جاوید ہاشمی نے کہا تھا: آصف زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی کرنا پڑے گی۔ نونہالان انقلاب میں سے کوئی رہنمائی کرے گا کہ عمران خان کی سیاست سمجھنے کے لیے ہم طالب علموں کواب کیا پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنا پڑے گا؟ چند سال قبل وزیر اعظم پاکستان آئی ایم ایف کے وفد سے ملے تو تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹر سے گرہ لگائی گئی۔ہمارا وزیر اعظم بھکاری ہے۔کل یہی شرف جناب عمران خان نے حاصل کیا تو نونہالان انقلاب نے جلدی سے پرانے ٹویٹ کو ڈیلیٹ کر دیا۔دیکھنے والے مگر قیامت کی نگاہ رکھتے ہیں۔بات تب تک پوری بستی میں پھیل چکی تھی اور ڈیلیٹ کیے گئے ٹویٹ کے سکرین شارٹ اسی پرانے عنوان کے تحت شیئر کیے جا رہے تھے۔ٹویٹ تو ڈیلیٹ کیے جا سکتے ہیں مگر سماج کی یادداشت سے وہ اقوال زریں آپ کیسے کھرچ کر پھینک سکتے ہیںجو دن میں بیس بیس مرتبہ قوم کو سنائے جاتے تھے۔ تحریک انصاف کا دور اقتدار کیسا رہا؟اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔موجودہ وقت البتہ ایک اور فیصلہ سنا چکاہے کہ تحریک انصاف کا بطور حزب اختلاف کیسا کردار رہا۔ خیالِ خاطرِ احباب کے تمام تقاضے سر آنکھوں پر ، حقیقت مگر یہ ہے کہ یہ فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف آ رہا ہے۔سادگی کے دعووں اور مہمان پرندوں کو یو اے ای کے شہزادوں سے بچانے کے عزائم سے لے کر روایتی سیاست سے بے زاری تک اپوزیشن کے زمانوں میں جتنی باتیں کہیں گئیں اور جتنے دعوے فرمائے گئے ایک ایک کر کے ان کی حقیقت کھلتی جا رہی ہے۔غیر ذمہ داری ، ہیجان ، منتشر الخیالی،نقص فہم ، دشنام ۔برادر مکرم خورشید ندیم سے مکمل اتفاق تو آج بھی ممکن نہیں کہ یہ سب پوسٹ ٹروتھ تھا ، میرے لیے مگر آج اس سے مکمل اختلاف بھی ممکن نہیں رہا۔صرف چھ مہینے گزرے ہیں اور حقیقت یہ ہے ان چھ مہینوں میں تحریک انصاف کو جب جب اس کے آدرشوں اور اصولوں کی میزان پر تولا گیا، جزوی استثناء کے ساتھ یہ ہر بار ہلکی نکلی۔عدت کے ، معاف کیجیے مدت کے ، ابھی تو ساڑھے چار سال باقی ہیں۔کون جانے تب تک کیا کچھ سامنے آ جائے۔ معیشت ہی کو دیکھ لیجیے۔ڈی چوک پر باقاعدہ حلف اجتماعی لیا گیا تھا کہ بھیک نہیں مانگیں گے اورآئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔آج اسی آئی ایم ایف سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں ۔جب تحریک انصاف نے مہنگائی کا اولین سونامی ہنستے بستے شہروں میں بھیجا تو کیا آپ کو یاد ہے اس کا عذر کیا پیش کیا گیا تھا؟ کہا گیا چونکہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا چاہ رہے اور ہم غلامی کا طوق اتار کر پھینکنا چاہتے ہیں اس لیے ملک کے وسیع تر مفاد میں مہنگائی کو برداشت کرنا ہو گا۔لوگوں نے ہر روز مہنگائی کے سونامی کی اس امید پر آرتی اتاری کہ یہ وہ قیمت ہے جو اپنی آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے کے لیے دینا پڑ رہی ہے۔آج جب مہنگائی کا عذاب اپنے عروج پر پہنچ چکا تو خبر آئی کہ اب آئی ایم ایف کے پاس بھی جا رہے ہیں۔ پریشاں حال خلق خدا نے شکوہ کیا تو نونہالان انقلاب نے ڈانٹ دیا: شش ، حد ادب ، گستاخ ، دیکھ نہیں رہے وزیر اعظم نے کتنی اچھی انگریزی میں تقریر کی ہے؟ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی تھا تو پہلے دن یہ فیصلہ کر لیا ہوتا۔ اب جو بیچ میں تضادات ، جھوٹ اور غلط بیانیوں کا سمندر حائل ہو چکا اس کا کیا کریں؟پہلے کہا آئی ایم ایف کے پاس نہیںجانا چاہتے ، اس لیے مہنگائی بڑ رہی ہے۔ پھر کہا بس تھوڑی سی مزید مہنگائی برداشت کر لو قریب ہے کہ دوست ممالک سے مدد مل جائے اور ہم آئی ایم ایف سے بے نیاز ہونے کا ہدف حاصل کر لیں۔تیسرے مرحلے میں ایک تقریب سجا کر با قاعدہ دعوی فرمایا گیا کہ اب ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہی۔اب عام آدمی حیران ہے مہنگائی بھی آگئی، دوست ممالک سے غیر معمولی مدد بھی مل گئی اور آخر میں پھر وہی آئی ایم ایف۔ بطور اپوزیشن تحریک انصاف نے معیشت کے باب میں جو کچھ کہا ، غیر سنجیدہ ، جذباتی اور نا معتبر ثابت ہوا۔ دعوے ہی باطل نہیں ثابت ہوئے ان کے اعدادوشمار بھی غلط نکلے۔بیرون ملک بنکوں میں دو سو ارب ڈالر کے فسانے اسد عمر نے یوں سنائے کہ لوگوں نے ان کی واپسی کے سپنوں سے امکانات کے تاج محل بنا لیے۔ اقتدار میں آئے تو خود ہی فرما دیا ایسی کوئی بات نہیں۔مراد سعید نے پہلے تین دنوں میں جانے کس کس کے منہ پر اربوں ڈالر مارنے تھے آج کسی کو خبر نہیں وہ اربوں ڈالر کیا ہوئے۔آج ریڈیو پاکستان کی ویب سائٹ پر شاہد حسن صدیقی کا ارشاد اہتمام سے لگایا گیا ہے کہ عمران خان نے آئی ایم ایف سے ملاقات کر کے کمال کر دیا ہے ۔لیکن یہ شاہد صدیقی یہ بات نہیں بتا رہے کہ نواز شریف کے دور میں ہر روز بائیس بلین کی کرپشن کا جو انہوں نے انکشاف فرمایا تھا اس میں کتنی صداقت ہے۔کیا یہ بھی پوسٹ ٹروتھ تھا؟ شاہد صدیقی ہر روز 22 بلین کرپشن کے حجم کا دعوی فرما رہے تھے لیکن قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر مراد سعید نے بطور وزیر کہا کہ نواز شریف کے دور میں ہر روز دو بلین کی کرپشن ہوتی تھی۔( بیس بلین کم ہوگئے؟)۔اگلے روز فرمایا ہم نے پہلے دن ہی کرپشن ختم کر دی۔چھ ماہ کے اقتدار میں گویا اس حکومت نے ہر روز دو بلین بچائے۔ایک ماہ کا ساٹھ بلین۔ دو ماہ کا ایک سو بیس بلین۔تین ماہ ایک سو اسی بلین۔ چار ماہ کا دو سو بلین ۔اتنی رقم بچا لی ہے تو پھر آئی ایم ایف کے پاس کیوں جا رہے ہیں؟ ایک طرف عمران خان کے خیر خواہ ہیں جو محدب عدسے لیے پھرتے ہیں کہ اہل اقتدار کے فیصلوں میں تدبر اور دانش کا کوئی قطرہ نظر آئے ،اپنی خوش گمان تاویلات سے وہ اسے قلزم بنا دیں۔دوسری جانب عمران خان کی ٹیم کے وہ نابغے ہیں جن کے دامن میں منتشر الخیالی اورتنک مزاجی کے سوا کچھ نہیں۔اسرار حکومت سے کچھ رہ و رسم ہے نہ سماج سے آگہی۔عمران خان کی مقبولیت کی لہر نے ایسے ایسے حضرات کو معتبر بنا دیا ہے جو کبھی محض اپنی مقبولیت کے بل بوتے پر ڈرائنگ روم سے نکلیں تو گلی کی نکڑ سے علاقہ غیر شروع ہو جائے۔نتیجہ ہمارے سامنے ہے: لطائف اور تضادات کا دفتر کھل چکا ہے اور خیر خواہوں کا اضطراب بڑھتا جا رہا ہے۔المیہ یہ ہے کہ عمران خان اس سب سے بے نیاز کھڑے ہیں۔