ابھی تک امت مسلمہ سمیت دیگر اقوام کو یہ بات سمجھ نہیں آسکی کہ آخر صہیونی ریاست اسرائیل فلسطینی عوام کا جانی دشمن کیوں بنی ہوئی ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ اسرائیل روز اول سے ہی نہتے اور بے گناہ فلسطینیوں کے خون کا پیاسا ہے اور وہہر صورت غزہ کی سرزمین پر اپنے ناجائز قبضہ کی توسیع چاہتا ہے، یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اسرائیل کا غزہ پر یہ پہلا حملہ نہیں اس سے قبل بھی اسرائیل لشکر کشی کر چکا ہے اور غزہ پر قبضہ کی ناکام کوششیں کر چکا ہے۔ اس بار بھی نتائج ایسے ہی ہونگے، ڈیڑھ ماہ سے فضائی و زمینی حملے جاری ہیں جن میں بھر پور اور اندھا دھند طاقت کا استعمال کیا جارہاہے ۔ یہ دنیا کی واحد جنگ ہے جس میں ایک قوم کی نسل کشی کیلئے ایسے فاسفورس کا استعمال کیا جارہا ہے جس سے انسان تو انسان جانوروں کیخلاف بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک ایسا میدان جنگ ہے جس میں عورتوں ، بچوں، معذور اور ضعیف العمر افراد تودور کی بات انسانی و بنیادی حقوق کا خیال بھی نہیں رکھا جا رہا۔ اسرائیلی جارحیت کا نشانہ گنجان آباد علاقے ہی نہیں بلکہ ہسپتال و بنیادی طبی مراکز بن چکے ہیں۔ غزہ میں واقع تمام ہسپتال اسرائیلی بمباری سے ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں یا پھر بنیادی سہولتیں نہ ہو نے کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔ دنیا میں کسی جگہ شدید ترین جنگی حالات میں بھی ہسپتال محفوظ رہتے ہیں اور طبی عملے کا احترام کیا جاتا ہے لیکن اس جنگ میں متعدد ڈاکٹر اسرائیلی بمباری سے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔پھر بھی نام نہاد ''ترقی یافتہ'' اقوام کی نظر میں مسلمان دہشت گرد ہیں ۔سوچنے کی بات ہے ہ کیا یہ سب کچھ '' اوور نائٹ ''ہو گیا یا پھر اسرائیل کے مکروہ عزائم کے پس پردہ ایک مکمل داستاں ہے ،خیال کیا جارہا ہے کہ7اکتوبر حماس کے فدائی حملوں کے بعد اسرائیل نے غزہ کو تہ تیغ کرنے کی ٹھا نی لیکن یہ بات حقائق کے بالکل برعکس ہے، عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق یہ بہت پہلے سے طے تھا۔ آج سے 31سال قبل تل ابیب میں روایتی حلیف امریکہ اور اسرائیل کے اعلیٰ سطحی وفد میںستمبر 992 1 ء میں ایک اہم ملاقات ہوئی جس میں فلسطینی عوام اور ان کے مستقبل کے بارے میںگفتگو ہوئی ۔ اس ملاقات میں اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق را بین نے دو ٹوک الفاظ میں غزہ بارے اپنے عزائم کا اظہار کیا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ غزہ کے عوام کو سمندر میں غرق کردیا جائے لیکن یہ ناممکن تھا چنانچہ اس امریکی اسرائیلی اعلیٰ حکام کی نشست میں فلسطینی عوام کے قتل عام اور سر زمین القدس پر قبضے بارے منصوبہ بندی کی گئی اور فورا ہی اس پر عملدرآمد کا آغاز کردیا گیا۔ اسحاق رابین کے بیان کو 31سال گزر گئے ہیں۔ اسرائیل غزہ کو غرق کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ غزہ کی سرزمین پر قبضہ صہیونی ریاست کے ایجنڈا کا حصہ ہے ۔