بھوک اور عدم تحفظ شہریوں کو اپنے ملک سے نکلنے پر مجبور کر رہا ۔اگر یورپی یونین پاکستانیوں کے لیے امیگریشن کھول دے ،تو شہر ویران ،گلیاں سنسان ہو جائیں۔22کروڑ آبادی والے ملک میں صرف ایک کابینہ ہی نظر آئے گی ،جو اب نہیں آتی ۔یقین جانیںبھوک و افلاس نے عوام سے زندہ رہنے کی تمنا چھین لی ہے۔کبھی کبھی تنہائی اور خاموشی میں اپنے ضمیر، احساس، خیالوں، فکروں اورسوچنے کے زاویوں سے ملیں۔شاید اس کہیں سے آپ کو اس کا جواب مل سکے۔سکھوں اورہندئووں نے قیام پاکستان کے وقت ایسی تباہی نہ مچائی ہو گی ،جو ،اب ہے ۔ شہروں میں مقیم لوگوں میں پھر بھی زندہ رہنے کی تمنا باقی ہے۔دیہی علاقوں کا اللہ ہی حافظ۔اگر آپ نے غربت اور پسماندگی دیکھنی ہو تو ذرا بڑے شہروں سے باہر نکل کر دیکھیں۔ 13 مارچ 2023ء کوجنوبی پنجاب کی سیاحت کا موقع ملا۔ برادرِ عزیز ڈاکٹر جام سجاد حسین نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ’’فروغ فکراقبال اور پاکستانی صحافت ‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کا اہتمام کر رکھا تھا ۔ کم وقت میں جس طرح اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے ترقی کی ہے ، اس کے روح رواں پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب وائس چانسلرنے15ہزار طلبا سے 70ہزار کے قریب پہنچا دیئے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کا تخیل بلند ہے، ان کی وسعتِ فکر نے ایک بیابان کو مستقبل کے خوابوں کی تعبیر میں بدل دیا ہے ۔اسی بنا پروہ اپنے بدخواہوں کے دلوں میںکھٹکتے ہیں۔بقول اقبالؔ : مَیں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح انھوں نے مسلسل زوال پستیوں کی جانب لڑھکتی، معاشی طور پر بدحال،محبوبہ کے شکن آلود چہرے میں عارض و رُخسار کی لہک مہک اس قدر بڑھا دی ہے کہ کئی دل پھینک عناصر آج اس محنت کا پھل اُچکنے کی کوشش میں ہیں ۔اگر کسی سفارشی کو چند دنوں کے لیے بھی اس ادارے کی مہار پکڑا دی گئی ،تو وہ اسے بے ثمر پراجیکٹ بنا دے گا۔پھر2023ء والی پھلتی ،پھولتی، لالہ وگل کھلاتی اور ترقی کی منازل طے کرتی، اسلامیہ یونی ورسٹی بہاولپور نہیں ملے گی ۔ لہذا ماہ اکتوبر کا انتظار کیے بغیردوبارہ ان کے کندھوں پر یہ بوجھ ڈال دیں تاکہ وہ جامعہ الازہر کا ریکارڈ توڑ ڈالیں ۔ چیئر مین شعبہ اقبالیات و فلسفہ ڈاکٹر محمد رفیق الاسلام سے سیمینار سے قبل گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ڈاکٹر رفیق الاسلام کی شکل و صورت میں جو معصومیت،بے ساختگی اور ہر قسم کے تصنعات سے ماورا ایک فطری کشش ہے،بالکل یہی اوصاف ان کی گفتگو میں بھی پائے جاتے ہیں،ان کی باتیں تارِ دل کو چھیڑتی ہے،ان کے لفظوں کی ترتیب اورتعبیرات کی بندش میں ایساسحر ہے،جو قاری اور سامع کے حواس کواپنے قابومیں کرلیتا ہے۔خطبہ استقبالیہ میں انھوں نے نہ صرف سامعین کواپنی جانب متوجہ رکھا بلکہ شعبہ اقبالیات کو مزید وسعت دینے کے اور مستقبل میں ایسی مجالس منعقد کرنے کا وعدہ کر کے روح ِاقبال کو بھی سکون پہنچایا۔ سیمینار میں نصیر احمد ناصر اور انور گیریوال نے بھی بڑی عمدہ گفتگو کی تھی مگر ڈاکٹر جام سجاد حسین نے ایک لطیفہ سنا کر میلہ لوٹ لیا تھا ۔