میں اس نسل کا نمائندہ ہوں جنہوں نے پاکستان کا خواب تو نہ دیکھا تھا‘ مگر پاکستان بننے کے بعد ان خوابوں کی آغوش میں پرورش پائی تھی۔میری ماں بتا تی تھیں کہ جب انہوںنے ایک بائیس دن کے بچے کو گولیوں کی بوچھاڑ میں سینے سے لگا کر سرحد پار کی تھی تو راوی‘ چناب اور جہلم تینوں سرخ ہوئے تھے۔ سال ختم ہونے سے پہلے ان کا ادھر کوئی نہ بچا تھا اور ہمارا ادھر کوئی باقی نہ رہا تھا۔ باقی بھی کسی نہ کسی صورت قافلوں میں دھکے کھاتے خوابوں کی اس سرزمین پر آن پہنچے تھے۔ یہ سب مرے لاشعور کا حصہ ہے۔ جب اے حمید کی کوئی تحریر آتی تومیری والدہ بے تابی سے اس کا انتظار کرتیں اور مجھے مطلوبہ تحریر فراہم کرنے کا کہتیں‘ کیونکہ اے حمید امرتسر کی اس گلی کا باسی تھا جہاں ننہال رہتا تھا اور جہاں میں پیدا ہوا تھا۔ اے حمید اس زمانے کو یاد کرتا تھا اور پرانے امرتسریوں کو وہ سب یاد آنے لگتا تھا۔ خیر میں کہنا چاہتا تھا کہ میری نسل نے کچھ خواب دیکھے تھے جو بکھرتے جا رہے ہیں۔ مگر میرا عزم جواں ہے۔ وہ کہتا ہے مجھے ان خوابوں کی حفاظت کرنا ہے بلکہ اس کی تعبیر بھی دیکھنا ہے۔ مجھے اس کی پروا نہیں کہ میرے ملک پر کون حکمران ہے۔ فوجی ہے یا غیر فوجی۔ پیپلز پارٹی ہے۔ مسلم لیگ ہے یا عمران خاں۔اب میں صرف یہ دیکھتا ہوں ملک کدھر جا رہا ہے۔ ملک دولخت ہوا تو مری طرح بہتوں کا دل ٹوٹ گیا‘ مگر وہ باقی ماندہ ملک کی تعمیر میں لگ گئے۔ ان لوگوں کو بھی معاف کر بیٹھے جن کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ یہ ملک توڑنے والے ہیں۔ ہم یحییٰ خاں کو بھول گئے‘ مجیب الرحمن کا دفاع کرنے لگے اور بھٹو کی شان میں تو قصیدے لکھنے لگے۔ شاید اسی طرح ٹوٹا ہوا دل جڑ جائے۔ مگر یہ خواب تھے جو پہلے ہی چکنا چور ہو چکے تھے۔ اور ہم بیٹھے اس کی کرچیوں کو جوڑ رہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح ہم بھٹو کی بہت ساری پالیسیوں کو یہ سوچ کر گوارا کرتے تھے کہ شاید اس میں کوئی اچھائی نکل آئے۔ ایسے جیسے آج کل بھی ہر غلط قدم پر سوچتے ہیں کہ شاید یہ بھی منزل کی طرف جاتا ہو۔ دنیا بدل گئی مگر ہم نہیں بدلے۔ مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان کو سیاستدان تباہ کر رہے ہیں یا انتظامی مشنری یا پھر وہ شے جسے ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے کسی غیر ملکی کے نام سے یہ چٹکلہ چھوڑا تھا کہ ہم وہ لوگ ہیں جن کی زبان میں سول سروس کا کوئی مترادف ہے ہی نہیں۔ شاید اسی لئے ہم بیورو کریسی نوکر شاہی‘افسر شاہی کے لفظ بول بول کر اپنی انتظامی مشنری کو لعن طعن کرتے ہیں اور اسے انگریز کی چھوڑی ہوئی میراث کہتے ہیں۔دوسری طرف سنجیدہ ماہرین یہ بتاتے رہے کہ ہمارے پاس بہترین بندوبست ہماری سول سروس ہی ہے۔ تجزیے کئے جاتے کہ فرانسیسی سامراج اپنے پیچھے کوئی معقول انتظامی ڈھانچہ چھوڑ کر نہیں جاتا جبکہ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم انگریز کے غلام تھے جو جاتے ہوئے اپنے ’’غلا موں‘‘ کی شکل ہی میں سہی ایک انتظامی نظام کار چھوڑ کر جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا انتظامی ڈھانچہ چلتا رہا۔ اسے ایوب خاں نے تو کسی حد تک برداشت کیا مگر پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم نے آتے ہی اس کا تیا پائنچہ کر دیا اور آج نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم دن رات اس ڈھانچے میں ترمیم بھی کرتے ہیں اور اس کے مہرے ہر لمحہ ہلاتے جلاتے رہتے ہیں۔ ہم نے ملکی انتظامیہ کا انجر پنجر ڈھیلا کر دیا۔اب ہم ’’آزاد‘‘ ہیں مگر ہمارا حکم بجا لانے کے لئے کوئی ’’غلام‘‘ نہیں ہے۔ یہ غلام اب خود آزاد ہو چکے ہیں۔ اب انہیں کسی کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ خودسر ہیں اور بے پروا بھی۔ وہ جو کہتے ہیں کہ سیاست دان کمزور ہوتا ہے تو بیورو کریسی آتی ہے۔ بیورو کریسی کمزور ہوتی ہے تو فوج آتی ہے اور فوج کمزور پڑے تو دشمن کی فوج اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ کیا خیال ہے۔مشرقی پاکستان میں یہ سب کچھ اسی ترتیب سے دہرایا نہیں گیا۔ مشرقی پاکستان میں جب دوبارہ جمہوریت قائم کرنے کی کوششیں ہوئیں تو نور الامین جیسے لوگ آگے آئے کہ اس پراسس کو الٹا کیا جائے تو حالات ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ اداروں کا تصادم سلطنتیں تباہ کر دیتا ہے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ سلطنت عباسیہ اور پھر مسلم اقتدار اسی طرح رخصت ہوا۔ یہ عرب اشرافیہ ‘ عجمی بیورو کریسی اور ترک فوج کی لڑائی تھی جس نے بغداد کو تباہ و برباد کر دیا۔ خلافت پر عباسی خلیفہ براجمان تھا۔ اقتدار مگر سلطانوں کے ہاتھ میں تھا اور شہر کے باہر ترک فوج خیمے تانے بیٹھی تھی۔ کس کس بات کا تذکرہ کریں۔ گزشتہ صدی کس طرح عالم اسلام کے بکھرنے کی صدی تھی۔ اس سب کے درمیان پاکستان ایک حریت پسندی کا خواب تھا جس نے ایشیا اور عالم اسلام میں ایک نئی روح پھونکی: اگر عثمانیوں پہ کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا آج پھر ایک ہلچل ہے۔ عالم اسلام میں نہیں‘ اس پورے خطے میں۔ عرب بہاراںکیا آتی کہ پورے خطے پر خزاں چھا گئی۔کیا کیا ملک بکھرے پڑے ہیں۔ عراق ‘ شام‘ لبنان‘ لیبیا ایک لمبی کہانی ہے۔عرب امارات کا اسرائیل کو تسلیم کر لینا ایک بے تعلق سانحہ نہیں ہے۔ پورا خطہ بدل رہا ہے۔ ہم نے اپنی غلامی کی حرکتیں پھر سے شروع کیں تو چین ایران جا بیٹھا ہے۔ ہمیں اب تک معلوم نہیں ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے یا تو وہی ہو گا جو ہوتا آیا ہے‘ حالات ہمیں لہروں کے ہچکولوں پر ادھر ادھر لئے پھریں گے۔ کہیں پناہ مل گئی تو لنگر انداز ہو لیں گے، وگرنہ لہروں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ ہم بہت سست رفتار ہیں حتیٰ کہ سامراج ہمیںآسانی سے اپنے جبڑے میں جکڑ لیتا ہے۔ کوئی ہے جو ان حالات میں ذرا تیز چپو چلائے۔ کیا اب بھی پاکستان اسی طرح روشنی کی کرن بن سکتا ہے جس طرح اپنے قیام کے وقت یہ ایشیا کے شبستان میں صبح نو کی نمود تھا۔ یہ تقریریں‘ یہ تجزیے یہ پیٹ نہیں ب بھرتے ایک لمبے جمپ کی ضرورت ہے جو ہمیں سیاست سے ماورا لے جائے ۔کیا یہ ممکن ہے؟