رب الکریم نے ہمیں یہ عظیم سعادت نصیب فرمائی کہ ہم محمدکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں لیکن ہمیں امت وسط قراردیکرہم پربہت بڑی ذمہ داریاں بھی عائدکردی گئی ہیں ۔ ہم طبقوں اورٹولیوں میںمنقسم ہیں ،ہماراشیرازہ بکھرا ہوا ہے، ہم مشکل حالات میں گھرے ہیں لیکن اپنامحاسبہ کرنے کے لئے تیارنہیں ہیں ہماری پستی کا واحدسبباللہ کی غلامی اور اسوہ حسنہ اورسیرت طیبہ سے روگردانی ہے یہی وجہ ہے کہ اغیار نے ہمیں اپنا غلام بنا رکھاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خبر دی تھی کہ’’ دنیا کی قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی ۔عرض کیاگیااس کی وجہ کیاہوگی ۔فرمایا’’حب دنیاوکراہت الموت‘‘۔ دنیا سے محبت اورموت سے نفرت۔ یہ بات پلے باندھ لینی چاہئے کہ اسوہ حسنہ کی پیروی میں ہماری نجات مضمر ہے ۔یہ اسوہ حسنہ سے روگردانی ہی کانتیجہ ہے کہ من حیث الملت ہم پرذلت اورمسکنت مسلط ہے ۔آج ہماری مجموعی حالت یہ ہے کہ صفیں کج ، دل دریدہ اورارادے کمزورہیں۔ہمتیں شکستہ اورنگاہیں پست ہیں۔آرزو مردہ اور دل آزردہ ہیں۔آخرت ہماری منزل نہیںرہی ۔ امید ہماری سواری نہیںرہی۔یقین ہمارا زادِ راہ نہیںرہا۔ حوصلہ ہمارا رفیق نہیںرہا۔وحدت ہمارا شعار نہیںرہا۔اتحاد ہماری قوت نہیں رہی۔ غیرت ہماری پہچان نہیںرہی۔تعاون ہمارا شیوانہیںرہا۔مساجدتو اللہ کے گھر ہیں،پر ہم نے ان کو فرقوں کے قلعوں میں تبدیل کر لیا، ہم آپﷺ کی ذات مبارکہ سے عشق کا دعویٰ تورکھتے ہیں،پر آپ کی سنتِ مطہرہ سے آنکھیں موندی ہوئی ہیں۔ہماری بدبختی کانتیجہ ہے کہ آج آپﷺ کا اسوہِ حسنہ ہمارا مرکزاتباع نہیں۔ آپ کی تعلیمات ہمارا معیار عمل نہیں ۔ہم خواہشاتِ نفس کے غلام ،ہم حرص و ہوس کے بندے ۔ہم حیاتِ دنیا کے اسیر ،ہم پیٹ پوجاکرنے والے قوالوں کے دھنوں پر سر دھنتے ہیں لیکن اپنی زندگی کے معاملات میں آپﷺ کی اطاعت و پیروی کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے ایمان کا ،لیکن وہ قرآن، وہ پیغام ، وہ تعلیم جو لے کر آپ تشریف لائے ہم اس کے مطابق زندگی گزارنے سے گریزاںہیں۔آپ نے اچھے اخلاق کو ایمان کی کاملیت کی دلیل بتایا ،پر ہم اخلاقی گراوٹ سے اوپر اٹھنے پر آمادہ نہیں ،اس لیے دولتِ ایمان سے بھی خالی ہیں۔آپ نے ایمان کے رشتے کو ہماری اخوت کی بنیاد بنایا،پر ہم نے ذات، قوم قبیلے ، رنگ، نسل اور زبان کو اپنے لیے وجِہ افتخار بنا لیا۔ہم نے آپ کے لائے ہوئے خالص دین میں فرقے نکال کر اسے پارہ پارہ کر دیا۔ آپ ﷺنے تلقین فرمائی تھی کہ پیغامِِ حق لے کر اٹھو اور دنیا پرچھاجائو ،پر ہم آپس میں دست وگریبان ہیں ۔آپ نے مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کے قتل کو کفر اور مسلمان کی زبان سے دوسرے مسلمان کو گالی گلوچ کو فسوق یعنی کھلا اور بھاری گناہ قراردیا تھا، لیکن ہمارے ہاں بھائی کے ہاتھوں بھائی کا قتل معمولی چیزبن چکی ہے حضور نبی کریم ﷺکے عین فرمان کے مطابق جس کاعتاب ہم پرنازل ہوچکاہے۔شرارِ بو لہبی چراغِ مصطفوی ؓ سے ستیزہ کار ہے۔آج دنیا میں سب سے زیادہ کمزور ہیں تو آپکے یہ نام لیوا،جانیں سب سے سستی ہیں تو آپ کے امتیوں کی ،خون سب سے زیادہ ارزاں ہے تو خونِ مسلم ہے،باطل سامراج کاسب سے پسندیدہ مشغلہ مسلمانوں کا شکار ہے،ذلت و نکبت مقدر ہے تو اہلِ اسلام کا،زوال و ادبار قسمت میں لکھے ہیں تومسلمانوں کے ،بے بسی اور ضعف کی علامت ہیں تو وہ جو آپ سے نسبت رکھتے ہیں۔ افلاسِ مال، افلاسِ فکر اور افلاسِ عِلم کا شکار ہیں تو ہم جو دنیا میں عِلم و آگہی کی روشنی پھیلانے آئے تھے۔عقل و فراست زنگ آلود ہے تو ہماری ،جن کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ ’’ ڈرو مومن کی فراست سے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘۔ آج خدا کی زمین پرتنکے سے بھی ہلکی کوئی مخلوق ہے تویہ دو ارب مسلمان ۔ آپ نے فرمایا تھا کہ’’ تنہا ایک مومن کا وزن ایک جماعت کے برابر ہوتا ہے‘‘۔حاکموں اور رعایا کی منزل جدا جدا ہے۔معیارات الگ ہیں۔ حکمران عدل سے رو گرداں اور ظلم شعار ہیں۔ وہ یہودوہنود کوآقا بناچکے ہیںاورپھران ہی آقائوں کے آگے سرنگوں مگراپنی رعایا کے حق میں سخت گیر، بے رحم اور ظالم ہیں۔رعایا کی بدترین حالت پر ان کا دل نہیں پسیجتا ۔ ربیع الاول کے ماہِ مقدس کی یہ مبارک ساعتیں ہمیں سیرت پر عمل پیرا ہونے کا پیغام دیتی ہیں۔محض دکھاوے کے لئے برقی قمقموں سے دیواریں روشن کرنے کی بجائے ہمیں آفتابِ فاران کی کرنوں سے اپنے دلوں کی اجاڑبستیوں کو اجالنے کا اہتمام کرنا ہو گا۔ شہر کی دیواریں روشن ہوں اور دل کا نگر ظلمت گزیدہ وتاریک رہے۔ تویہ چراغاں چہ معنی دارد؟ محبوبِ کائنات کی حیات مبارکہ کو خالق کائنات نے اسوحسنہ سے تعبیر کیا ہے اورفرمایا۔لقد کان لکم فی رسول للہ اسوہ حسنہ۔کلامِ مجید میں تو ربِ کائنات کے اس فرمان کا مطلب یہ بتلانا ہے کہ سیرتِ طیبہ کا بیاں محض سماعت کیلئے نہیں بلکہ اس کے سامنے اپنی زندگیوں کا تکبرسر نگوں کرکے سراسر اطاعت وپیروی کیلئے ہے۔سیرت طیبہ کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے گذشتہ کا احتساب اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرکے فلاح و صلاح انسانیت کے لئے ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ مشغول ہو جانے کاعزم کرناسیرت طیبہ کاعملی مطالبہ ہے۔ آپ کی سماجی،سیاسی،معاشی، معاشرتی اور عائلی زندگی کے تابناک گوشوں کوسمجھنے اورپھر بامقصد عملی زندگی اختیارکرنے، آپ کی رحم دلی، احترام انسانیت، حقوق اللہ و حقوق العباد ،دعوت اسلام،سماجی بائیکاٹ، ترک وطن و ہجرت،کفارومشرکین اعدائے دین ،کفارومشرکین کی طرف سے ناقابل برداشت ظلم و ستم، عناد و دشمنی پرآپ تلواربکف ہوئے پھربدر،احد،احزاب اورحنین کے معرکے اسوہ حسنہ کے ایک ایک سبق کویاددلاتاہے کہ سیرت طیبہ کے جملہ دروس کے عنوانات کون کو ن سے ہیںاورانکے کیاتقاضے ہیں۔آپ کی رواداری ومساوات، خواتین کے حقوق و احترام،بچوں کی تعلیم و تربیت و ذہنی تعمیر۔حق کی پاسداری اور برائیوں کی بیخ کنی کے دلنشین طریقے ۔آپسی اخوت اورپڑوسیوں کے حقوق ۔ان سب کے حوالے سے سیرت طیبہ سے مکمل راہنمائی حاصل کرناماہ ربیع الاول کاہم سے عملی مطالبہ ہے ۔ ہماری صورت اورہماری سیرت اسوہ رسولﷺ سے کوئی میل نہیں کھاتی پھربھی ہم یہ کہیں کہ ہمیں ہرجگہ اورہرمحاذ پرمارکیوں پڑرہی ہے آج اس پرغوروفکر کرنے کی اشدضرورت ہے اگر ہم اپنی صورت اورسیرت اسوہ رسول کے سانچے میں ڈالیں تواس میں کوئی شک نہیں کہ ہم عظمت رفتہ کوبحال کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