٭٭