راستے مشرق یہ سارے بند کس نے کر دیئے کیا خبر کس سمت سے کب اور کیا آنے کو ہے ہم نے خود کو بیج رکھا ہے خلا کے درمیان اور خلا سے اس زمین پر ایک بلا آنے کو ہے آپ یقین کیجیے ہم ان بھول بھلیوں میں کہ جہاں سے باہر کا راستہ ڈھونڈنا از حد دشوار ہے۔ جانتے ہیں سب کے سب پر مانتا کوئی نہیں۔ کون جانے کس گھڑی کیا فیصلہ آنے کو ہے۔ یہ بقا کا مسئلہ ہے جسے کسی کی انا کا سامنا ہے پھر کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے۔ہمیں تو پرویزالٰہی کے بیان نے پریشان کر دیا کہ ضمنی الیکشن نے پی ڈی ایم کی چولیں ہلا دی ہیں۔ نہیں صاحب ان کی چولیں تو ہیں ہی نہیں۔ یہ اپنی معیشت کی چولیں ہلی ہیں۔ کوئی پوچھنے والے نہیں کہ آخر ہو کیا رہا ہے بلکہ یوں نہیں کہ کچھ بھی نہیں ہورہا۔ امن و آشتی کی صورت حال میں ابھی بیان کرتا ہوں اور قانون پر تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میرے معزز قارئین میںدو چشم دیدہ واقعات ضرور بیان کروں گا کہ وہ بات بھی سامنے آئے جس کا سامنا عوام کو ہے اور حکومت آویزش میں مصروف ہے یا منصوبہ بندی میں۔ میں نے 92 نیوز کے دفتر جانا تھا جو بھوبھتیاں میں ہے۔ میں اعوان ٹائون سے ملتان روڈ پر آیا تو ٹریفک رینگتی چل رہی تھی۔ سوشل سکیورٹی ہسپتال سے ٹھوکر تک ہم ایک عذاب سے گزرے۔ چیونٹی کی چال سے ٹریفک آگے بڑھی اور بار بار رکتی رہی ۔پتہ چلا کہ آگے ایک دو ٹرالیاں جن میں کچھ کسان نعرے لگا رہے تھے تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے برباد ہوئے۔ دھواں اور گردوغبار میں اٹی فضا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ٹریفک پولیس جسے کہ وزیر اعلیٰ پرویزالٰہی نے اپنے سابق دور میں میرٹ کی بنیاد پر سلیکٹ کیا تھا ، کیا یہ اس قابل بھی نہیں رہی کہ ایک دو ٹرک کے لوگوں کو سڑک سے ہٹا سکے۔ ایک اذیت سے ہزاروں لوگوں کو کوئی نکال سکے۔ دوسرا واقعہ یہ کہ ایک دوائی کی ضرورت تھی کہ اس کا استعمال کرنے والے اسے بغیر ناغہ کے لیتے ہیں۔ یہ دوائی ہر چند ماہ کے بعد بند کردی جاتی ہے اور پھر اس کی قیمت بڑھا کر بازار میں لے آتے ہیں۔ اس دوائی کو کھانے والے کس مشکل سے گزرتے ہیں۔ ان کمپنیوں پر بھی کوئی چیک نہیں۔ پنجاب حکومت کس ایشوز میں مصروف ہے معلوم نہیں۔ سب ایک بے مقصد سرگرمی میں مصروف ہیں۔ ایک تو ضمنی الیکشن پر کروڑوں کا خرچ جو کلی طور پر اربوں میں چلا جاتا ہے ان لوگوں نے کسی اسمبلی میں بھی نہیں جانا۔ اس کے بعد سب اپنی اپنی جگہ جشن منانے میں مصروف ہیں۔ رقص اور دھمالیں مٹھائیاں اور کھانے۔ ابھی ان پر ایک اور وقت آنے کو ہے کہ جب خان صاحب بھی چھ سیٹیں خالی کریں گے پھر ایک مرتبہ پھر قومی دولت کا بے دریغ بے نتیجہ الیکشن پر خرچ ہوگی۔ ہماری انا کا مسئلہ ہے جو قومی وقار اور معیشت سے بھی بلند ہے: ہو کوئی برباد اس سے تجھ کو کیا ہے تیرے رخ پر سادگی باقی رہے گی کمال تو یہ ہے کہ کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔ لوگ سیلاب سے تباہ ہو کر کھلے آسمان تلے امداد کرنے والوں کی راہ تک رہے ہیں اور ہمیں موج میلوں سے فرصت نہیں۔ ایک انتشار ایک بے کلی‘ ایک ابتری اور ایک بے چینی۔ سرکاری ملارمین تو جیتے جی مر گئے۔ روٹی پندرہ کی نان 25 روپے کا۔ ان دنوں مریم نواز پندرہ روپے کے نان کو تیس روپے کا کہہ رہی تھی تو لوگ اس کی غلطی پر ہنستے تھے مگر وہ تو آنے والے وقت کا ریٹ بڑھا رہی تھی۔ اب پتہ نہیں یہ لوگ کہاں گم ہیں۔ اب تو آئین کے ضمن میں الیکشن کمیشن کو بھی موردالزام ٹھہرا رہے ہیں کہ حاصل وصول کیا ہوا۔ ایسے لگتاہے کہ آئندہ عمران خان بیس یا پچیس نشستوں پر الیکشن لڑیں گے جواباً نوازشریف بھی بیس بائیس پر کھڑے ہو جائیں گے۔ بلاول بھی دس بارہ پر تو آئیں گے سب سے بڑھ کر کوئی بزنس ٹائیکون تو پچاس سیٹوں پر سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ ٹھیک کہا تھا امریکی سینیٹر نے ک پاکستان اسمبلی چند ارب میں خریدی جا سکتی ہے۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ ہمارے سیاستدان کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کہ اس وقت پاکستان کو پریشر میں لایا جارہا ہے۔ اس کا تذکرہ میں نے آغاز میں کیا تھا۔ کور کمانڈر کی میٹنگ غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ انہوں نے پاکستان کو ایک ذمہ دار ایٹمی قوت قرار دیا ہے اور اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ پاک فوج نے ہی پوری دنیا کوباور کروانا ہے کہ ہو اپنے پروفیشن کے ساتھ مخلص اوریکسو ہیں اس لیے انہیں سیاست میں گھسیٹنا کوئی حب الوطنی نہیں بلکہ نادانی ہے اور اسے سازش بھی کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے جوان سرحدوں کی حفاظت کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ دوسری بات یہ کہ فوج دہشت گردی کیخلاف جنگ میں بے شمار قربانیاں دے چکی ہے۔ ملک کا اشاریہ دشمن کو مداخلت کی دعوت دیتا ہے۔ سب کچھ آئین کے مطابق چلنا چاہیے۔ اب یہ بیانیہ بدلنا چاہیے کہ کمزور حکومت ملی تو نہیں لوں گا۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ حکومت صرف ملتی ہے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ کافی حد تک آزدانہ انتخابات ہوں گے۔ مسئلہ تو یہی ہے کہ آئین کو دیکھنا ہوگا۔ اگر پی ٹی آئی اسمبلی میں ہوئی تو بہت جلد وہ مقام آ جاتا کہ پی ڈی ایم کی ناقص کارکردگی پر انہیں نکالا جا سکتا تھا۔ اپوزیشن کے بغیر حکومت کا تصور ہماری سمجھ میں بھی نہیں آتا۔ حکومت اور اپوزیشن کے میل ملاپ یا تعاون سے مثبت راہیں نکلتی ہیں۔ کچھ انتظار تو کرنا پڑے گا۔ حالات پہلے بھی ٹھیک نہیں۔ متحدہ بھی اپنا حصہ مانگنے لگی ہے۔ ایک شعر: نہ میں یوں در بدر پھرتا نہ تم کو سزا دیتے یہ اچھا تھا کہ ہم دونوں زمانے کو بھلا دیتے