اس شام سورج غروب ہوا تو میں سمن آباد ، اچھرہ اور رحمن پورہ کی سڑکوں اور گلیوں میں گھوم رہا تھا۔ گنجان آبادیوں کے اپنے مسائل ہیں اور اپنے لطف۔ اس شام مجھے پہلی بارکچھ کچھ لگا کہ انتخاب قریب آگئے ہیں بلکہ عنقریب۔ ورنہ اب تک صرف چیختی چنگھاڑتی خبروں اور گلا پھاڑتے سیاسی مباحثوں کے علاوہ سڑکوں اور گلیوں میں یہ موسم اترتا دکھائی نہیں دیا تھا۔ پتہ نہیںیہ مرے اندر کا موسم ہے یا واقعی باہر بھی ایسا ہی ہے کہ اس بار انتخابات میں وہ گہما گہمی اور جوش خروش محسوس نہیں ہورہا۔آج اتوار کے دن انتخابات میں صرف تین دن رہ گئے ہیں۔تبصرے ،تجزیے، خبریں ،رپورٹیں ،الزام ،جوابی الزام سب کچھ موجود ہے لیکن کچھ کمی ہے کہیں۔ جلسے ،جلوس ،کارنر میٹنگز،پارٹی دفاتر پر موجود لوگ، اشتہار ،بیینر، جھنڈے اور لاؤڈ سپیکر۔اگر ان ہی سے کسی پارٹی کی مقبولیت اور انتخابی کامیابی متعین ہوتی ہے تو پھر لاہور میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون ہی بڑے پہلوان ہیں۔متحدہ مجلس عمل، ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک کے کارکن بھی فعال ہیں اور ان کے بینر بھی کثرت سے نہ سہی لیکن بہت سی جگہوں پر نظر آجاتے ہیں۔پیپلز پارٹی کم از کم لاہور میں اس طرح فعال نظر نہیں آرہی جس طرح مذکورہ بالا جماعتیں۔گنجان آبادیوں میں زور شور زیادہ محسوس ہوتا ہے جبکہ پوش علاقوں میں کم کم۔یہاں انتخابی دفاتر پر ہجوم ہیں اور لوگ قدرے پرجوش۔میرا خیال ہے انتخابات کی اصل گہماگہمی ایسی ہی بستیوں اور علاقوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔یہ تمام دن سرگرمیوں اور ملاقاتوںکے ہیں اور امیدواروں کی دن رات کا سکون اور نیند اڑا دینے والے ۔25جولائی کا دن تھکا دینے والا ہوگا اور شام سے رات گئے تک سیاسی ڈیروں پر ایک اضطراب اور انتظار ڈیرہ ڈالے رہے گا۔جزوی نتائج آنے کے ساتھ ہی کامیاب ٹولیاں فاتحانہ چمک کے ساتھ پیدل موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر نکل آئیں گی۔دھواں دھار بیانات آئیں گے۔ جس میں اللہ کے فضل اور عوام کی حمایت کا شکر ادا کیا جائے گایا تاریخ کی بدترین دھاندلی کی مذمت کی جائے گی ۔ کم از کم اگلے پندرہ دن اسی کی نذر ہوں گے ۔ کچھ روز ابھی اور یہ ہنگامہ رہے گا اصل سوال یہ ہے کہ لاہور کا اس انتخاب میں موڈ کیا ہے ؟ اور اس سے اگلے دائرے کا سوال یہ کہ قوم کا بحیثیت مجموعی موڈ کیا ہے ؟ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح لاہور میں تحریک انصاف کی ایک لہر تو موجود ہے لیکن کم از کم میرے خیال میں یہ 2013کی موج سے کم ہے۔تحریک انصاف نے پنجاب میں مسلم لیگ نون کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ زیادہ نظر آنے والے کام سب صوبوں سے زیادہ پنجاب میں ہوئے ہیں۔اور سب شہروں سے زیادہ لاہور میں۔شہباز شریف کے کئی ادوار میں ترقیاتی کام مسلسل ہوئے ہیں اور لوگ ان کاموں کا اعتراف بھی کرتے ہیں خواہ یہ سب کام بنیادی طور پر انتخاب جیتنے کے نقطہء نظر سے ہی کیے گئے ہوں۔اس پس منظر میں اگر نون لیگ کے لیے اپنی محفوظ نشستیں بچانا بھی مشکل ہورہا ہے تو یہ حیرت کی بات بھی ہے اور ووٹر کے موڈ کی نشان دہی بھی۔یہ موڈ ایک بار پی ٹی آئی کو بھی آزما کر دیکھنے کا ہے ۔ظاہر ہے کہ حتمی پیش گوئی مشکل ہے تاہم میرے خیال میں شروع سے متذبذب لوگوں کا ووٹ اور تحریک انصاف کی طرف بڑھنے اور اس سے بددل ہوکر پیچھے ہٹنے والوں کا ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ایسے ووٹر کے لیے یہ فیصلہ مشکل ہورہا ہے، کیونکہ وہ تحریک انصاف سے بددل ہے اور مسلم لیگ نون سے بدظن۔آخری تین چار دن بھی اس جھولتے طبقے کو یکسو کرنے میں حتمی کردار ادا کریں گے۔میرا ذاتی احساس یہ ہے کہ تحریک انصاف کم از کم لاہور میں سخت مقابلے کے باوجود قدرے برتر پوزیشن پر ہے ۔متحدہ مجلس عمل بھی خاصی فعال ہے ،باقی جماعتیں اپنے اپنے حصے کے ووٹ توڑ لیں گی لیکن ان سب کے لیے لاہور کی کوئی نشست نکال لینا مشکل نظر آتا ہے۔ پورے پنجاب کی بات کریں تو تحریک انصاف کی پوزیشن 2013 ء سے کافی بہتر ہے ۔