چند روز قبل میر ی ایک نشست تجربہ کار، باخبر اور جہاںدیدہ سیاست دان پاکستان مسلم لیگ( ضیاء شہید) کے سربراہ اعجاز الحق سے ہو ئی وہ کھری کھری اور بے لاگ باتیں کرنے کے عادی ہیں,5 4عشروں سے سیاسی میدان میں سرگرم عمل ہیں اور نصف صدی سے زائد ایوان اقتدار کی راہداریوںکے احوال جانتے ہیںجنرل ضیاء الحق شہید کے بڑے بیٹے ہونے کی وجہ سے ملک میں ہونے والی تبدیلیوں کے چشم دید گواہ ہیں پاکستانی سیاست کے دائو پیچ پر گہری نظر رکھتے ہیں اس بار ان سے ہونے والی ملاقات ذرا مختلف انداز کی تھی اپنی گفتگو کا آغاز انہوں نے اپنے شہید والد کے تذکرہ سے کیا اور آبدیدہ ہو گئے انہوں نے کہا ایک وقت تھا جب پاکستان فلسطین ہی نہیں پوری امت مسلمہ کی امیدکا مرکز و محور ہوا کرتا تھا صرف مسلم ممالک ہی نہیں پوری دنیا مملکت خداداد پاکستان کو بڑی قدر کی نگاہ سے د یکھتی تھی لیکن افسوس کہ آج ہمارے ملک کو کہاں لا کھڑا کیا گیا ہے؟مسلم نیشنز کے لیڈنگ کنڑی کا کردار ادا کرنے والے ملک کو بھکاری بنادیا گیا ہے چند روز قبل ابو ظہبی کانفرنس میں ہمارے ساتھ کیا ہوا، بھارتی وزیر اعظم کو کیا پروٹوکول دیا گیا اور پاکستانی وزیر اعظم کو کہاں کھڑاکیا گیا ؟ یہ صورتحال دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ، یہ وہی ابو ظہبی ہے جہاں کبھی پاکستانی قیادت کا طوطی بولتا تھا اور بھارتی قیادت کو وہاں قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی، حاکم ابو ظہبی و صدر متحدہ عرب امارات کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کا احوال سناتے ہوئے اعجاز الحق نے بتایا کہ والد محترم جنرل ضیاء لحق شہید کے دور حکومت میں ابو ظہبی کے حکمران کی دعوت پر مدعوتھا اس دعوت میں ان کی حاکم ابو ظہبی اور صدر متحدہ عرب امارات سے تفصیلی گفتگو ہوئی ہم دونوں میں انتہائی راز و نیاز کا تبادلہ ہوا ،رخصت کرتے ہوئے حاکم ابو ظہبی نے کہا اعجاز! میرا یہ پیغام اپنے والد محترم تک پہنچا دیں کہ پاکستان ہماری اولین ترجیح ہے ہماری خارجہ پالیسی میں بھارت کیلئے کوئی جگہ نہیں ہم اور ہمارے عوام پاکستان اور پاکستانی عوام کیلئے دیدہ دل اور فرش راہ ہیں پھر چشم فلک نے دیکھا کہ جنرل ضیاء الحق کے پورے دور حکومت میں کسی بھی بھارتی حکومتی نمائندہ نے متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر قدم نہیں رکھا، بڑے افسوس سے کہہ رہا ہوں کہ بعض پاکستانی عاقبت نا اندیش حکمرانوں کی پالیسی کی وجہ سے 34سال بعد اگست2015ء میں بھارتی وزیر اعظم نے نہ صرف متحدہ عرب امارات کا سرکاری دورہ کیا بلکہ نریندر مودی نے وہاں اپنی پاکستان دشمنی کا بھی کھل کر اظہار کیا ۔ اعجاز الحق نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ مسئلہ فلسطین پر پاکستان کا موقف کبھی بھی کمزور نہیں رہا پاکستان نے ہمیشہ ہرمحاذ پر فلسطینی بھائیوں کا کھل کر ساتھ دیا ہے پاکستان کے فلسطین پر واضح اور دو ٹوک موقف کی وجہ ا سے مسلم دنیا میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا عوام میں دوستی اور بھائی چارہ کا رشتہ بھی لا زوال تھا جس کا اعتراف فلسطینی رہنماء یاسر عرفات بھی کیا کرتے تھے، یاسر عرفات اور جنرل ضیاء میں ہونے والی ایک اہم ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے اعجاز الحق نے انکشاف کیا کہ کاسا بلانکا کانفرنس میں والد محترم اور یاسر عرفات میں اہم ملاقات ہوئی جس میں یاسر عرفات نے جنرل ضیاء کو فلسطین بارے پاکستان کی جراتمندانہ پالیسی کے ثمرات سے آگاہ کیا، یاسر عرفات نے کہا کہ اسرائیل فلسطین بارے پاکستان کی کامیاب پالیسی کا توڑ کرنے کیلئے بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رہا ہے ۔