سٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئندہ دو ماہ کے لیے شرح سود میں 0.25 فی اضافہ کردیا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق مارک اپ میں اضافہ حکومت کو مرکزی بینک سے قرض‘ کرنٹ اکائونٹ خسارے اور افراط زر کو روکنے میں مددگار ہوتا ہے تاہم اس سے صنعتی شعبہ دبائو کا شکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں معاشی سرگرمیوں کو بحال رکھنے کے لیے شرح سود کم سے کم رکھی جاتی ہے تاکہ سرمایہ گردش میں رہے۔ حکومت نے بھی ملکی صنعت کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے شرح سود سات فیصد مقرر کی تھی جس کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں تو بحال ہوئیں مگر حکومت کی طرف سے گاڑیاں سستی کرنے کی وجہ سے تاجروں نے سرمایہ گاڑیاں اور دیگر اشیا تعیشات کی درآمد میں لگانا شروع کردیا جو روپے کی قدر میں کمی اور تجارتی خسارے میں اضافے کا باعث بنا ۔ ڈالر کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ اس کے علاوہ حکومت کو آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کے لیے بھی مشکل فیصلہ کرنا پڑا ہے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق زری پالیسی کمیٹی نے محسوس کیا ہے کہ معاشی بحالی کی رفتار توقع سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کر رہی ہے۔ بہتر ہوگا حکومت معاشی بحالی کی رفتار کم کرنے کے بجائے لگژری آئٹمز کی درآمدات کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات کرے اور شرح سود ہر ممکن حد تک کم از کم رکھے تاکہ معاشی بحالی سے ملکی معیشت مضبوط اور ملک ترقی کر سکے۔