سیاست کو عبادت کہا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں ہونے والی سیاست کیا عبادت ہے؟ بانی پاکستان کی رحلت کے بعد جو کچھ ہوا سو ہوا، گزشتہ تقریباً تین سال سے عبادت کی سیاست کے نام پر ہونے والے تماشوں نے ملک و ملت کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے، اوپر سے ستم بالائے ستم عام انتخابات سے وابستہ توقعات 8 فروری کو ہی دم توڑ گئیں۔ کہنے والے ان انتخابات کو ملکی تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات قرار دے رہے ہیں۔ خدا کی پناہ خود ن لیگ کے بیشتر ذمہ داران بانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت مدت پوری کر پائیگی نہ اس کا زیادہ دیر چلنا ممکن ہے، لہذا ان نامساعد حالات میں ملکی معیشت کا سنبھلنا آسان کام نہیں، جس کے نتیجہ میں عام آدمی مزید بری طرح متاثر ہوگا۔ موجودہ نگران حکومت نے جس انداز میں معاملات کو چلایا، اس کی ہٹ دھرمی کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ قومی اسمبلی کی تحلیل سے قبل نگران حکومت کے اختیارات میں توسیع کا بل پاس کیا گیا تھا اس لیے نگران حکومت کے دور میں ہونے والی مہنگائی کو بھی عوام سابقہ پی ڈی ایم حکومت کے کھاتے میں ڈالتے ہیں مگر یہاں یہ سوال بہت اہم ہے کہ جس پی ڈی ایم حکومت سے عوام سخت بیزار ہیں، اس کے پارٹ ٹو کی صورت میں تسلسل کو برداشت کیا جائیگا؟ پی ڈی ایم کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے ملک کو بچانے کیلئے اپنی سیاست کی قربانی دی اور عبادت کی سیاست کی، باربار کہا گیا کہ جب پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو ملک ڈیفالٹ ہونے کے قریب تھا۔ پی ڈی ایم حکومت جب قائم ہوئی تھی، اسحاق ڈار لندن میں "زیر علاج" تھے، ن لیگ کے مفتاح اسماعیل کو وفاقی وزیر خزانہ بنایا گیا، چند دنوں پہلے مفتاح اسماعیل اعتراف کر چکے ہیں کہ جب پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ ہوا ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں تھا تاہم پی ڈی ایم حکومت نے جب مہنگائی کی شرح کو 45 فیصد کی حد تک پہچایا اور عوام کی حالت بد حال کر دی تو پھر عوام کا رد عمل 8 فروری کے انتخابات کی صورت میں سامنے آنا بنتا تھا لیکن اس ردعمل کو بھی تسلیم نہ کیا گیا۔سوال تو یہ بنتا ہے کہ اس کا ردعمل کیا ہوگا؟ عوام کسی طور پر اس عبادت کی سیاست کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں، جس کے تسلسل کے طور پر ایک مرتبہ پھر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ہم ملک کی خاطر سیاست کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔عجب طرفہ تماشا ہے کہ اقتدار کو چھوڑنا نہیں چاہتے اور عوام کے دھتکارنے پر عبادت کناں ہونے کے دعوے زن ہیں۔ پی ڈی ایم کے کرتا دھرتا درحقیقت عوام کا درد محسوس کرنے سے قاصر ہیں، کسی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ ملک و ملت کی خیر خواہی کا فریضہ سر انجام دیا جا رہا ہے۔ نواز شریف شاہی پروٹوکول میں لندن سے انتخابی مہم چلانے نہیں آئے تھے، وہ چوتھی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم بننے آئے تھے، ہر طرف کہا جارہا تھا: ساڈی گل ہوگئی اے، عوام کے ردعمل نے اس تناظر میں کیا ساری منصوبہ سازی پر پانی نہیں پھیر دیا۔ ایسی ڈھٹائی کی توقع نہ تھی پر کیا کریں جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے! کیا ایسی وفاقی حکومت جس کے قیام سے پہلے اس کی ناکامی کے دعوے کیے جا رہے ہوں اور جواباً کہا جائے کہ ہم نے سیاست کو قربان کر کے ملک کو بچانا ہے۔آپ سیاست نہیں ریاست بچانے کے نعرے تو بلند کرتے ہیں لیکن جو کارکردگی دکھائی گئی، کون سی خدمت کی گئی؟ نیب قوانین میں ترامیم کر کے استفادہ حاصل کیا گیا۔ سیاسی انتقام کی حد کر دی گئی، ملک کی سب سے بڑی عدالت کے حکم پر ملک کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں آئین کے مطابق 90 روز میں انتخابات نہ کروائے گئے۔ مہنگائی کے اژدھا کا منہ کھول دیا گیا، زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً ختم کر دئیے گئے، ملک کی صنعت، تجارت کو تباہ کر دیا گیا۔ بیروزگاری کا طوفان برپا کردیا گیا۔ ہر شعبہ کو تباہی کے آخری دھانے پر پہنچا دیا گیا۔ وفاقی کابینہ کے اراکین کی تعداد 86 تک پہنجا دی گئی۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں متواتر ہولناک اضافے کیے گئے۔ جب عوام کی چیخیں نکلیں، آہ و فغاں بلند کی گئی تو ریاستی ظلم و جبر کا بازار سرگرم کردیا گیا ۔ قوم نے ایسی عبادت کی سیاست کے تمام دعووں کو اپنے ووٹ کی طاقت سے یکسر مسترد کردیا لیکن اس کے باوجود پی ڈی ایم پارٹ ٹو حکومت کا قیام عوام کے صبر کے پیمانے کو لبریز کر رہا ہے، سوچنے کی یہ بات ہے کہ ایک جانب پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا ریفرنس زیر سماعت ہے جس دوران اس وقت کے ججز پر پریشر کا بار بار تذکرہ سامنے آ رہا ہے اور دوسری طرف آمر ڈکٹیٹر ضیا الحق کے 1985ء کے ڈھانچے کے بنیفشریز کیلئے راہ بھی ہموار کی جارہی ہے، جو بھی ہو ایک بات نوشتہ دیوار ہے کہ پی ڈی ایم پارٹ ٹو حکومت میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں اور سیاسی چہرے شامل ہیں، وہ ملک و ملت کی تقدیر تبدیل نہیں کرسکتے، اگر ان تلوں میں تیل ہوتا، آج ہمارے حالت تبدیل ہوچکی ہوتی، نئی بوتل پرانی شراب والے بے سود۔جس کا مطمع نظر فقط عوامی مقبولیت کی حامل لیڈر شپ کا راستہ روکنا ہو، جمہوریت، سیاست اور حکومت کے اس بے رحمانہ کھیل میں چاہے جتنے بھی عبادت کے دعوے کیے گئے، ملک و ملت کا ہر بار نقصان کیا گیا اور آخرکار جب بھی قوم کھڑی ہوئی، اسے بھی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اس پر مزید تماشے کہ عوام کو قوم کی بجائے ہجوم کے طعنے کسے گئے۔ عوام کی یہاں وقعت کیا ہے؟ عوام کی سوچتا کون ہے؟ عوام کو پوچھتا کون ہے؟ عوام جیے مرے انھیںکیا سروکار؟ سیاست کو عبادت کہا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں ہونے والی سیاست کیا عبادت ہے؟۔