وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران طاقتور افراد کے خلاف احتساب کا عمل تیز ہونے کی پیشگی اطلاع دی ہے۔ وزیر اطلاعات نے سابق حکمران شخصیات کا نام لے کر کہا کہ اگر ان سے قومی خزانے سے لوٹا پیسہ نکلوا لیا جائے تو ملک کا قرضہ اتارنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اپنی گفتگو میں وزیر اطلاعات نے دو ٹوک انداز میں بتایا کہ حکومت نے بدعنوانی کے معاملے پر نرمی دکھائی تو یہ ووٹروں کے ساتھ غداری کے مترادف ہوگا۔ وزیر اطلاعات نے جن خیالات کا اظہار کیا کہ وہ عوام کے دل کی آواز ہے۔ عوامی سطح پر تحریک انصاف کی حکومت سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ احتساب کا عمل شفاف اور نتیجہ خیز بنائے گی۔ پاکستان کی سابق حکمران جماعتیں انتخابی منشور کی بنیاد عوام کے لیے روزگار کے مواقع، سڑکوں کی تعمیر، ٹرانسپورٹ سہولیات اور ایسے ہی ترقیاتی منصوبوں پر رکھتی رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے منشور پاکستان کو لاحق مسائل کی عکاسی کرنے سے معذور نظر آتے ہیں۔ جمہوریت کا نام لے کر ہر سیاسی جماعت خود کو جمہوری اصولوں سے منسلک کرنے کی دعویدار نظر آئی لیکن ملک میں سیاسی روایات اور اقدار فروغ نہ پا سکیں۔ وراثتی اور خاندانی جماعتوں نے آزادی اظہار کے اس بنیادی عنصر کو پروان نہ چڑھنے دیا جو معاشروں کی سیاسی فکر کی تربیت کرتا ہے۔ گزشتہ کئی سال سے عوام کو حکمرانوں کی بدعنوانی کی کہانیاں سننے کو ملتی رہی ہیں۔ بجا طور پر پولیس، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن، نیب اور خفیہ اداروں کے پاس سینکڑوں شواہد موجود ہیں جو گناہ گاروں کو سزا دلانے کے لیے ٹھوس کردار ادا کرسکتے ہیں۔ عدالتوں تک جو چند مقدمات پہنچتے ہیں ان کے حوالے سے سرکاری اداروں کے اندر ہی ملزمان کے حامی سرگرم ہو جاتے ہیں۔ شہروں میں قیمتی املاک پر قبضہ کرنے والے مہارت سے جعلی دستاویزات تیار کرتے ہیں اور متعلقہ سرکاری دفاتر میں اپنے ساتھیوں کو ایسا سبق پڑھاتے ہیں کہ سامنے ہوتی ناانصافی اور دھوکہ دہی کو روکنے میں قانون بے بس ہو جاتا ہے۔ بہت سی سیاسی شخصیات نے قوم کے اربوں کھربوں روپے لوٹ لیے۔ بیرونی ممالک میں بیش قیمت جائیدادیں خریدیں۔ قانونی دستاویزات میں ظاہر کئے گئے اثاثوں سے کہیں زیادہ دولت و جائیداد موجود ہے۔ 1990ء کی پوری دہائی اور 2008ء سے 2018ء تک پاکستان کے لوگوں کو ترقیاتی منصوبوں کا خواب دکھا کر قرضوں میں ڈبو دیا گیا۔ اب نئی تحقیقات بتا رہی ہیں کہ کس طرح سابق حکومتیں عوام کے مفادات کا سودا کرتی رہیں۔ ملک میں کئی عشرے مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی باری باری حکومت کرتی رہی ہیں۔ 2006ء میں ان دونوں جماعتوں نے بظاہر فوجی آمریت کے خلاف میثاق جمہوریت کیا جو عملی طور پر دو خاندانوں کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ دو جماعتوں نے عہد کیا کہ اگر ان میں سے کسی کو اقتدار ملا تو وہ دوسرے کے خلاف سیاسی بنیاد پر مقدمات درج نہیں کرائے گی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بدعنوانی کے ثبوت دستیاب ہونے کے باوجود کسی کے خلاف قانونی کارروائی نہ کی گئی۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت نے کسی مخالف کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کرایا۔ چند ہفتے قبل میاں نوازشریف نے تحریک انصاف کی انسداد بدعنوانی کارروائیوں پر تنقید کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ کو یاد دلایا کہ وہ جب حکومت میں تھے تو انہوں نے ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہونے دی جو حقیقت میں بدعنوانی میں ملوث تھے۔ پی پی اور ن لیگ کی قیادت کے اس نکتہ نظر کی تشریح یہی ہو گی کہ دونوں نے سیاسی مصلحتوں اور مفادات کی خاطر اپنے فرائض منصبی دیانتداری کیساتھ انجام نہیں دیئے۔ تحریک انصاف کے ووٹروں میں ایسے افراد کی اکثریت ہے جو بلاامتیاز احتساب کے نعرے کے باعث عمران خان کا ساتھ دیتی رہی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سفارش، اقربا پروری اور رشوت ستانی کے کلچر سے بیزار ہیں۔ عوام سابق حکمرانوں کو ملک کی تباہ حالی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور قانونی عمل بھلے طاقتور بدعنوانوں کو سزا نہ دے سکا مگر عوام نے ایک تیسری جماعت کو احتساب کے نام پر ووٹ دیا ہے۔ ملک جن مسائل میں دھنسا نظر آتا ہے اس کے ذمہ داروں کے خلاف ریاستی اداروں کی بے بسی نے ایک نئے مینڈیٹ کا جواز فراہم کیا ہے۔ وطن عزیز میں نوازشریف کے احتساب سیل اور پرویز مشرف کے احتساب بیورو جیسی مثالیں موجود ہیں جو صرف اس لیے طاقتور سیاستدانوں کے خلاف کارروائیاں کرتے کہ ان کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی جا سکیںاور حکومت کے مخالفین کو پریشان کیا جا سکے۔ دونوں سابق حکمران جماعتیں ایسی شخصیات کو چیئرمین نیب کے طور پر تعینات کرتی رہیں جو حکومتی جرائم کے متعلق شکایات کو غیر موثر بناتی رہیں۔ وزیر اطلاعات نے مستقبل میں احتساب کا عمل تیز ہونے کی بات کی ہے۔ یقینا تحقیقات، الزامات کی پڑتال اور عدالتی طریقہ کار کے باعث بدعنوان عناصر کو فائدہ ملتا رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ دیرینہ دوست ملک چین سے انسداد بدعنوانی کا نظام مستعار لے۔ ہر قسم کی شکایات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے اور جرم ثابت ہونے پر کسی کے سماجی و سیاسی مقام و مرتبے کا لحاظ رکھے بغیر سخت سزا دی جائے۔ جب تک بااثر اور طاقتور شخصیات کو سزا نہیں ملتی معاشرے میں قانون کی بالادستی کا تصور عام نہیں کیا جاسکتا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ احتساب کے عمل کو سیاست سے آلودہ ہونے سے بچائے۔ اداروں کو ایسے اختیارات تفویض کئے جائیں جن سے عوام ان اداروں پر اعتماد کریں۔