اگر میں اس وقت اپنی فائٹر کار میں ہوتی تو وہ ٹرک اپنا مقصد حاصل نہیں کرپاتا ۔ اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ میں کار میں بیٹھتی ‘ اس کا انجن اسٹارٹ کرتی اور اس سے وہ کام لیتی جو میں اس سے لے سکتی تھی۔ میں اس وقت بھول ہی گئی تھی کہ ہماری مدد کے لیے وہ ہیلی کوپٹر تو موجود تھا جسے کیپٹن عماد نے کسی اور مقصد کے لیے بلوایا تھا ۔ اس ہیلی کوپٹر سے ٹرک پر گولیوں کی بارش ہوگئی ۔ ٹرک کے عقبی پہیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔ ٹرک کے ٹائر دھماکوں سے پھٹے اور ٹرک پھسلتا ہوا سڑک کے نیچے اترا اور لڑھکنیاں کھاتا چلا گیا ۔ پھر جب وہ ایک جگہ رکا تو اس میں آگ بھڑک اٹھی ۔ ’’ لیٹ جائیں ۔‘‘ کیپٹن عماد نے مجھ سے کہتے ہوئے خود کو زمین پر گرادیا ۔ عماد کا خدشہ درست ہوا ۔ ایک دھماکے کے ساتھ ٹرک کے ٹکڑے فضاء میں اڑتے نظر آئے ۔ عماد نے اسی کے ٹکڑوں سے بچنے کے لیے مجھ سے لیٹنے کے لیے کہا تھا اور خود بھی لیٹ گیا تھا ۔ خود میں نے بھی اس کی تقلید کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی لیکن اتفاق یا خوش قسمتی سے ٹرک کا جلتا ہوا کوئی ٹکڑا بھی ہم تک یا میری کار تک نہیں پہنچا ۔ مجھے خیال آیا کہ ہیلی کوپٹر سے اس پر راکٹ داغا گیا تھا جس پر میری نظر نہیں پڑی تھی لیکن کیپٹن عماد نے دیکھ لیا تھا ۔ ’’ خس کم ‘ جہاں پاک ۔‘‘ وہ اپنے کپڑے جھاڑتا ہوا اٹھا ۔ میں نے بھی اٹھنے میں دیر نہیں لگائی تھی ۔ عدنان کار ہی میں دم بہ خود سا بیٹھا رہا تھا لیکن گولیاں چلنے کی آوازوں اور دھماکے کی آواز سن کر عقاب نے چیخنا شروع کردیا تھا ۔ ’’ اس کا ٹارگٹ میں تو ہر گز نہیں تھا خجستہ بیگم !‘‘ کیپٹن عماد نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس طرح کہا جیسے وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھا کسی فلمی منظر پر تبصرہ کررہا ہو ۔ اس نے اس واقعے کا ذرا بھی اثر نہیں لیا تھا اور اثر لینا بھی نہیں چاہئے تھا ۔ اس کا تعلق بہ ہر حال ایک ایسی ایجنسی سے تھا جس کے لیے اس قسم کے واقعات کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ مختلف سمتوں سے آتی ہوئی کئی گاڑیاں ہمارے قریب آکر رکیں۔ اس میں سے اترنے والے لوگ ہم سے اس واقعے کے بارے میں استفسار کرنے لگے۔ ’’حادثہ ہی ہے۔‘‘ کیپٹن عماد نے ان لوگوں سے کہا۔ ’’تیز رفتاری کے باعث ڈرائیور کو ٹرک پر قابو نہیں رہا تھا۔‘‘ ’’ہم بہت دور تھے لیکن گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دی تھیں۔‘‘ کسی نے کہا ’’وہ آوازیں ہم نے بھی سنی تھیں لیکن وہ کہیں اور چلی ہوں گی۔‘‘ کیپٹن عماد نے جواب دیا۔ ہیلی کوپٹر دور جاچکا تھا۔ غالباً عماد ہی نے اسے چلے جانے کا اشارہ کیا ہو۔ عدنان کار سے اترتا ہوا بولا۔ ’’پولیس کو فون کردینا چاہیے۔‘‘ کیپٹن عماد اس سے پہلے ہی موبائل اپنے کان سے لگاچکا تھا۔ جو لوگ وہاں رکے تھے، ان کی کاریں کھسکنے لگیں۔ لوگ پولیس کے چکر میں پڑنے سے عموماً گریز ہی کرتے ہیں۔ کیپٹن عماد کو موبائل کان سے لگاتے دیکھ کر سمجھ لیا گیا ہوگا کہ پولیس کو فون کیا جارہا ہے۔ فون کرنے کے بعد عماد نے مجھ سے کہا۔ ’’میری کار تو تباہ ہوگئی۔ کیا آپ سے گفت گو کرنے کے لیے میں آپ کی کار میں بیٹھ سکتا ہوں۔‘‘ ’’ہم یہاں کھڑے کھڑے بھی بات کرسکتے ہیں۔