41کلومیٹر طویل اور 10کلومیٹر چوڑی غزہ کی پٹی اسرائیل، مصر اور بحیرہ روم کے درمیان میں واقع ہے جہاں صرف 23 لاکھ لوگ بستے ہیںاور غزہ دنیا کا گنجان ترین علاقہ ہے اور اس کی سرزمین مسلمانوں کا تاریخی ورثہ ہے اور اس کی تاریخ تقریبا چار ہزار سال پرانی اور بیرونی حملوں اور قبضوں سے بھری ہوئی ہے۔ تاریخ اور قرائن بتاتے ہیں کوئی چیز ہے جو ہر حکمران کو اس سر زمین کی طرف کھینچ کرلے آتی ہے اور آج اسرائیل غزہ پر قبضہ کیلئے تمام حدود کراس کر چکاہے۔ ممتاز برطانوی اخبار گارڈین نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں اسرائیل کے غزہ پر حملے کی اصل وجہ سے پردہ اٹھاتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کا اصل ہدف غزہ کے ساحل کے قریب دریافت ہونے والے 1.4 کھرب مکعب فٹ گیس کے ذخائر ہیں جن پر قبضہ کرنے کیلئے غزہ کے عوام پر آگ برسائی جارہی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ سیکورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر نفیز احمد نے اس تحقیقی رپور ٹ میں اسرائیلی وزیر دفاع کے ان بیانات کا حوالہ دیا ہے جو انہوں نے 2007 اسرائیلی فوج کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے دئیے تھے۔ اس وقت ''موشے یالون'' اسرائیلی وزیر دفاع نے موقف اختیار کیا تھا کہ فلسطینیوں کے گیس کے ذخائر پر قبضہ کرنا بے حد ضروری ہے کیونکہ اسرائیل کے اپنے ذخائر آئندہ چند دہائیوں میں ختم ہونے والے ہیں۔ 2007ء میںاسرائیلی آرمی چیف نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ اگر فلسطینی ان ذخائر سے گیس نکالیں گے اس صورت میں اس کے فوائد اسرائیل کی دشمن تنظیم حماس کو بھی پہنچیں گے جو مضبوط ہو کر اوربڑا خطرہ ثابت ہوگی اس لئے یہ ضروری قرار دیا گیا تھا کہ حماس کو جڑ سے اکھاڑا جائے اور اس مقصد کیلئے 2007میں آپریشن ''کاسٹ لیڈ''کا آغاز کیا گیا لیکن 1387 فلسطینیوں کی شہادت کے باوجود حماس کا خاتمہ نہ ہو سکا۔اس وقت اسرائیل عملی طور پر فلسطین کے تمام معدنی ذرائع ،ساحلوں اور سمندروں کا استعمال کر رہا ہے اور مستقبل میں فلسطینی گیس کے ذخائر کو اسرائیلی ذخائر کا حصہ بنانے کیلئے دوبارہ غزہ پر حملہ کر د یا گیا ہے ۔اسرائیل کے دو اہم سائنسدان اپنی حکومت کو بتا چکے ہیں کہ ملک کے معدنی ذرائع خصوصا گیس ضرورت سے بہت کم ہے۔ اپنے توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے اسرائیل فلسطینی معدنی ذرائع پر قبضہ کرنا چاہتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قدرتی وسائل کے ذرائع غزہ کے ساحل کے قریب واقع ہیں اور غزہ حماس کے زیراثر ہے ،ا پنے اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے اسرائیل نے ایک دفعہ پھر حماس کے خاتمہ کیلئے غزہ پر جنگ مسلط کی ہے اور غزہ کی عوام کو حماس کی حمایت کی سزا دینے کیلئے بڑے پیمانے پربموں اورمیزائلوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔غزہ کی جنگ دراصل فلسطینی مسلمانوں کو ان کی زمین اور قدرتی وسائل سے ہمیشہ کیلئے محروم کرنے کی جنگ ہے تاکہ یہ زمین اور وسائل اسرائیل کے ناجائز وجود کو زندہ رکھنے کیلئے استعمال ہو سکیں ۔