پاکستان کو اس کا تدارک کرنا چاہیے یاسر عرفات کی باتیں سننے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ پاکستان کل بھی فلسطینی عوام کے ساتھ تھا اور آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا اور اسرائیل کو کسی صورت تسلیم نہیں کرے گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پاکستان اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے ۔جنرل ضیاء کی جرأت و بہادری دیکھنے کے بعد یاسر عرفات کا حوصلہ بڑھا انھوں نے پاکستان کی سلامتی کیلئے دعائیں کیں اور فلسطین کیلئے جنرل ضیاء کی خدمات کو سراہا، گفتگوکے دوران اعجاز الحق نے کہا کہ پاکستان پر اسرائیل کو قبول کرنے کیلئے آج بھی پریشر موجود ہے وہ تو بھلا ہو حماس کا، جنہوں نے اسرائیل پر حملہ کرکے بڑے بڑے ممالک کی لاج رکھ لی ورنہ شاید آج ہم بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کی تیاریوںمیں مصروف ہوتے اپنی گفتگو میںاعجاز الحق نے انکشاف کیا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج ہمار ے ایسٹرن بارڈر کو غیر محفوظ بنانے کیلئے '' را''افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کرانے میں سرگرم عمل ہے۔ اسکی بڑی وجہ افغانستان بارے ہماری شارٹ ٹرم پالیسیاں ہیں آخر ہم کیوں افغانستان بارے کوئی لانگ ٹرم پالیسی نہیں بناتے اس میں کیا رکاوٹ ہے ؟ اور یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے، اعجاز الحق نے کہا کہ اٖفغان طالبان نے حکومت میں آنے کے بعد مجھے تین بار دورہ افغانستان کی دعوت دی لیکن میں بوجوہ دورہ نہیں کرسکا، 2021ء میں افغان طالبان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد میرے چچا کی وفات پر تعزیت کیلئے میرے گھر آیاانہوں پاکستان اور جنرل ضیاء الحق شہید کے ساتھ اپنی بھرپور عقیدت کا اظہار کیا افغان وفد کے ترجمان پاکستان میں موجودہ افغان سفیر تھے اس موقع پر طالبان وفد نے میرے ساتھ عہد کیا تھا کہ وہ کسی صورت اپنی سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اس کی سرحد کا بھر پور دفاع کریں گے طالبان قیادت نے کہا کہ پاکستان ہمارا محسن ہے، پھر آخر آج پاکستان کے خلاف سب کچھ افغان سر زمین سے ہی کیوں ہو رہا ہے؟ بھارت افغانستان اور پاکستان میں تنائو پیدا کرکے پاکستان کو نیچا دیکھانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس سے کچھ منوانا چاہتا ہے۔چین چاہ بہار کے ذریعہ افغانستان تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے اور ایران بھی افغانستان سے اپنے تعلقات معمول پر لارہا ہے جبکہ پاکستان اور افغانستان میں تعلقات خراب کرکے ان میں دوریاں پیدا کی جارہی ہیں اس سارے سیناریو میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ یہ سوچنے کی ضرورت ہے ؟