4اور 5 مئی کو بھارت کے شہر گوا میں منعقد ہو نے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے کونسل آف فارن منسٹرز کے اِجلاس میں تنظیم کے وزرائے خارجہ نے رکن ممالک کو درپیش چیلینجز سمیت اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ اِس اِجلاس کے منعقد ہونے سے 3-4 جولائی کو نئی دہلی میں گروپ کے رہنماؤں کے سربراہی اجلاس کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق گوا میٹنگ کا مقصد باہمی اعتماد کو مزید بڑھانا اور جولائی میں آئندہ SCO سربراہی اجلاس سے پہلے رکن ممالک کے درمیان خدشات کو دور کرنا تھا۔ اِس کے علاوہ شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے گوا میں منظور کیے گئے دہلی کے ایجنڈے میں بیلاروس اور ایران کو ایس سی او کلب میں شامل کرنا بھی شامل ہے۔ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او)2001میں قائم کی گئی تھی، یوروشین (Eurasian) کے وسیع خطے میں سلامتی کو یقینی بنانے اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے کثیرالجہتی ایسوسی ایشن کے طور پر تجارت، نیز ثقافتی اور انسانی ہمدردی میں تعاون اِس کے بنیادی مقاصد ہیں۔ SCO کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور مطابقت کی تصدیق اس کی بڑھتی ہوئی اپیل سے ہوتی ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ، مزید ممالک تنظیم میں ڈائیلاگ پارٹنر یا مبصر یا مکمل رکن کے طور پر شامل ہو رہے ہیں، جن میں تازہ مثال بحرین، کویت، مالدیپ، میانمار اور متحدہ عرب امارات کا نئے ڈائیلاگ پارٹنرز کے طور پر شامل ہونے کی ہے۔ بھارت کی میزبانی میں گوا میں منعقد ہو نے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے کونسل آف فارن منسٹرز کے حالیہ اِجلاس میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے مابین ممکنہ باہمی اِجلاس اور بات چیت مجموعی کارروائی پر حاوی رہی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اِن دو ملکوں کے وزرائے خارجہ کے مابین کسی بھی قسم کی رسمی بات چیت کا ہونا تو درکنار دونوں وزرائے خارجہ نے ہاتھ ملانے سے بھی گریز کیا ہے۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب جوہری ہتھیاروں سے لیس دو حریفوں کے درمیان کئی عوامل کی وجہ سے مجموعی تعلقات میں تناؤ آیا ہوا ہے۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا یہ دورہ 12 سالوں میں کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا بھارت کا پہلا دورہ ہے، اگرچہ دورے کا مقصد شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اِجلاس میں شرکت کرنا تھا۔ گزشتہ بارہ سال سے پاکستان اور بھارت کے مابین دو طرفہ دوروں کا فقدان ہے جبکہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے مابین ہر قسم کے اعلیٰ سطحی مزاکرات اور روابط تعطل کا شکار ہیں۔ جولائی 2011 میں، محترمہ حنا ربانی کھر پاکستان کی آخری وزیر خارجہ تھیں، جنہوں نے دو طرفہ ملاقات کے لیے ہندوستان کا دورہ کیا، جب کہ نواز شریف آخری پاکستانی وزیر اعظم تھے جنہوں نے مئی 2014 میں مسٹر مودی کی حلف برداری کے لیے ہندوستان کا دورہ کیا۔ ہندوستان کی طرف سے، سابق وزیر خارجہ سشما سوراج اور مسٹر مودی نے آخری بار دسمبر 2015 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ 2016 کے بعد سے، دونوں فریقوں کے درمیان باہمی مسائل پر کوئی دو طرفہ بات چیت نہیں ہوئی ہے۔ اِس تناظر میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ کا صرف بھارت جانا ہی اہمیت اِختیار کرگیا۔ بھارت کی میزبانی میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون کی تنظیم کے اِجلاس میں شرکت سے پاکستان کو کیا حاصل ہوا ہے؟ جہاں تک پاکستان کے وزیرِ خارجہ کی شرکت کا تعلق ہے تو یہ ایک معقول اور دانشمندانہ فیصلہ تھا کیونکہ پاکستان نے وہ مقاصد حاصل کیے ہیں جو وہ اِس اِجلاس میں شرکت سے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ایک یہ کہ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کو بہت اہمیت دیتا ہے جس کا اِظھار پاکستانی وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو نے بھی شنگھائی تعاون تنظیم کے اِجلاس سے اپنے خطاب کے اِبتدائی جملوں میں اِن الفاظ میں کیا ہے "آج SCO-CFM میں پاکستان کی نمائندگی کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کو ان ممالک پر مشتمل ایک اہم علاقائی پلیٹ فارم سمجھتا ہے جو دیرینہ تاریخی، ثقافتی، تہذیبی اور جغرافیائی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ پاکستان SCO کو جتنی اہمیت دیتا ہے، اِس کے متعلق اِس CFM کے لیے گوا میں میری موجودگی سے زیادہ کوئی زیادہ طاقتور اشارہ نہیں ہو سکتا۔" چونکہ چین اور روس شنگھائی تعاون تنظیم کے بانی اراکین ہونے کے ساتھ تنظیم کے روحِ رواں ہیں۔ پاکستان کے چین کے ساتھ روایتی گہرے تعلقات ہیں جبکہ ماضی قریب سے پاکستان اور روس باہمی تعلقات بھی وسعت اِختیار کرچکے ہیں، اِس لیے پاکستان کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم میں غیر فعال ہونا یا دوری اِختیار کرنا غیر دانشمندانہ اَپروچ ہوتی ہے۔ شنگھائی تعاون کی تنظیم کے اِجلاس میں شرکت سے پاکستان اپنے سب سے اہم مقصد "کشمیر کاز" کو کسی حد تک اجاگر کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ شنگھائی تعاون کی تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اِجلاس میں اگرچہ باالوسطہ ہی سہی مگر میڈیا اور ماہرین کی گفتگو میں آرٹیکل 370 کے خاتمے اور کشمیر کا تذکرہ ہوا ہے۔ اَلبتہ یہ اِیک حقیقت ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام اَپنی قیادت سے خطے میں امن کے قیام کے لیے ایک قدم آگے بڑھانے کی توقع کررہے تھے مگر بھارت اور پاکستان نے یہ موقع ضائع کردیا ہے خصوصاً بھارتی قیادت کی روایتی ہٹ دھرمی کی بدولت۔میڈیا کی اِطلاعات کے مطابق گوا میں اِختتام پزیر ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اِجلاس کے اِختتام پر بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کی ہونے والی نیوز کانفرنس کے دوران پاکستان سے متعلق بھارتی وزیرِ خارجہ کا لب و لہجہ غیر معمولی طور پر سخت تھا جس کی تلخی کے زائل ہونے میں شاید کچھ زیادہ وقت لگے گا۔