جب کرنے کو کوئی کام کوئی مصروفیت نہ ہو‘ لکھنے پڑھنے سے بھی جی اکتا جائے اور بوریت و بیزاری وجود کو منجمد کر دے تب کچھ اور نہیں سوجھتا تو میں ٹی وی کھول کے سامنے بیٹھ جاتا ہوں۔آج سہ پہر بھی کچھ ایسی ہی صورت پیش آئی۔میں ریموٹ سے کھیل رہا تھا کہ انگلی ایک چینل پر تھم گئی۔پروگرام تھا ’’ذمہ دار کون؟‘‘ اینکر صاحب فیصل آباد کے بازاروں میں دکانداروں ‘ دیہاڑی کے مزدوروں اور راہگیروں سے مہنگائی کی بابت ان کی رائے پوچھتے پھر رہے تھے۔ایسے پروگراموں میں کوئی خاص کشش اور دلچسپی نہیں ہوتی کیونکہ پروگرام دیکھے بغیر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جوابات کیا ہوں گے؟ اور پھر مہنگائی کا رونا تو ہمیشہ عوام روتے ہی رہتے ہیں۔قطع نظر اس سے کہ حکومت کس کی ہے اور کورونا کی وبا کے بعد تو دنیا بھر میں مہنگائی کی آگ نے بازاروں اور شاپنگ سنٹروں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔پٹرول ڈیزل گیس اور بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ ہو گیا ہے۔جس کو دیکھو وہ مہنگائی کا رونا روتا ہوا ملتا ہے۔اس لئے ٹی وی کے کسی ایسے پروگرام میں دیکھنے کے لئے کیا نیا پن ہو سکتا ہے۔پھر بھی میں ٹھہر گیا‘ یہ دیکھنے کے لئے کہ دیہاڑی کے مزدور اور دکاندار کہتے کیا ہیں؟ کسی بھی حکومت کی برائی سننے کا مجھے کوئی خاص شوق نہیں۔میں تو بس مہنگائی کے شکار بدحالوں کا حال ان کی زبانی سننا چاہتا تھا۔اینکر نے ایک دیہاڑی کے مزدور کے آگے مائیک کر کے پوچھا آج کتنا کمایا؟ جواب ملا۔کام نہیں ملا۔ ’’بچے کتنے ہیں؟‘‘ ’’تین بچّے ہیں۔دو بیٹا‘ ایک بیٹی‘‘ ’’آج گزارہ کیسے ہو گا؟‘‘ ’’کسی سے ادھار مانگوں گا‘‘ ’’ادھار نہ ملا تو۔‘‘ ’’یہ تو ہوتا رہتا ہے صاحب۔کبھی کھاتے ہیں کبھی نہیں کھاتے‘‘ ’’اس کا ذمہ دار کون ہے؟‘‘ ’’حکومت!‘‘ اینکر کو حسب منشا جواب مل گیا‘ اس نے مائیک ایک دوسرے مزدور کی طرف کر دیا۔وہاں بھی کچھ ایسے ہی سوال و جواب ہوئے۔اینکر نے جتنے مزدوروں سے رابطہ کیا وہاں بھوک و افلاس کی یہی صورت حال تھی۔روز کمانے اور روز کھانے والوں کا حال سب سے دردناک تھا۔اگر شہر میں حکومت یا امراء کے طبقے نے کوئی ایسا ادارہ یا ریسٹورنٹ کھول رکھا ہوتا جہاں بھوک کے مارے حاجت مندوں اور ان کے بیوی بچوں کی یہ بنیادی حاجت پوری کرنے کا انتظام کیا جاتا تو دیہاڑی کا وہ مزدور جو اپنی بے کسی اور افلاس کا حال بتاتے ہوئے رو پڑا تھا اور جس نے نہایت دُکھے ہوئے لہجے میں کہا کہ صاحب !موت ہی ہماری مصیبتوں کا حل ہے۔یقینا اسے یہ کہنے کی نوبت نہ آتی۔شہر کراچی میں جسے شہر ناپرسان بھی کہا جاتا ہے‘ یہاں کئی مقامات پر مفت کا دسترخوان بچھتا ہے‘ جہاں سے غریب غربا آ کر اپنی بھوک مٹاتے ہیں۔گلشن اقبال میں بھی ایک ہوٹل میں نے دیکھا جس پہ یہ اعلان تختی پر لکھا آویزاں تھا: ’’یہاں غریبوں کو مفت کھانا ملتا ہے۔‘‘ ہوٹل کے سامنے ہی فٹ پاتھ اور آئی لینڈ پہ قطار سے دور تک مفت کھانا لینے والوں کو بھی دیکھا ہے جب بھی وہاں سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ فیصل آباد میں جہاں کے بارے میں یہ پروگرام تھا‘ ایسا کوئی انتظام نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے۔سیاسی جماعتوں کا کام کیا صرف جلسہ جلوس کرنا اور احتجاجی اجتماعات اور دھرنا دینا ہے۔