‘‘ میں نے شعلوں میں گھرے ہوئے ٹرک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ کیپٹن عماد نے خفیف سا سرہلایا، پھر کہا۔ ’’آپ نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں آپ سے ملنے ہوٹل کیوں پہنچا تھا!‘‘ ’’جی۔‘‘ ’’ٹرک کی وجہ سے میرا جواب ادھورا رہ گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ایک عام سی لڑکی معلوم نہیں ہوتیں۔ رات کو ہوٹل میں جو واقعات ہوئے وہ کسی عام لڑکی کو تو بہت پریشان کردیتے لیکن آپ بہت متحرک رہیں۔‘‘ ’’توسمجھ لیجئے کہ میں ایک عام لڑکی نہیں ہوں۔‘‘ ’’وہ تو یقینی امر ہے۔‘‘ کیپٹن عماد نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’کوئی تو سبب ہوگا کہ کسی نے آپ کے کمرے کا لاک کھولنے کی کوشش کی۔ وہ کسی شبہے کے تحت آپ کے بارے میں کچھ جاننا چاہتا ہوگا۔ پھر اس وقت جو کچھ ہوا، اس سے بھی میں ایک نتیجہ اخذ کرسکتا ہوں۔ اس ٹرک کی وجہ سے ہم دونوں ہی مارے جاسکتے تھے لیکن مجھے یقین ہے کہ اصل ٹارگٹ آپ تھیں۔ اس یقین کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب آپ ہوٹل سے روانہ ہوئی تھیں تو اس مسٹرڈ کار کے علاوہ یہ ٹرک بھی وہیں سے آپ کے تعاقب میں روانہ ہواتھا۔ میں تو اپنی کار اس کے بعد حرکت میں لایا تھا۔ یہ بعد کی بات ہے کہ میں اپنی کار آپ کی کار کے آگے لے آیا تھا۔ میرے محکمے کی ایک میٹنگ میں آج آپ خاص زیر بحث رہی ہیں۔ شبہہ کیا جارہا ہے کہ لارسن کے بارے میں آپ کو بھی کچھ معلوم تھا۔‘‘ ’’مجھے لارسن کے بارے میں کچھ نہیں معلوم، اور آپ کے محکمے کا یہ خیال بھی درست نہیں کہ میں کوئی عام لڑکی نہیں ہوں۔ ہاں میں ذرا بولڈ ضرور ہوں۔اس قسم کے واقعات میرے لیے کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔‘‘ ’’کیا آپ بھول گئیں کہ آپ کے کمرے کا لاک…‘‘ ’’وہ کوئی لٹیرا بھی ہوسکتا ہے۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔ ’’جو قاتل بھی ہے۔‘‘ عماد نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’ہاں یہ البتہ ایک اہم بات ہے۔ ایک آدمی کا بھی نہیں بلکہ دو آدمیوں کا قاتل۔‘‘ ’’اور آپ اتنی بولڈ ہیں کہ آپ کو ایک قاتل کی بھی پروا نہیں!‘‘ اس مرتبہ عماد کے لہجے میں ہلکا سا طنز تھا۔ ساتھ ہی اس نے کچھ دور نکل جانے والے ہیلی کوپٹر کو کچھ اشارہ کیا جو مجھ سے چھپا نہ رہ سکا۔ ’’ہیلی کوپٹر کو پھر قریب بلارہے ہیں؟‘‘ میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔ ’’ہاں۔‘‘ عماد نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’آپ کے محافظوں کی طرف سے خطرہ تو ہے۔‘‘ ’’آپ میرے بارے میں کوئی سخت قدم اٹھانے کی سوچ رہے ہیں!‘‘ ’’سخت قدم تو نہیں کہا جاسکتا اسے۔‘‘ عماد نے کہا۔ ’’دراصل پولیس تو آپ کا بیان لے کر مطمئن ہوچکی ہے۔ دراصل ہماری پولیس کو اگر کچھ نہ کرنا ہو تو وہ عموماً مطمئن ہوجاتی ہے لیکن میرے محکمے کا طریقہ دوسرا ہے۔‘‘ ’’یعنی؟‘‘ ’’میرے محکمے کو مطمئن کرنے کے لیے آپ کو میرے ساتھ چلنا ہوگا۔‘‘ میں اس خیال سے جھنجلا گئی کہ چولستان جانے کا معاملہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑتا نظر آیا تھا۔ ’’میرا وارنٹ ہے آپ کے پاس؟‘‘ میں تلخی سے بولی۔ عماد کے نام اور اس کی ہنسی کے انداز سے میرے اندر جو ایک نرمی پیدا ہوئی تھی، وہ یک لخت کافور ہوگئی تھی۔ ہیلی کوپٹر اس وقت سرپر گرج رہا تھا! کیا صدف کو واپس جانا پڑا؟ کل کے اخبار 92 میں پڑھیے!