ان کی گفتگو میںشعری تصورات، مصرعوں کی ساخت،لفظوں کی نشست و برخاست،تخیلات کاتانابانا،پیش کش کا طَوراور اظہار کا انداز ایسا تھا کہ سامعین کو انھوں نے اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا ۔ اقبال کا اصل مقصود ایک مسلم معاشرے کی تشکیل تھاجبکہ بہترین صحافی بننے کے لیے بھی اقبالیات میں مہارت ضروری ہے۔ ہر محفل کاایک روح رواں ہوتاہے۔اس سیمینار کی روح برادرم سید عارف نوناری تھے ۔سیدزادہ جس طرح شکل وصورت میں یکتا ہے ،ایسے ہی محفل میں بھی ۔دو درجن کے قریب کتابوں کا مصنف جب کسی محفل میں بیٹھا ہو تووہاں صرف اسی کا طوطی بولتا ہے ۔ان کی کتاب ’’ کالم والم‘‘ کی تقریب رونمائی بھی تھی ۔ سید عارف نوناری نے تاریخ، جنرل نالج، تصوف، اسلام ،طنز و مزاح،سیاسی و معاشرتی موضوعات انسانیت کی فلاح و بہبود اور جرنلزم پر تحقیقی انداز میں لکھا ہے۔ان کی موجودہ کتاب بھی کالموں پر مشتمل ہے ۔کالموں کا انتخاب کیسا ہے ؟ وہ کبھی کتاب ملے گی تو ہی اندازہ لگا سکتے ہیں ،کیونکہ تقریب میں جو کتابیں پہنچی تھیں ،ان کی داستان بھی بڑی انوکھی ہے۔ برادرم جام سجاد بڑے مزے سے سناتے ہیں ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیںکہ سید عارف نوناری ایک محنتی اور ہونہار نوجوان ہیں، وہ اپنے کام میں اپنی توجہ اور دلچسپی سے تہہ تک پہنچتے ہیں، کسی معاملے کے اصل حقائق سامنے لے کر آتے ہیں، وہ ایک چھوٹے سے قصبے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کی سوچ ،سیاسی و سماجی شعور پورے ملک پر محیط ہے۔انور گریوال نے تقریب میں جو کالم پڑھ کر سنائے تھے ۔ان کے مطابق تو وہ ملک میں امید ایک کرن ہیں ۔ پاکستان کی سیاسی سماجی اور معاشرتی زندگی کے گوناگوں پہلوئوں کوتلاش کر تے رہتے ہیں۔ وہ پاکستان کی محبت میں سرشار اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جن کا جینا مرنا پاکستان ہے۔ انہوں نے شگفتہ کالم بھی لکھے ،سنجیدہ اور رنجیدہ بھی۔ مگر دل آزاری ان کا شیوہ نہیں۔ ادب انسانی مزاج میں نرمی پیدا کرتا ہے، جس سے ذہن پر خوشگوار اور صحت مند اثرات مرتب ہوتے ہیں۔مطالعے سے انسان کے اندر مثبت اور مضبوط سوچ پیدا ہوتی ہے۔ آج کے دور میں ماہر نفسیات بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسائل کے تناظر میں بچوں کے لیے کتابوں کا مطالعہ لازمی قرار دے رہے ہیں تاکہ بچے فضول مشاغل سے محفوظ رہ سکیں۔ کتاب ہماری تنہائی کی ساتھی ہیں،یہی وجہ ہے ،جب رنج و الم کے گہرے بادل ہماری زندگی کو تاریک کردیتے ہیں تو یہ روشنی کی کرن بن کر ہماری ڈھارس بندھاتی ہے۔ موجودہ کتاب میں بھی ایسے موضوعات شامل ہیں، جو زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں،سید عارف نوناری کی کتاب پر لکھنا ایک ادھار تھا۔سو آج وہ بھی چکا دیا کیونکہ اندھیرا کبھی اندھیرے کو ختم کر سکتا، نہ نفرت نفرت کو۔دونوں کا مداواروشنی اور محبت سے ہو سکتا ہے۔اس ملک کے عوام 75برسوں سے صبر کر ہے ہیں ،آئندہ بھی اسی پر گزارا کریں گے۔جب تک اشرافیہ کا پیٹ نہیں بھرتا۔تب تک انتظار ،انتظارفقط انتظار۔