وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس سے بذریعہ وڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے ان تمام بین الاقوامی مسائل کا عمدگی سے احاطہ کیا جو پاکستان کے لیے خدشات کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ کورونا کی وبا کی وجہ سے اس سال سربراہان مملکت اور سربراہان حکومت نے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز جانے کی بجائے زیادہ تر اپنے ملک میں رہ کر وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اسلاموفوبیا نے دنیا میں مسلمانوں کے خلاف تعصب کو بڑھاوا دیا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ اس نفرت انگیز تحریک کے انسداد کی خاطر عالمی دن منانے کا اعلان کیا جائے۔ وزیراعظم نے کشمیر‘ فلسطین‘ افغان پناہ گزینوں‘ منی لانڈرنگ کی روک تھام اور غریب ممالک کو قرضوں کی ادائیگی میں رعایت دینے جیسے معاملات پر واضح اور دو ٹوک موقف پیش کیا۔ وزیراعظم نے گزشتہ دو برسوں کے دوران جب کہیں موقع ملا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کشمیریوں کے حق خودارادیت اور فلسطینیوں کی آزادی کے حق میں آواز بلند کی۔ یہ امر کسی شک و شبہ سے بالا ہے کہ اقوام متحدہ نے دنیا میں جنگوں کا راستہ روکا ہے۔ بہت سے جھگڑے سفارتی مذاکرات سے طے ہوئے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تنازع کشمیر کے حل کی خاطر بطور ادارہ اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل نہیں کروا سکا۔ دنیا کی سکیورٹی اور مالیاتی پالیسیوں کو ترتیب دینے والے بڑے ممالک جمہوریت اور انسانی حقوق کے جن اصولوںکی حفاظت کا دعویٰ کرتے ہیں وہ اصول مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر کے قدموں تک روندے جا رہے ہیں۔ اس مسئلے کا منصفانہ اور حتمی حل ناگزیر ہے۔ تاخیر کی صورت میں صرف سانحات بڑھیں گے۔ برطانوی مصنف رونیمیڈ ٹروسٹ نے " اسلاموفوبیا،اے چیلنج فار اس آل ،،کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں اس لفظ کی تعریف بیان کی کہ اسلامو فوبیا اسلام سے بے پناہ خوف اور ایک ایسا ڈر ہے جو لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کو جنم دیتا ہے اور فرانسیسی مصنفین کے نزدیک اس لفظ کا استعمال سب سے پہلے مالیہ ایمیلی نے "ثقافت اور وحشت" کے عنوان پر مقالہ میں کیا جس کو 1994 ء میں فرانس کے ایک اخبار لیمنڈا نے شائع کیا۔برطانیہ امریکہ ،جرمنی ،فرانس ،نیدرلینڈ ،سویڈن ،ڈنمارک اور ناروے میں خاکوں کی اشاعت ،قرآن پاک کو نذرآتش کرنے کی مذموم کوششیں،حجاب کے خلاف مہم اور مسلمانوں کے ساتھ عوامی مقامات پر تعصب کا اظہار اسی اسلامو فوبیا کی سوغاتیں ہیں۔ گزشتہ برس نیوزی لینڈ میں ایک حملہ آور نے اسی تعصب کے زیر اثر مسجد پر دہشت گردانہ حملہ کر کے درجنوں نمازیوں کو شہید کیا۔اسلامو فوبیا کے خلاف اگرچہ برسلز میں دوہزار اٹھارہ کو ایک قانون منظور کیا گیا لیکن مغربی معاشروں میں مسلم مخالف مہم کو ناکام بنانے کے لیئے دنیا بھر میں ایک دن منانے کا اقدام رواداری اور برداشت کے حامی طبقات کی کوششوں کو کامیابی دلا سکتا ہے۔ منی لانڈرنگ ایک ایسا جرم بن کر سامنے آئی ہے جس سے دنیا بھر میں بد عنوان افراد نے قانونی مالیاتی نظام کے متوازی نظام قائم کر لیا ہے ۔منی لانڈرنگ اور غیر قانونی طریقے سے رقوم کی ترسیل کے سلسلے کو روکنے کیلئے پاکستان کی کوششیں جاری ہیں لیکن بین الاقوامی اداروں کے مطابق پاکستان کو مزید بہت کچھ کرنا ہے تاکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یعنی ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کیا جا سکے اور پاکستان گرے لسٹ سے نکل سکے۔ماہرین کے مطابق کرنسی غیر قانونی طریقوں سے باہر بھیجنے کو منی لانڈرنگ کہا جاتا ہے ۔ ہنڈی اور حوالے سے رقم بھیجنے سے منی لانڈرنگ کو تقویت ملتی ہے۔اکثر لوگ بنکوں یا قانونی طریقوں سے ہٹ کو کسی منی ایکسچینج یا نجی کاروبار کرنیوالے افراد کے ذریعے غیر ممالک سے رقم پاکستان بھیجتے ہیں۔اس طریقے میں ہوتا یوں ہے کہ بیرونی ملک میں رہنے والا شخص جب رقم پاکستان بھیجنے کے لیے کسی شخص کو دیتا ہے تو وہ شخص فارن کرنسی اپنے پاس رکھ کر پاکستان میں اپنے ایجنٹ سے کہتا ہے کہ اتنی رقم اس شحص کے رشتہ دار کو دے دی جائے۔ پاکستان میں بیٹھا شخص مذکورہ رقم اس شخص کے رشتہ دار کو دے دیتا ہے۔ اس طریقے میں اکثر لوگ بلیک منی یا غیر قانونی طریقوں سے حاصل کی گئی رقم استعمال کر لیتے ہیں۔پاکستان میں سابق حکمران خاندان اور اعلیٰ افسران نے کھربوں روپے غیر قانونی طریقے سے باہر بھیجے ،ملک قرضوں میں جکڑا جا رہا تھا اور یہ لوگ لوٹ کا پیسہ بیرون ملک منتقل کر رہے تھے۔ دیگر ترقی پذیر ریاستوں میں بھی حالات کم و کاست ایسے ہی ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ بڑی معیشتیں جان بوجھ کر پسماندہ ممالک کے بدعنوانوں کو یہ موقع دیتی ہیں تاکہ ان کے ہاں یہ کالا دھن سرمایہ کاری کی صورت میں آتا رہے وزیر اعظم نے اسی سلسلے کو ختم کرنے کیلئے مشترکہ فریم ورک تشکیل دینے کی تجویز پیش کی ہے ۔ وزیراعظم عمران خان نے افغان پناہ گزینوں کی واپسی کو افغان تنازع کے حل کا حصہ بنانے کی بات ایسے وقت کی ہے جب امریکی سرپرستی میں بین الافغان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان نے عشروں سے ان مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔ ناکافی وسائل کے باوجود ان کے لیے بنیادی سہولتوں کی فراہمی دقت طلب کام ہے۔ کورونا کی وباء نے اگرچہ ہر معشت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں لیکن ترقی پذیر اور غریب ممالک کی حالت اس لحاظ سے دگرگوں ہے کہ انہیں معاشی بہتری کی مقامی شکل درست کرنے کے ساتھ عالمی قرضوں کی ادائیگی کا چیلنج بھی لاحق ہے۔ وزیراعظم کا خطاب اس امر کی دلیل ہے کہ پاکستان دنیا کو لاحق خطرات کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