سال ِ گزشتہ2023ء کی آخری ساعتیں اور سال ِ نو کے ابتدائی لمحے حضرت داتاگنج بخشؒکی بارگاہ اور چوکھٹ پر منعقد ہ دعائیہ تقریب میں میسر ہوئے،برسوں قبل سیّد محسن رضانقوی نے یہ "ٰ"Initiativeلیا اور اس پیغام کو عام کیا کہ مغرب کی تقلید میں، نئے سال کی آمد کی خوشی مناتے ہوئے بے مست ہوکر سڑکوں پر نکلنے کی بجائے، اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اپنی جبین نیاز جھکائیں اور نئے سال کے لیے، خیر، عافیت، امن اور ملکی تعمیر و ترقی کی دعا اور التجاء کریں، ابتدائی طور پر سٹی نیوز نیٹ ورک اور 92 ایچ ڈی ٹی وی نے اس دْعا کو براہ راست نشر کر نے کی سعاد ت پائی،جس کے سبب لوگوں کو ایک متبادل سوچ اور بہتر آپشن میسر آئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اس شب دربار شریف کی مسجد میں عشاء کی نماز کے بعد ذکر و اذکار، و عظ و نصیحت اور تلاوت و نعت کی ایک خوبصورت اور شاندار بزم آراستہ ہوجاتی ہے، جس کے ابلاغ عام کے لیے دونجی ٹیلی ویژن بطور ِ خاص اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور پھر سال کے اختتامی اور نئے سال کے ا بتدائی لمحوں میں دربار شریف پر حاضر ہو کر اجتماعی دْعا میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے :کْل جِدیدْلذیذَ یعنی ہر نئی چیز مزیدار ہوتی ہے ، شاید اسی فطری جذبے کے تحت ہم نئے سال کی خوشیوں کے فرضی اہتمامات میں کھو جاتے ہیں جبکہ اصل صورت تو یہ ہے کہ ہمیں عمر، زندگی اور کیریئر کا ایک سال کم ہونے کی فکر دامن گیر ہونی چاہیے اور مزید یہ کہ کیا ان گزرے شب و روز میں ہم وہ کچھ کر گزرنے میں کامیاب ہوسکے، جس کے کرنے کا عہد ہم نے سال ِ گزشتہ کی آمد کے موقع پر باندھا تھا۔ امام فخر الدین رازیؒ کہتے ہیں کہ میں نے وقت اور شب و روز کے زائل ہونے کا منظر ایک بر ف فروش سے سمجھا، جو بازار میں آوازیں لگا رہا تھا کہ رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ گْھلا جارہا ہے، آپ فرماتے ہیں اس کی یہ بے چینی دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ عمر کی جو مدت انسان کو دی گئی ہے، وہ برف کے پانی گلْنے کی طرح ،تیزی سے تحلیل ہو رہی ہے اور اگر اس کا صحیح استعمال نہ ہو تو پھر انسانی زندگی محض خسارہ ہی خسارہ ہے۔ نئے سال کی یہ نئی ساعتیں ہم سے تجدید ِ نو کا نقاضا کرتی ہیں۔ تجدیدِ نو بیدار انسانی زندگی کا خاصا ہے، فردِ بشری اور ہر شعبہ حیات اس تبدیلی اور تجدید کے عمل سے کسی نہ کسی طرح گزرتا ہے۔ بہت سے جذبے، داعیے، امور اور علوم ایسے ہیں جن کے بارے میں انسان پہلے کسی طرح کا کوئی شعور اور آگاہی کا حامل نہ تھا، اور پھر اس نے کیسے کیسے ہنر سیکھے اور نت نئی ایجادات کے ذریعے انسانی زندگی میں انقلاب برپاہوگئے۔انسانی زندگی میں اس طاقت، توانائی اور انرجی کا اصل منبع حقیقی صلاحیتوں کا بروقت ادراک اور اس کا صحیح استعمال ہے،بڑے بڑے جوہرِ قابل وقت کی صحیح قدر دانی سے محروم رہے اور زندگی کے تھپیڑوں کی نذر ہوگئے۔ اصل کام شب و رو ز میں زندگی کا رنگ بھرنا اور حقیقی جذبے فراواں کرنا ہے، جس کے لیے حیات کے ایک ایک لمحے کی قدر دانی لازم۔اس لیے کہ ماہ و سال کی برق رفتاری۔۔۔ منزلوں پہ منزلیں سَر کئے جا رہی ہے، ابھی نیا سال شروع ہوا تھا اور اب ختم ہونے کو ہے، اسی کیفیت اور صورت حال کی نبی اکرم ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے نشاندہی فرماتے ہوئے ، اسے قربِ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دے کر، فرمایا تھا کہ دنوں ، ساعتوں اور لحظوں میں برکت اتنی کم اور وقت اس قدر تیزی سے گزرے گا کہ سال۔مہینے کی طرح ، مہینہ۔ ہفتہ کی طرح، ہفتہ۔دن اور دن۔ گھنٹے کی طرح۔۔۔۔ اور گھنٹہ اتنا مختصر جیسے آگ کا شعلہ۔۔۔۔۔ جو فوراً ہی جَل کر بْجھ جاتا ہے۔ رَو میں ہے رَخش عمر، کہا ںدیکھیے تھمے نَے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں جو سال آغاز پذیر ہوا ، وہ سنِ عیسوی ہے ، جو شمسی سال بھی کہلاتا ہے، جس کا آغازجنوری اور اختتام دسمبر پہ ہوتا ہے۔ سن عیسوی کی نسبت حضرت عیسیٰ ؑکی ولادت سے ہے، موجودہ سنِ عیسوی کی باقاعدہ ترتیب حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت کے کئی سال بعد ، عمل میں آئی۔بہر حال اس وقت پاکستان سمیت ، دنیا کے غالب حصے میں یہی کیلنڈر مروج، اور اسی کے مطابق ، دنیا نئے سال کے جشن میں مستغرق ہوئی۔ ہمارے ہاں کا دیسی کیلنڈر’’بکرمی‘‘ہے، جس کے آغازکا عہد ’’زمانہ قبل ازمسیح‘‘ ہے۔معروف ہے کہ یہ کیلنڈر یہاں کے قدیم بادشاہ ’’وکرم‘‘ سے موسوم ہے، جو بعد میں ’’بکرم‘‘، اورپھر اسی سے ’’بکرمی‘‘ہوا۔ سکھ مذہب چونکہ ہمارے اسی خطہ کی پرداخت ہے، اس لیے ان کی ساری مذہبی رسومات اسی کیلنڈر کے مطابق ہیں۔ہمارے دیہاتی کلچر میں، آج بھی موسموں کی خوشبو ان مہینوں سے بندھی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی آمد سے قبل برصغیر میں یہی کیلنڈر رائج تھا۔ ازاں بعد ہجری کیلنڈر اور پھر عیسوی تقویم مروج ہوگئی، جو تاحال جاری ہے۔ حْسنِ اتفاق کہ یہ تمام کیلنڈر بارہ مہینوں ہی پر مشتمل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے بھی مہینوں کی تعداد قرآن پاک میں بارہ ہی بیان فرمائی ہے۔ سورۃالتوبہ کی آیت 35 میں ارشاد ہے: اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہْورِ عِنْدَ اللّٰہِ اثنَا عَشَرَ شَھرًا فِی کِتٰبِ اللہِ۔۔۔۔ "بے شک اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعدادبارہ ہے، کتاب الہٰی میں۔۔۔" شمسی اور بکرمی کیلنڈر۔۔۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ، ایک دوسرے سے وابستہ رہتے ہیں، پوہ ہمیشہ دسمبر ہی میں آتا ہے اور ساون بھادوں، جولائی اگست میں ، لیکن قمری اور اسلامی کیلنڈر میں اللہ تعالیٰ نے یہ تنوّع رکھا ہے کہ اس میں ماہِ رمضان۔۔۔ مئی، جون کے تپتے ایام میں اور کبھی یہ نومبر، دسمبر کے ٹھنڈے موسم میں آجاتا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے ، نئے سال اور ماہ کی آمد کے موقع پر جو دْعا تعلیم فرمائی، وہ امن ، حفاظت ، اللہ کی رضا ، سلامتی ایمان کے جذبوں سے مامور اور شیطان اور شیطانی کاموں سے محفوظ رہنے کی ہے۔ جو نئے سال کا سورج تھا، نئی امنگوں ، جذبوں اور ولولوں کے ساتھ طلوع ہوا، خدا کرے اس سال میں ہماری سوسائٹی کے دردوں کا درمان ہو، کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہمارا معاشرہ ، سماجی ،ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی سطح پر شدید دبائو کا شکار ہے، جس سے نکلنے کی تمنا ہر دردمند پاکستانی کے دل میں بَسی ہوئی ہے۔ حکیم الامت حضرت اقبال نے نکلسن کے نام اپنے خط میں بھی یہی لکھا تھا کہ میرے فکر وفلسفہ کا بنیادی مقصد بھی صرف یہی ہے کہ میں اپنے معاشرے کی ایسی سماجی تنظیم نو چاہتا ہوں، جس میں ہم مادیت کی بجائے روحانیت کو ترجیح دینے کی استعداد کے حامل ہو سکیں۔ اس کا مطلب ترکِ دنیا یا خانقاہ نشینی نہیں، بلکہ اس سے مراد اپنے مفاد پر سوسائٹی اورقوم کے مفاد کو ترجیح دینا ہے۔ ہمارا ہر عمل مادی مقاصد کی بجائے اعلیٰ تر انسانی اقدار کی ترویج اور سربلندی کے لیے ہو۔ ہمارے سماجی اور معاشی بحران کا اصل سبب بھی دراصل اخلاقی تنزل ، بدا نتظامی اور بدعنوانی ہے، جس کے سبب ایک طرف ہماری معیشت اور دوسری طرف ہمارا مجموعی وجود ہے۔۔۔۔جو کھوکھلا ہو کر رہ گیا۔ جان ایف کینڈی نے 1963ء میں امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا : "ہمیں زندگی میں سال جمع نہیں کرنے چاہئیں، بلکہ مہ وسال میں زندگی جمع کرنی چاہیے"۔