آج پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے،الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تمام تر انتظامات مکمل کر لئے ہیں، پولنگ اسٹاف پولنگ اسٹیشنز اور سیکورٹی عملہ کے ساتھ ساتھ سات لاکھ سے زائد بیلٹ بکس بھی تیار کر کے متعلقہ پولنگ اسٹیشنز پر پہنچا دیے گئے ہیں، پولنگ کا عمل بلا روک ٹوک صبح 8بجے سے 5بجے شام تک جاری رہے گا، بڑی بڑی تمام سیاسی جماعتوں نے بھر پور الیکشن مہم چلائی ہے پاکستان مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم پہلے نمبر پر رہی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی الیکشن مہم دوسرے نمبر پر رہی ہے سال 2018 کے انتخابات میں پہلے نمبر پر آنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف بطور پارٹی الیکشن کمیشن کے ضابطے کی نظر ہو کر الیکشن مہم میں بحیثیت جماعت نظر نہیں آئی۔ جماعت اسلامی پاکستان نے بھی بہت محنت کی ہے۔نومولود استحکام پاکستان پارٹی نے بھی ووٹر کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے بہت کوشش کی ہے۔ایم کیو ایم نے بھی صوبہ سندھ خاص طور پر کراچی میں بہت زور لگایا ہے اس دفعہ موسم کی سختیاں یا نادیدہ سختیاں الیکشن مہم میں وہ رنگ نہ بھر سکیں، وہ گہما گہمی بھی نظر نہیں آئی، جو گہما گہمی گزشتہ عام انتخابات میں دیکھنے کو ملتی تھی بہرحال خوش آئند امر یہ ہے کہ تمام تر خدشات اور تحفظات کے باوجود الیکشن کمیشن نے الیکشن کے انعقاد کے عمل کو یقینی بنایا اب آج کے عام انتخابات کا ٹرن آوٹ کیا رہتا ہے، اس کا انحصار بھی امیدواروں کی طرف سے ووٹرز کو پولنگ اسٹیشنز تک لے جانے اور ووٹر کی دلچسپی پر ہے، یہاں پر اگر ان عام انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران امن و امان کی صورتحال پر بات نہ کی جائے تو یہ بھی زیادتی ہو گی تمام تر مسائل کے باوجود نگران وفاقی حکومت نے اور صوبائی حکومتوں نے امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اکا دکا واقعات کے علاوہ مجموعی طور پر پر کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا ہے، الیکشن کمیشن نے بھی پولنگ کے عملے کی تعیناتی کے عمل کو بخوبی مکمل کیا ہے جہاں تک لیول پلنگ فیلڈ کا تعلق ہے اس کے بارے میں تمام جماعتوں کا ایک بیج پر ہونا ناممکن بات ہے اور یہ اس سے پہلے بھی کبھی نہیں ہوا ہے کہ تمام جماعتوں نے لیول پلنگ فیلڈ مساوی ملنے کا تزکرہ کیا ہو ہارنے والی جماعت یا امیدوار دھاندلی کا ہی رونا روتے آئے ہیں۔ 8 فروری کے بعد بھی لیول پلنگ فلیڈ نہ ملنے کا شور شرابا سننے کو ملے گا 2013ء کے عام انتخابات میں 35 پنکچر کا بہت شور ڈالا گیا لیکن جب ثبوت مانگے گے پھر یہ بھی سیاسی بیان بازی ہی نکلی۔ 2018ء کے عام انتخابات میں آر ٹی ایس سسٹم کے بیٹھ جانے کا بہت تذکرہ ہوا کسی نے اسے اپنی اکثریت کم کرنے اور کسی نے اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کا شاخسانہ قرار دیا، الغرض لیول پلنگ فیلڈ گزشتہ عام انتخابات میں میں بھی کسی نہ کسی الزام کی صورت میں نہ ملنے کی تاریخ ہی بنی، عام انتخابات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو کہیں دور دور تک انتخابات کے صاف و شفاف ہونے کے امکانات کم ہی نظر آئے ہیں اور ہارنے والی سیاسی جماعتوں نے دھرنے لانگ مارچ اور استعفوں کی دھمکیاں ہی ملتی رہی ہیں، کسی بھی سیاسی جماعت نے خوش دلی سے نتائج کو تسلیم نہیں کیا ہے، اس کو آپ المیہ کہیں یا جمہوری سسٹم کی کمزوری، بہرحال آج کے عام انتخابات کے انتخابی نتائج سے پہلے ہی لیول پلنگ فلیڈ نہ ملنے کے ساتھ ساتھ مختلف دھاندلی کے حربے اختیار کرنے کی بات چل نکلی ہے ۔ گزشتہ عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ نامناسب اور غیر جمہوری غیر منصفانہ سلوک رکھا گیا، شیر کو پنجرے میں بند کر دیا گیا شیر کو پنجرے میں بند کرنے کے نقصانات کی تلافی شیر کو آزاد کر کے تو ہو سکتی ہے لیکن ملکی نقصانات کا ازالہ ناممکن ہے شیر کی بات اس سے چلی ہے کہ ہمارے نوجوان سیاسی رہنما سابق وزیر خارجہ پاکستان بلاول بھٹو زرداری چیرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم شیر کا راستہ روکیں گے اور انہوں نے نواز شریف پر انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے کی بھی بات بھی کی ہے اور اپنے کہی بیانات میں ن لیگ کو وہ مہنگائی لیگ بھی کہتے رہے ہیں ہم جماعتوں کے قائدین کے بیانات کو محض دلچسپی کے لیے زیر بحث لاتے ہیں ورنہ سیاست میں بیانات بدلتے رہتے ہیں اور کہیں صبح کے بھولے شام کو واپس بھی چلے جاتے ہیں جو کہ اچھی بات ہے اور کچھ تو ایسے ہیں کہ صبح کے وقت بھولے تو پھر ان کی واپسی کی شام شام غریباں ہی بن گئی، ہم بلاول بھٹو زرداری سے کہیں گے کہ وہ اپنے والد محترم جن کو مفاہمت کا بادشاہ اور مرد حر قرار دیا جاتا ہے ان سے بھی مشورہ کر لیں کہ شیر کا راستہ روکنے کا نتیجہ اس سے پہلے قوم اور ملک بھگت چکا ہے اور اگر اب آپ نے شیر کا راستہ روکا تو پھر چیر پھاڑ کا ایسا عمل شروع ہو گا جس میں سب کی سرجری ہو گی اور پھر شاید جمہوریت کے بھی حصے بخرے کرنے پڑ جاہیں، الیکشن مہم اپنے اختتام کو پہنچ چکی آج ووٹرز کو آزادانہ طور پر اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کا موقع ملنا چاہئے 9 فروری کی صبح کا سورج طلوع ہونے میں زیادہ دیر نہیں لیکن لگتا ہے کہ 9 فروری کو جہاں کچھ حلقوں کے حیرت انگیز نتائج آئیں گئے وہاں مجموعی طور پر انتخابی نتائج بھی شاید ہم سب کی توقعات کے برعکس ہوں، اللہ خیر کرے۔ ٭٭٭٭٭