اگر انہیں عوام سے ہمدردی کا دعویٰ ہے تو کیا ضروری ہے کہ اس کے لئے برسراقتدار آنے ہی کا انتظار کیا جائے۔پچھلی حکومت نے دارالحکومت میں جو شیلٹرز بنائے تھے اور جہاں مفت کھانا کھلانے کا اہتمام کیا گیا تھا‘ سنا ہے نئی حکومت نے اسے فضول خرچی قرار دے کر بند کر دیا ہے۔کیا واقعی ایسا ہوا ہے؟ کیا اس سے زیادہ سنگ دلی اور سفاکی کا رویہ کسی حکومت کا ہو سکتا ہے؟ گداگر اور منہ کھول کے بھیک مانگنے والے اس ملک کا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہیں جتنا بڑا مسئلہ وہ سفید پوش طبقہ ہے جو غیرت و حمیت یا شرم و حیا کی وجہ سے ہاتھ نہیں پھیلا پاتا۔ہر مسئلے کا حل اور ہر روگ کا علاج ہے۔لیکن کرے کون؟ انتشار و افراتفری سے عبارت اس معاشرے میں اتنی پریشانیاں اور اس قدر مسائل ہیں کہ ہم نے اپنی ترجیحات ہی گُم کر دی ہیں۔یہ سوچنے تک کی فرصت نہیں کہ کون کون سے مسئلے ہیں جن کو ہم مل جل کر حل کر سکتے ہیں۔بے شک بھوک اور غذا کی فراہمی اوّلین مسئلہ ہے‘ بلا امتیاز ہر بھوکے کو کھانا کھلانا ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔حکومت کو ہر درد کی دوا ٹھہرانا اور اسی کی طرف امید بھری نگاہ سے تکتے رہنا‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ خود حکومت ہاتھ میں کشکول گدائی تھامے آئی ایم ایف اور متمول ملکوں کی طرف دیکھتی رہتی ہے کہ شاید امداد مل جائے‘ قرضہ منظور ہو جائے۔نہیں حکومت نہیں‘ یہ طبقہ‘ امراء ہی نہیں، ان متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقوں سے بھی امید رکھنی چاہیے کہ وہ ہر شہرت میں ایسے ادارے‘ تنظیمیں اور انتظامات وجود میں لائیں گے۔ جن کی اولین ذمہ داری بھوکوں کی بھوک مٹانا ہو۔کتابوں میں آتا ہے کہ سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیائؒ کو پیش کیا جانے والا کھانا صبح کو بدستور اسی طرح پڑا پا کر جب ملازم نے پوچھا کہ حضرت کھانا کیوں نہ کھایا تو جواب میں فرمایا کہ یہ خیال کھانے کو زہر کر دیتا ہے کہ دلّی میں کتنے ہی ایسے ہوں گے جنہیں کھانا میّسر نہ آیا ہو گا اور وہ بھوکے پیٹ سو رہے ہوں گے۔ حالانکہ آپ کی خانقاہ میں لنگر کا اہتمام تھا‘ سینکڑوں بھوکوں کی بھوک اسی لنگر سے مٹتی تھی۔یہی درد مندی اور انسان دوستی تھی کہ حکیم الامت نے سلطان المشائخ کے بارے میں فرمایا: ع مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا آج بھی خداوند تعالی نے ان کے نام کو زندہ رکھا ہوا ہے۔یہ زندگی اور یہ دولت و امارت کا کھیل یہ سب آزمائش ہی تو ہیں۔ہر معذور و اپاہج صحت مندوں کے لئے اور ہر ننگا بھوکا صاحب لباس اور صاحب رہائش کے لئے ایک امتحان و آزمائش سے زیادہ کچھ نہیں۔فٹ پاتھوں‘ پارکوں اوور ہیڈ برجوں پہ کھلے آسمان تلے سونے والے شکوہ تو نہیں کرتے لیکن ان کی درماندہ حالت خدا سے ضرور فریاد کرتی ہے کہ مالک رحم‘ ہم پہ رحم کر اور سخت دلوں کی سخت دلی کو موم کر دے۔زندگی پر انسان ہونے کے ناتے اتنا بھی ہمارا حق نہیں کہ پیٹ بھر کر کھانا اور سونے کے لئے چھت اور بچھونا ہی مل جائے۔ ہاں یہ ہم سب کے سوچنے کا مقام ہے۔خدا آسمانوں سے دیکھ رہا ہے اور صبر و تحمل کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔ذرا سوچیے تو سہی سب کچھ میسر ہو کر بھی ہم بے سکون کیوں ہیں؟ہمارے دکھ اور پریشانیاں کیوں ختم نہیں ہوتے۔کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی۔شاید یہی وجہ ہو!