ہم تینوں رکنے پر مجبور تھے ۔ ’’کہاں سے آئے ہو؟‘‘ بہ یک وقت دو سوال کیے گئے ۔ یہ صورت حال قطعی غیر متوقع تھی ۔ ایسے کسی موقع کے لیے میں نے کوئی جواب سوچا ہی نہیں تھا اور اگر بانو جواب دیتیں تو ان کی ’’مردانگی‘‘ کا پول کھل جاتا ۔ وہ دونوں طالبان ہی نہیں ، کوئی بھی عورت اور مرد کی آواز میں تمیز کرسکتا ہے ۔ سونیا بھی جواب میں نہ جانے کیا کہہ بیٹھتی لیکن اس وقت میں ہکا بکا رہ گئی جب بانو نے جواب دیا ۔ ’’ہم راستہ بھٹک گئے ہیں ۔‘‘ ان کی آواز سو فی صد مردانہ تھی ۔ دونوں طالبان بانو کی طرف متوجہ ہوگئے تھے ورنہ وہ میرے چہرے کے بدلے ہوئے تاثرات دیکھ لیتے ۔ بانو کی مردانہ آواز سن کر میرے چہرے کے تاثرات میں تبدیلی تو یقینا آئی ہوگی ۔ ’’کہاں جانا ہے تمہیں ؟ کہاں سے آرہے ہو ؟‘‘ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ سوال دہرایا گیا ۔ ’’علی زئی جانا ہے ۔‘‘ بانو نے جواب دیا۔ ’’دتا خیل سے آرہے ہیں ، یہ دونوں میری چھوٹی بہنیں ہیں۔‘‘ اب کوئی اور سوال کرنے کی بہ جائے وہ دونوں طالبان آپس میں باتیں کرنے لگے ۔ ان کی وہ سرگوشیاں ہماری سماعت تک نہیں پہنچ سکتی تھیں ۔ بس اندازہ ہی کیا جاسکتا تھا کہ وہ مشورہ کررہے ہوں گے ۔ پھر ان میں سے ایک کے ہونٹو ںپر عجیب سی مسکراہٹ ابھری ۔ ’’کیسے یقین کرلیا جائے کہ تم سچ بول رہے ہو ؟ ‘‘ ایک طالب بولا ۔ ’’ہم قسم کھاسکتے ہیں ۔‘‘ بانو ہی نے جواب دیا ۔ ’’تم لوگوں کی تلاشی لی جائے گی ۔‘‘ بانو کا جواب نظر انداز کیا گیا ۔ مجھے اسی بات کا ڈر تھا لیکن بانو اطمینان سے بولیں۔’’ لے لو تلاشی ! ‘‘ ’’اپنا سامان ایک طرف رکھ دو، تم اپنے کپڑے اتارو۔ ‘‘ پہلاجملہ کہتے ہوئے طالب نے میری اور سونیا کی طرف دیکھا تھا ، دوسرے جملے میں حکم کا انداز تھا اور وہ حکم بانو کو دیا گیا تھا ۔ ’’تم کیسے پٹھان ہو ! ‘‘میں بگڑے ہوئے انداز میں بولی ۔ ’’تمہاری غیرت کو کیا ہوگیا ہے؟ …ہم دونوں بہنیں بھی پٹھان ہیں ۔ تم ہمارے سامنے ہمارے بھائی کے کپڑے اتروانا چاہتے ہو ؟ ‘‘ طالب جو بانوپر نظریں جمائے ہوئے تھا ، میری طرف متوجہ ہوگیا ۔ مجھے گھورنے کے بعد وہ اپنے ساتھی کی طرف دیکھنے لگا ۔ ’’ٹیلے کے پیچھے لے جائو اسے! ‘‘ دوسرے طالب نے کہا ۔ ’’ میں ان دونوں کو دیکھتا ہوں۔‘‘ اشارہ میری اور سونیا کی طرف تھا ۔ پہلے طالب نے اس طرح سر ہلایا جیسے اپنے ساتھی کی بات سے متفق ہو۔ ’’چلو …اس طرف چلو۔ ‘‘ اس نے بانو کی طرف دیکھتے ہوئے سر سے اس طرح اشارہ کیا جیسے ٹیلے کے پیچھے چلنے کے لیے کہہ رہا ہو۔ ’’چلو۔‘‘ بانو نے منہ بناتے ہوئے اس طرف قدم بڑھایا جس طرف اشارہ کیا گیا تھا ۔ میرا دماغ اس وقت جیسے ہوا میں اڑ رہا تھا ۔ میں ان دونوں طالبان کو ایک دوسرے سے جدا کرنے میں کام یاب ہوگئی تھی لیکن یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب جو طالب سامنے تھا ، اسے کیسے زیر کیا جائے ۔ اس کے ساتھ ہی بانو کی طرف سے بھی فکر مند تھی ۔ ان کے دماغ میں بھی اس وقت خیالات کا سمندر امڈ رہا ہوگا ۔ وہ بھی کسی تدبیر پر عمل کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہوں گی ۔ یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے کپڑے اتار دیتیں ۔ ’’اب تو جان پر کھیلنا ہوگا لیڈر!‘‘ میرے برابر میں کھڑی ہوئی سونیا بڑبڑائی ۔ پہلا طالب اور بانو ٹیلے کی آڑ میں جا چکے تھے ۔ میں بھی سونیا ہی کی طرح بڑبڑائی ۔ ’’ اندھا دھند جان پر کھیلنا بھی حماقت ہوگی ۔‘‘ ’’کیا باتیں کررہی ہو ؟‘‘ سامنے کھڑا ہوا طالب غرایا ۔ میں نے اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ لانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔ ’’میری بہن کہہ رہی ہے کہ تم دونوں یقینا طالبان ہو ۔‘‘ ’’ٹھیک کہہ رہی ہے۔ ‘‘ طالب نے کہا ۔ ’’لیکن جو بات کرنا ہے زور سے کرو ۔‘‘ ’’لڑکیوں کی باتوں سے بھی ڈرتے ہو!‘‘ میں نے منہ بنایا ۔ میرا مقصد یہ تاثر دینا تھا کہ ہمیں ان دونوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے ، تلاشی لینے کے بعد وہ ہمیں جانے ہی دیں گے ۔ ’’بکو مت !‘‘ طالب پھر غرایا ۔ ’’یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی ؟‘‘ سونیا نے میرا مقصد سمجھ لیا تھا ۔ ’’چپ رہو ، ورنہ گولیوں سے بھون دوں گا۔ ‘‘ اس نے اپنی آٹو میٹک رائفل ہماری طرف سیدھی کی ۔ اسی وقت ٹیلے کے عقب سے ایک سنسناتا ہوا تیر آیا اور طالب کے بازو میں پیوست ہوگیا ۔ طالب کو جھٹکا سا لگا ، منہ سے ہچکی جیسی آواز بھی نکلی تھی ۔ بازو میں تیر لگنے کے باعث آٹو میٹک رائفل اس کے ہاتھ سے گرگئی ۔ میرے ذہن میں فوراً ہی ’’بانو‘‘ کا نام ابھرا اور میں تیزی سے طالب کی طرف جھپٹی ۔ سونیا میرے ساتھ تھی ۔ اسی سے میں نے فائدہ اٹھایا اور اس کے شانے پر اپنے ہاتھ کا دبائو ڈالتے ہوئے طالب کے سینے پر فلائنگ کک ماری ۔اس کے منہ سے پھر کچھ آواز نکلی اور وہ ڈگمگاتا ہوا چت گرا۔ میں نے اگر سونیا کے شانے کا سہارا نہ لیا تو خود بھی پتھریلی زمین پر گر کر اپنی کوئی ہڈی تڑوالیتی ۔ فلائنگ کک مارنے کے بعد میرے پیر زمین ہی پر لگے ۔ سونیا نے تیزی سے آگے بڑھ کر آٹو میٹک رائفل اٹھالی اور اس کا رخ طالب کی طرف کرتے ہوئے سخت لہجے میں بولی ۔ ’’اب تم میرے رحم و کرم پر ہو خبیث ! ‘‘ تیر طالب کے بائیں بازو میں پیوست ہوا تھا ۔وہ دائیں ہاتھ سے بایاں بازو پکڑے ہوئے اٹھنے کی کوشش کررہا تھا۔ بانو ٹیلے کی آڑ سے سامنے آگئیں ۔تیر کمان ان کے ہاتھ میں تھی۔ اگر میں نے سونیا نے صورت حال پر قابو نہ پایا ہوتا تو ایک اور تیر طالب کے سینے میں لگتا۔ بانو کے ساتھ جانے والے طالب پر کیا گزر ی تھی ! یہ کل کے اخبار میں پڑھیے ! ٭٭