آج کل ’فاشزم‘ کی اصلاح ہمارے ہاں کثرت اور فروانی سے استعمال ہو رہی ہے۔ سیاسی تقسیم کے دو اطراف لوگ ایک دوسرے کے دورِ حکومت کو ’ فاشسٹ دور‘ کہہ کر یاد کرتے ہیں ۔ فاشزم آخر ہے کیا؟فاشزم بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں یورپ میں اٹھنے والی ایک دائیں بازو کی تحریک تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس تحریک کا بنیادی تصور معروف جرمن فلسفی فریڈرک نطشے کی مذہب مخالف سوچ سے کشید کیا گیاتھا۔ عام تاثر کے برعکس فاشزم چند افراد پر مشتمل کوئی کلٹ یا زیرِ زمین خفیہ کلب نہیں بلکہ ابتداء میں قدامت پسندی کے خلاف انقلابی فکر کی حامل ایک مقبول تحریک کا نام تھا۔ فاشزم لاطینی لفظ ’فاشیو‘ سے نکلاکہ جس کا مطلب تھا ’ دھاتی ڈنڈوں کا بنڈل‘۔ڈنڈوں کا یہ بنڈل قانون نافذ کرنے والے مجسٹریٹ کے سپاہی بازاروں میںدورانِ گشت اٹھائے اس کے ساتھ چلتے۔ جہاں قانون کی کوئی حکم عدولی نظر آتی، مجسٹریٹ کے حکم پر اس کے سپاہی دھاتی ڈنڈوں سے مجرموں کو موقع پر پیٹتے۔ سال 1917ء کے دوران روس میں برپا ہونے والے بالشویک انقلاب کے بعد مغربی معاشروں میں سوشلسٹ تحریکیں جنم لینے لگیں تو اُن کے اثرات نا صرف یورپی ممالک بلکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ تک میں محسوس کئے جانے لگے۔ اشتراکی تحریکوں کی بڑھتی مقبولیت سے مغربی لبرل ازم کی چھتری کے نیچے آزاد منڈی کے استحصالی نظام کے اندر فروغ پانے والے سرمایہ داروں اور جاگیر داروں نے سب سے پہلے خطرہ محسوس کیا۔خود میسولینی ابتداء میں اٹلی کی سوشلسٹ پارٹی کا ایک لیڈر تھا۔تاہم ملک کی ابتر معاشی اور سیاسی صورتحال کے پیشِ نظر جب اقتدار اس کے حوالے کیا گیا تواس نے ’بلیک شرٹس تحریک ‘ کی بنیاد رکھی۔ مغربی لبرلز اوران کے زیرِ اثر آزاد منڈی کے سرمایہ داروں نے میسولینی کی تحریک کواشتراکیت کے مقابلے میں اپنا حلیف قرار دیتے ہوئے ہاتھوں ہاتھ لیا۔نتیجے میں بلیک شرٹس نے اشتراکیت سے خوفزدہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے ٹریڈ یونینز اور مزدروں کی تحریکوں کی سرکوبی کے لئے سرمایہ بٹورنا شروع کر دیا۔بلیک شرٹس کے غنڈے مزدور تنظیموں کے ارکان کے ساتھ مار پیٹ کرتے اور ان کے علاقوں پر قابض ہوتے چلے گئے۔دوسری طرف جرمنی میں میسولینی کی بلیک شرٹس کی طرز پر ہٹلر کے برائون شرٹس وجود پذیر ہوئے۔ دونوں فاشسٹ حکومتوںنے جبر کے نظام کے اندرشہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے کا آغاز کر دیا۔ تاہم لبرل معاشروں اور ریاستوں کی طرف سے مزدوروں ، کسانوں سمیت عام شہریوں کے ساتھ جبر اور زیادتیوں کو بوجہ نظر انداز کیا جاتا رہا۔حد تو یہ ہوئی کہ لبرل جمہوری ریاستوں نے اشتراکیوں کے بر سرِ اقتدار آنے کے خدشات کے پیشِ نظر فاشسٹ حکومتوں کی جانب عوام کو انتخابات سمیت جمہوری حقوق سے محروم رکھے جانے پر بھی خاموشی اور لاتعلقی کا رویہ اختیار کر لیا۔ بلیک اور برائون شرٹس کی کارروائیوں کوفاشسٹ ہتھکنڈے جبکہ ہٹلر اور میسولینی کی حکومتوں کو آمریت کہہ کر اسی وقت پکارا جانے لگا جب ’فاشسٹ ملکوں‘اور ’جمہوریت پسند لبرل اتحادیوں‘کے مابین دوسری عالمی جنگ کاآغاز ہوا۔ پہلی جنگِ عظیم میں شکست کے بعد جرمنی پرجنگ بندی کا جو ذلت آمیز معاہدہ مسلط کیا گیا، جلد ہی خود فاتحین کو بھی اس کے ناقابلِ عمل ہونے کا احساس ہو گیا تھا۔ فرانس مگر اب بھی جرمنی کو مکمل طور پر تباہ کرنا چاہتا تھا۔ اس کے برعکس برطانیہ یورپ میں طاقت کے توازن کی خاطر جرمنی کو’ کانٹیننٹل قوت‘ کے طورپربرقرار دیکھنا چاہتا تھا۔دو عالمی جنگوں کے بیچ بیس سالہ بظاہر امن کے دور میںپلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا۔ سال1933ء میں ہٹلر پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے میں کامیاب ہو گیا۔مخدوش معاشی اور سیاسی حالات کے پیشِ نظر وائمار ریپبلک کے چانسلر نے اختیارات بتدریج ہٹلر کو منتقل کرنا شروع کر دیئے۔کچھ ہی عرصے بعد جرمن پارلیمنٹ کو آگ لگائے جانے کے الزام میں ہٹلر نے کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کر دی۔ تاہم سیاسی مخالفین پر جبر و استبداد اور شہری آزادیوں کو محدود کرنے کا سلسلہ شدومد سے جاری رہنے کے باوجود جمہوریت پسند مغربی دنیا محض اس بناء پریہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتی رہی کہ کمیونزم کی بیخ کنی میں ان کے مفادات ہٹلر سے مطابقت رکھتے تھے۔ بادشاہتوں ، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی حمایت سے فاشسٹ تحریک پورے یورپ میں پھیل چکی تھی۔چنانچہ جمہوریت پسند لبرل طبقہ بھی اب ہٹلر کی راہ میں حائل کوتیار نہیں تھا۔ جرمن معیشت کی بحالی کے بعدجرمن افواج نے ایک کے بعددوسرے علاقے پر قبضے کا آغاز کیا تو تب بھی ’فاشسٹ جرمنی‘ کو ملنے والی کامیابیوں کو جمہوری ممالک بالخصوص برطانیہ بظاہرخاموشی کے ساتھ دیکھتے رہے۔ تاہم ہٹلر نے جب پولینڈپر قبضے کا ارادہ باندھا تو ہی Policy of Apeasement پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے برطانیہ نے جرمنی کو جنگ کی دھمکی دی۔ چرچل برطانیہ کے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے توچیمبرلین کی روس کے مقابلے میںجرمنی کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کے برعکس شدت کے ساتھ ہٹلر مخالف پالیسی اپنائی گئی۔اگرچہ اتحادیوں نے جنگ کا ہدف ’جمہوریت کا فروغ‘ قرار دیاتھا ، تاہم اس امر کے شواہد موجود ہیں کہ جرمنی کے خلاف Victory at all Cost کا نعرہ ہی چرچل کی جنگی پالیسی کا مرکز ی نقطہ تھا۔امن کے حصول سے بڑھ کر ہٹلر سے نفرت ہی اس پالیسی کا بنیادی محرک تھا۔چرچل نظریاتی طور پر لبرل نہیں تھے۔تاہم برطانیہ کے جمہوری معاشرے کی نمائندگی کرنے کی بناء پرہم انہیں ’جمہوریت پسند ‘ توکہہ سکتے ہیں۔(ہمارے ہاں کے مغرب زدہ لبرلز بھی خود کو یہی کہلوانا پسند کرتے ہیں)۔ تاہم’جمہوریت پسند‘ چرچل کی جرمنی سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ ہائوس آف کامنز میں کھڑے ہو کر انہوں نے اعلان کیا کہ اگر ہٹلر نے جہنم پر حملہ کیا تو وہ اس ایوان میں کم ازکم ایک بار شیطان کی حمایت میں ضروربیان جاری کریں گے۔عام تاثر کے برعکس یہ ہٹلر نہیں تھاکہ جس نے لندن سمیت برطانوی شہروں پر بمباری میں پہل کی۔ چرچل اس سے کہیں پہلے Strategic Bombing کے نام پر جرمن شہروںپر بمبار طیاروں کے ذریعے ہزاروں من بارود برسا چکے تھے۔کہا جاتا ہے کہ اگر چرچل اور ان کا اتحادی امریکہ، سٹالن کی ناز برادری اور ہٹلر کی مکمل تباہی پر مصر رہنے کی بجائے اگر جرمن عوام کے انسانی حقوق اورآمریت مخالف جذبات پر توجہ دیتے تو جرمنی ایک جمہوری ملک کی شکل میں کمیونزم کے خلاف ایک مضبوط دفاعی حصارکے طور پرقائم رہتا۔ روس برلن تک نہ پہنچتا۔آئرن کرٹن کے پیچھے پولینڈ کہ جس کی سالمیت کے تحفظ کی خاطر برطانیہ عالمی جنگ میں کودا تھا، مشرقی یورپ سمیت کمیونسٹ قبضے میں جانے سے محفوظ رہتا۔جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کے بعد فاشسٹ تحریک دم توڑ گئی۔تاہم فاشسٹ ہتھکنڈوں کو وقتی اور گروہی مفادات کی خاطر نظر انداز کرنے والے ’ جمہوریت پسندوں‘کے سامنے سرد جنگ کے پچاس اعصاب شکن عشرے پھن پھیلاکر کھڑے ہو گئے۔فاشسٹ تحریک ماضی کا قصہ ہے۔ فاشسٹ ہتھکنڈے آج بھی کارفرما ہیں۔’جمہوریت پسندوں‘ سمیت تاریخ سے مگر کوئی سبق نہیں سیکھتا۔