اس نے اپنی حکمت عملی بدل کر کافی علاقوں میں تگڑے امیدوار شامل کیے ہیں اور جنوبی پنجاب اس حوالے سے دیگر حصوں سے آگے ہے۔پنجاب میں تحریک انصاف بظاہر نون لیگ سے زیادہ قومی اور صوبائی سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے اگرچہ یہ فرق غیر معمولی نظر نہیں آتا۔کچھ قابل اعتماد سروے رپورٹس دونوں جماعتوں میں تحریک انصاف کی برتری کے ساتھ تین سے پانچ فیصد کے فرق کی نشان دہی کرتی ہیں۔پیپلز پارٹی کی پوزیشن اس بار بھی پنجاب میں کمزور ہے اورقومی و صوبائی اسمبلی کی چند نشستوں کے علاوہ اس سے بڑی کارکردگی کی توقع نہیں ہے۔یاد رہے کہ 2013 ء میں لاہور میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بہت کم تھا ۔ یہ صورت حال اس کے حق میں بدلی نہیں ہے ۔وسطی اور جنوبی پنجاب سے متحدہ مجلس عمل کو بھی چند نشستیں مل جائیں گی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی برتری دیہی علاقوں میں یقینا ہے اور کراچی کی ایک دو محفوظ نشستیں مثلاً لیاری کی نشست اب بھی انہی کی سمجھی جارہی ہیں۔تحریک انصاف کو یہ کریڈٹ دینا چاہیے کہ اس بار اس نے سندھ میں بھرپور حصہ لیا ہے اور کافی امیدوار کھڑے کیے ہیں ۔ نیز تحریک انصاف کے جے ڈی اے کے ساتھ اتحاد نے اس بار سندھ میں اس کیلئے راستہ کھولا ہے۔یہ امکان ہے کہ اس اتحاد کو دیگر ذیلی حمایتیں مل جائیںاورسندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے لیے حکومت بنانا مشکل ہو جائے ۔ ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی کراچی حیدر آباد اور سکھر تک محدود ہیں اور یہاں بھی ان کا دائرہ چھوٹا ہے ۔ایم کیو ایم کی حالیہ چپقلشوں کے بعداگر وہ پچھلی اسمبلی کی اپنی آدھی نشستیں بھی بچا پائے تو یہ بڑا کارنامہ ہوگا۔اسی طرح مصطفٰی کمال کی پارٹی اگر سندھ کے شہری علاقوں سے چند نشستیں جیت پائے تو بڑی بات ہوگی ۔لیکن درج بالا کارکردگی بھی مشکل نظر آتی ہے۔ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کا پلّہ بھاری ہے ۔ووٹر کی بددلی اور توقعات کے مطابق کارکردگی نہ ہونے کے باجود اندازہ یہی ہے کہ وہ وہاں سے کم و بیش سابقہ تعداد کے مطابق نشستیں حاصل کرلے گی۔اے این پی کو چند نشستیں مل جائیں گی ۔بلوچستان میں تین جماعتوں کا اتحاد زیادہ نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔لیکن تحریک انصاف بھی وہاں دوسری جماعتوں سے زیادہ موجود ہے ۔یہ کریڈٹ پی ٹی آئی کو ملنا چاہیے کہ وہ چاروں صوبوں میںقومی سطح کی جماعت کے طور پر اب سر فہرست ہے ۔کیوں کہ نون لیگ کے سندھ میں اور پیپلز پارٹی کے پنجاب میںامیدوار بہت ہی کم ہیں۔متحدہ مجلس عمل کو کے پی کے ، فاٹا، بلوچستان سمیت کئی علاقوں سے نشستیں مل جائیں گی اور اس طرح وہ بظاہر اسمبلی میں ایک موثر آواز کے طور پر موجود رہے گی ۔ ملی مسلم لیگ پہلی بار الیکشن لڑ رہی ہے۔ تحریک لبیک کا زور و شور بہت ہے ۔ان دونوں جماعتوں کی کارکردگی کا امتحان ہے ۔ عمومی طور پر دیکھا جائے تو ملک بھر میں پڑھے لکھے طبقے کی کیفیت تذبذب ،مایوسی اور بے بسی کے ملے جلے جذبات کی آئینہ دار ہے۔تذبذب درست جماعت اور امیدوار کو پہچاننے کا۔مایوسی ایسے کسی شخص کی غیر موجودگی کی۔اور بے بسی صورت حال کو بدل نہ سکنے کی۔ تمام سروے ،تجزیے اور تبصرے ایک معلق قومی اسمبلی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔معلق اسمبلی کی صورت میں بڑی جماعتوں کو چھوٹی جماعتوں اور آزاد ارکان کی مدد لازماً درکار ہوگی چنانچہ ان کی چاندی ہوگی اور یاد رکھیں جھولتی قومی اسمبلی کی صورت میں اسمبلی نہیں قوم سولی پر لٹکی رہے گی۔ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق۔(اے اقوام شرق کیا کیا جائے ؟) کیا یہ جائے کہ اپنی مرضی کی جماعت اور امیدوار کو ووٹ ضرور دیا جائے۔توقعات کوئی نہ لگائی جائیں تاکہ دل صدموں سے محفوظ رہے اور فیض کا شعر یاد رکھا جائے: ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پذیرائی جب ذکر بہار آیا ، سمجھے کہ بہار آئی