عید تو غزہ میں بھی آئے گی مگر کس حال میں کہ اس کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دینے کو کافی ہے۔اسی خیال نے رمضان بھر چین نہیں لینے دیا ایک چبھن مسلسل محسوس ہوتی رہی۔رمضان اس حوالے سے بہت عجیب گزرا اس میں گزشتہ رمضانوں جیسی خوشی کا عنصر غائب تھا۔رمضان المبارک ہمیشہ سے بڑے عقیدت و احترام اور خوشی سے منانے کی روایت ہمارے ہاں موجود رہی ہے۔رمضان المبارک کی آمد سے پہلے شعبان ہی میں تیاریوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ دینے دلانے کے لیے خریداری کا آغاز ہو جاتا ہے، تحائف جن میں عید کے کپڑے راشن وغیرہ ہوتا ہے اس کے پیکٹس بنائے جاتے ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ ہمارے گھر کے ملازمین رمضان اور عید بھرپور طریقے سے منا سکیں۔ اس کے ساتھ کچھ اور سفید پوش گھرانوں کے لیے سہولت کا سامان کیا جائے۔نہایت خلوص نیت سے کی جانے والی یہ کوشش چھوٹے سے پیمانے پر ہوتی ہے لیکن یقین کریں کہ یہ ہمارے دل کو روحانی خوشی سے بھر دیتی ہے۔یہ عمل میرے لیے ایک تھراپی سے کم نہیں اس میں خوشی سکون صحت سب ملتا ہے۔ورنہ تو حساس طبیعت یہ ہے کہ امی جان کے ساتھ گزری ہوئی بھرپور عیدوں کی یادیں اپنی سرمئی دھند میں سے نکلنے ہی نہ دیں ۔ماں کا وجود پورا ایک جہان ہوتا ہے اسی لیے ان کے جانے کے بعد زندگی کی ہر۔خوشی پر ادھورے پن کا سایہ رہتا ہے۔اپنے اداسی کو کم کرنے کا اس سے بہتر طریقہ نہیں ہوتا کہ آپ ضرورت مندوں میں خوشیاں تقسیم کریں یقین کریں پروردگار آپ کو انمول روحانی خوشی سے ہمکنار کرتا ہے۔الحمدللہ اس رمضان بھی اس خوبصورت روایت کو مقدور بھر جاری رکھا۔عموما سننے میں آتا ہے کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے بڑوں کے لیے یہ ایک بور دن ہوتا جو صرف نیند پوری کرنے میں صرف ہوتا ہے۔مگر مجھے عید کا دن کبھی بور محسوس نہیں ہوا۔عید پر مہمان نوازی ،کھانے بنانے، میل ملاقاتوں کا سلسلہ اس دن کو اور بھی خوبصورت بنا دیتا ہے۔ اور ظاہر ہے اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کی خوشی کا اہتمام بھی کیا جاتا اور یہی اہتمام دراصل ہمارے لیے خوشی کا باعث بنتا ہے۔ لیکن اس بار صورت مختلف ہے۔۔۔غزہ کی لہو لولہان گٹھڑی دل کے کونے میں دھری بے طرح اداس کرتی ہے۔رمضان کا ہر دن اسی خیال سے گزرا کہ اپنے سجے ہوئے دسترخوان کو دیکھ کر غزہ کے ان مظلوم بچوں کا خیال آتا ہے جو بھوک سے گھاس کھانے پر مجبور ہیں یا جو امدادی ورکرز کے سامنے خالی پیالے لے کے کھڑے ہیں ہائے ہیرے جواہرات کیسے رل گئے ہیں اور دنیا خاموش ہے۔ رمضان المبارک کا اخری عشرہ تو جیسے پلک جھپکتے میں گزر جاتا ہے ۔عید کی آمد آمد ہے مگر اس سے جڑی خوشیوں بھری مصروفیات کہیں کونے میں پڑی ہیں اور دل پر ایک اداسی طاری ہے۔یہ سوال بار بار۔سر اٹھاتا ہے کہ اس بار ہم کیسے منائیں ؟ عید سے جڑی روایت ہے کہ روز عید بساط بھر نئے یا میسر کپڑوں میں سے بہتر کپڑے پہن کر تیار ہوا جاتا ہے بچوں کو عیدیاں دی جاتی ہیں۔ بچے سب سے زیادہ عیدیاں لینے کے لیے پرجوش ہوتے ہیں۔ میں نے ایسے ہی خاندان کے ایک افطار عشائیے پر کہا کہ کیوں نہ غزہ کے مظلومین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر اس بار بچوں کو عیدیاں نہ دیں۔ میری سات سالہ بھتیجی نے فوراً سے کہا کہ پھپھو آپ ہمیں عیدی دیں ہم پیسے جمع کر کے اپنی عیدی فلسطین کو دے دیں گے۔یہ خیال میرے ذہن میں تھا کہ الخدمت کے سابق چیئرمین جناب عبدالشکور کا ایک میسج واٹس ایپ پر موصول ہوا یہ میسج دراصل غزہ کے ساتھ عید کے دن اظہار یکجہتی کے حوالے سے تھا۔ آپ بھی ان کا پیغام پڑھیے ۔ "اس بارخامشی کو بولنے دیجئے ،سارے احتجاج ہنگامہ خیز نہیں ہوتے۔ بلند آہنگ نعرے اور چیخ و پکار اگرچہ احتجاج کا ایک طریقہ ہے۔مگر محض ایک طریقہ۔کبھی کبھار استقامت بھری خامشی بھی بڑی کاٹ دار ہوتی ہے۔ گہرے اثرات چھوڑ جاتی ہے۔ ایسے جیسے بادِ نسیم صبح سویرے کروڑوں، اربوں کونپلوں، شگوفوں اور کلیوں کو پیغامِ بہار دے کر خاموشی سے روانہ ہو جاتی ہے۔ پتہ بھی نہیں چلتا کون آیا تھا، سب کو جگا کے چلا گیا۔اس عید پر مسلم امہ کی بیداری کا پیغام خاموشی سے فلسطینیوں کے نام کیجئے۔ اپنے بزرگوں کو، اپنے رفقاء کو ، اپنے بچوں کو اور اپنی نسلوں کو فلسطین کا رومال پہنا کر عید پڑھائیے۔ بازار میں جائیے، دکان داروں سے یہ مفلر مانگئے، مطالبہ کیجئے کہ وہ جلد سے جلد اسے منگوائیں، تاکہ آپ اسے خرید کر گفٹ کر سکیں۔رومال/ سکارف پھر بھی نہ ملے تو فلسطینی جھنڈے کے تینوں رنگوں والے مارکر خریدیے، اپنے بچوں سے کہیے وہ کاغذ کے مفلر بنائیں اور اپنے دوستوں میں تقسیم کریں۔ اس بار جذبوں بھری خامشی کو احتجاج کا بھر پور موقع دیجئے۔ کراچی سے چترال تک اور گوادر سے گلگت تک آزادء فلسطین کے رنگ بکھیریئے۔ ابھی سے بادِ نسیم کی طرح متحرک ہو جائیے " محمد عبدالشکور۔ الخدمت فاؤنڈیشن پہلے ہی غزہ میں بہت کام کر رہی ہے ،رفح میں انہوں نے ایک منظم سیٹ اپ قائم کیا ہے۔ اسرائیلی فلسطینی مظلوموں کے خون کے پیاسے ان کی نسل کشی پر تلے بیٹھے ہیں اور اب مظلوم زخمی فلسطینیوں کی امداد بھی روک کر کھلی ابلیسیت ثبوت دے رہے ہیں، لیکن آفرین ہے الخدمت فاؤنڈیشن پر کہ ان حالات میں بھی وہ غزہ کے مظلومین تک پہنچ رہی ہے، انہوں نے مصر میں اپنا آفس بنایا ہے اور اب تک تین سو ٹن خوراک وہاں پہنچا چکے ہیں اور رفح کے بارڈر پر وہ امدادی سامان کی تقسیم کر رہے ہیں مشکل ہیں مگر وہ فیلڈ ہسپتال بنانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔جتنا ہو سکتا ہے غزہ کے لیے امداد دیں،ہمیں الخدمت پر اعتبار ہے ،آگے بڑھیں اور الخدمت کے توسط سے غزہ کے مظلومین کو عیدی دیں تب ہی کچھ جواز بنے گا کہ ہم اپنے بچوں کو بھی عیدی دے سکیں۔بس یہی سوچیں کہ رمضان کی شام غریباں میں ڈھلی سحر اور افطار کے بعد عید۔ تو ان کے لٹے پٹے خیموں میں بھی آئے گی مگر کس حال میں کہ یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں!