درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی تھا جو اس دل میں دکھانے کی ضرورت کیا تھی ہو محبت تو چھلک پڑتی ہے خود آنکھوں سے اے مرے دوست بتانے کی ضرورت کیا تھی یہ جو بات شعرثانی میں ہے بہت بے ساختہ ہے کہ انسان کی خوشی بعض اوقات چھپائے نہیں چھپتی اور محبت سے بڑھ کر اور خوشی کی بات کون سی ہوسکتی ہے۔ یہ تو آنکھوں سے بھی عیاں ہو جاتی ہے۔ محبت ضروری نہیں کہ محبوب ہی سے ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ محبوب کوئی صنف ہی ہو۔ محبوب اپنا وطن بھی تو ہوتا ہے۔ تو ہمارے بھی اپنے وطن کے لیے جذبات بے ساختہ اور والہانہ ہیں۔ اپنے ملک کا نام آئے یا اس کا پرچم لہرائے ہمارے اندر پھول سے کھلنے لگتے ہیں۔ تتلیاں سی اڑنے لگتی ہیں اور بعض اوقات ہماری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ بعض اوقات یہ بے قابو اظہار ایسا ہوتا ہے کہ ہم خود بھی مسکرانے لگتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال حالیہ میچ ہے جس میں پاکستانی نژاد آسٹریلوی بیٹسمین عثمان خواجہ نے بھارت کی کرکٹ ٹیم کی درگت بنائی۔ عثمان خواجہ کے ساتھ ہمارا تعلق کیا ہے۔ موہوم انداز میں آپ گیت کا مصرعہ دہرا سکتے ہیں ’’تیرا میرا کوئی نہ کوئی ناطہ ہے۔‘‘ وہی جو وطن کی مٹی میں بسی بو باس ہے۔ آپ یقین کیجئے کہ عثمان خواجہ پر رہ رہ کر پیار آرہا تھا کہ بے دریغ بھارتی کھلاڑیوں یعنی بائولرز کی پھینٹی لگا رہا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے عثمان نہیں ہم کھیل رہے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ تھا کہ بھارتی کھلاڑی فوجی ٹوپیاں پہن کر آئے ہوئے تھے کہ جیسے وہ میدان جنگ میں آئے ہوئے ہیں۔ مودی کے سورمائوں نے کھیل کو بھی سیاست سے پراگندا کیا۔ قدرت کو کچھ اور ہی مقصود تھا۔ اب ان کے اپنے بھارتی بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ ٹوپیاں منحوس ثابت ہوئیں۔ پاکستان سے کھیلنے سے تو انہوں نے انکار کر رکھا ہے مگر ایک پاکستانی نژاد نے جی بھر کر ان کی تسلی کروائی۔ یک نہ شد دو شد یوں ہوا کہ بدھ کے روز بھی عثمان خواجہ نے سنچری سکور کر کے ایک مرتبہ پھر آسٹریلیا کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور بھارت کو اس کی اوقات یاددلادی۔ اس روایتی دشمن سے جو مکار ہے ۔ سب سے بڑھ کر وہ ہمارے کشمیری بھائیوں پر غم کے پہاڑ توڑتا ہے، بے گناہوں کو قتل کرتا ہے، نوجوانوں کے چہروں کو زخمی اور آنکھوں کو بے نور کرتا ہے۔ اس ظالم کے خلاف ایک نفرت ہمارے ساتھ پروان چڑھی ہے جس کا اظہار خود بخود ہی ہوتا رہتا ہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوا کہ ہاکی میں ہمارا نواں نمبر اور اس بات پر خوش تھے کہ بھارت دسویں نمبر پر تھا۔ اسد عمر نے بھی کہا ہے کہ عثمان خواجہ کو کوئی قومی ایوارڈ نہ دے دیا جائے۔ علاوہ ازیں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھی عثمان خواجہ کی تعریف کی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ تعریف کہیں عثمان خواجہ کو مہنگی ہی نہ پڑ جائے کہ بھارت آسٹریلیا کو سفارتی دبائو میں لا کر عثمان خواجہ کو ٹیم سے نہ نکلوا دے یا کم از کم یہ بات منوالے کہ پاکستانی نژاد کو ٹیم کے ساتھ بھارت نہ بھیجیں کہ اس کی وجہ سے بھارت کی ٹیم کا ہی نہیں فوج کا بھی مورال ڈائون ہوا ہے۔ بھارتیوں سے کچھ بھی بعید نہیں۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ سدھو کے ساتھ انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ اس کو محض اس واسطے سے غدار کہہ دیا کہ وہ عمران کے مدعو کرنے پر پاکستان آیا اس کی تعریف کی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آرمی چیف سے اس نے جپھی ڈالی۔ سدھو نے بھی خیر مودی کو ٹھوک کر جواب دیا کہ تم نوازشریف کے گھر جا سکتے ہو تو سدھو کیوں نہیں۔ بھارت کی نفرت اور آرمی چیف کی چبھی نے سدھو کو ہیرو بنا دیا۔ سدھو آج بھی پاکستان کے لیے رطب اللسان ہے کہ عمران خان نے سکھوں کے لیے کرتارپور کاراستہ کھول دیا۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستان والے فراخدل ہیں اور امن پسند ہیں۔ حالیہ واقعات جس میں بھارت نے جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی۔ بھارت کے خلاف ہی گئے ہیں۔ مودی کا مذاق ہی اڑا ہے۔ وہ ہم پر بولتا رہا اور دھمکیاں دیتا رہا۔ ہم اس شعر کی تفسیر بنے رہے: مجھ پہ کیچڑ نہ اچھالے میرے دشمن سے کہو اپنی دستار سنبھالے میرے دشمن سے کہو جو گڑھامودی نے ہمارے لیے کھودا وہ خود اس میں گڑپرا۔ ہمارے شاہینوں نے اس کا طیارہ بھی گرایا اور ان کے ابھی نندن کو بھی پکڑا اور بہادروں کی طرح ان کو ان کا سورما واپس کر دیا۔ یہ الگ بات کہ انہوں نے بے چارے کو گرائونڈ ہی کردیا۔ چلیے پھر آتے ہیں کرکٹ کی طرف۔ آپ ذرا ہمارا اندازہ لگائیں کہ بدھ کے روز گلیڈی ایٹر کا زلمی کے ساتھ زبردست میچ تھا مگر میں تو آسٹریلیا اور بھارت کا میچ دیکھتا رہا۔ شاید عثمان خواجہ کے کھیلنے میں میرا بھی پورا زور شامل تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے اس کی ہر شاٹ میں کھیل رہا ہوں۔ پھر بھارتیوں کی بے بسی بھی دیکھی جب کھیل سے پہلے ہی ہار گئے۔ یہ شعر یاد آ رہا تھا: جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار اے کاش جانتا نہ تری رہرگزر کو میں آپ کو یاد ہوگا کہ جب محمد علی کلے باکسنگ میں اترتا تھا اس کا میچ پورا پاکستان دیکھتا تھا۔ یہ وہی چیز ہے جس کو عقیدہ اور نظریہ کہتے ہیں۔ یہی تو چنگاری ہے جو دشمن کو جلاتی ہے۔ اسی کو تو وہ بجھا دینا چاہتے ہیں کہ وہ چیز ختم ہو جائے جس کا تذکرہ اقبال نے بھی کیا ہے: ایک ہو مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر اس چیز کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری خوشیاں اور غمیاں سانجھی ہیں۔ کاش یہی جذبہ ہمیں کردار سازی کی طرف راغب کردے۔ چلیے ہم خوش ہیں کہ ایک پاکستانی نژاد کے باعث آسٹریلیا نے ون ڈے اور ٹونٹی سیریز جیت لی اور اس نوجوان نے کروڑوں مسلمانوں کو خوش کردیا۔ تازہ دو شعروں کے ساتھ اجازت: وہ جو دنیا سے بے نیاز ہوا اس نے دنیا پہ حکمرانی کی ہم نے اس کو وہیں یہ چھوڑ دیا جس نے تھوڑی سی بدگمانی کی