چند روز قبل سر زمین فلسطین سے اسرائیلی ڈیزی کٹر تباہ کن بمباری میںفلسطینی عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے کمانڈر ابو عبیدہ نے امت مسلمہ کے نام ایک بڑا ہی حوصلہ افزا کھلا خط ارسال کیا ہے۔ ان کے خط کا ایک ایک لفظ ہمیں ایک مسلمان کی حیثیت میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے کا احساس دلاتا ہے۔ ان کے خط کا متن ہے کہ'' اسرائیل کے ہاتھوں غزہ کی تباہی اور ہزاروں افراد کی شہادت کے باوجود ہم پر امید ہی نہیں بلکہ فتح کے عین قریب ہیں۔ شہدا کی روحیں ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ ہمارے خون کی سودی بازی نہ کرنا بلکہ یہود کیخلاف خون کے آخری قطرے تک صف آرا رہنا'' ان کی گفتگو میں کسی جگہ بھی مایوسی کا شائبہ تک نظر نہیں آرہا۔ وہ مسلم حکمرانو اور عوام سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ بس ان کی پشتی بانی کریں ان کے حق میں ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کریں، خواب غفلت میں سونے والوں کو بیدار کریں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی اسرائیلی جارحیت سے گھبرانے والے نہیں بلکہ اس کا مقابلہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے پورے پورے گھرانے شہید کردئیے گئے ہیں۔ کئی خاندان ایسے ہیں جنہیں صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا گیا ہے لیکن ہم اس کے باوجود گھبرانے والے نہیں ۔شاید یہ بات آپ کے علم میں نہ ہو کہ جنگ بندی کے باوجود اسرائیل جنگ جاری رکھے ہوئے ہے لیکن ہم مجاہدین فلسطین خدا کو گواہ بنا کر اقرار کرتے ہیں کہ ہم انبیاء کی سرزمین کے چپہ چپہ کی حفاظت کیلئے اپنے خون کے آ خری قطرے تک میدان جہاد میں یہود کیخلاف نبرد آزما رہیں گے اور آپ سے امید کرتے ہیں کہ آپ ہمارے پیغام کو آگے پہنچائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اورآپ کی دعائوں سے فلسطین کی آزادی کا سورج جلد طلوع ہوگا ، کمانڈر ابو عیبدہ نے ایک کھلا خط لکھ کر اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ اب یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم بھی قبل اول کی حفاظت کیلئے آگے آئیں۔ آج مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے دو ریاستی منصوبہ پیش کیا جارہا ہے لیکن اس دوریاستی منصوبہ میں مسئلہ کے بنیادی فریق فلسطین اور اسرائیل کی رضامند ی کو شام شامل نہیں کیا جارہا ۔اسرائیل مشرق وسطیٰ میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے پورے فلسطین پراپنے قبضہ کے خواب دیکھ رہا ہے جبکہ فلسطینی پوری سر زمین فلسطین کے دعویدار ہیں اور اپنی دھرتی کے ایک ایک چپہ پر بھی اسرائیل کے ناجائز قبضہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ا،س کیلئے وہ بڑی سے بڑی قربانی دے رہے ہیں اور دینے کے لئے تیار ہیں۔ اسرائیل نے حالیہ بمباری میں حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کے تقریبا پورے کے پورے خاندان کو شہید کردیا لیکن ان کے پایہ ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی اور نہ وہ جھکے، دو ریاستی حل کو تسلیم کرنا دراصل فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضہ پر مہر ثبت کرنا ہے۔ اسرائیل کے انتہا پسندانہ عزائم کی وجہ سے فریقین میں فاصلے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے کے قریب لانا مشکل ہی نہیں نا ممکن نظر آرہا ہے کیا فریقین دوریاستی فارمولے اور ایک دارالحکومت پر مان جائیں گے یہ کسی صورت ممکن نہیں ہوگا،75سال کے دوران اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے فریقین میںفاصلہ بڑھے ہیں کم نہیں ہوئے۔ نئی فلسطینی نسل کے ذہن میں اسرائیل کیخلاف نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے جس کی ''برین واشنگ '' ممکن نہیں القسام بریگیڈ میں اکثریت نوجوانوں کی ہے جس نے اپنی آنکھوں سے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں اپنی مائوں اور بہنوں کی بے حرمتی دیکھی اور اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بننے والے اپنے بھائیوں ، دوستوں اور عزیز رشتہ داروں کے جنازوں کا کندھا دیا۔ 7 اکتوبر سے قبل اسرائیل کو اقوام متحدہ کے ارکان ممالک میں سے75فیصد سے زائد اسے تسلیم کر چکے تھے جبکہ باقی 25فیصدبھی تسلیم کرنے کی تیاری میں مصروف تھے'' طوفان الاقصیٰ'' آپریشن کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی مجاہدین فلسطین نے اسرائیل کے عزائم کو خاک میں ملا دیا، اسرائیل بارے حماس کا موقف بڑا واضح اور دو ٹوک ہے کہ سر زمین فلسطین پر صرف اور صرف فلسطینی عوام کا حق ہے اسرائیل کا قبضہ نا جائز ہے اور وہ اس ناجائز قبضہ کو وہ کسی صورت تسلیم نہیں کرتے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ پورے عالم عرب کیلئے مشکلات بڑ ھ جائیں گی لیکن مقتدر طاقتوں کی یہ خواہش ہے کہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن اسرائیل کے پاس ہو،مسلم دنیا کی اشرافیہ جانتے بوجھتے ہوئے اس گھنائونے کھیل کا حصہ بن رہی ہے ایسی صورتحال میں حماس کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا انہوں نے ''طوفان الاقصیٰ'' کے ذریعہ اپنی مدد آپ کے تحت مسئلہ کو دنیا بھر میں اجاگر کیا اب مسلم ممالک سمیت دنیا بھر میں عوام فلسطینی عوام کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے ہیںجس کی وجہ اشرافیہ اور حکمرانو کو اسرائیل کی حمایت سے دستبردار ہونا پڑا ''طوفان الاقصیٰ'' نے فلسطینی قوم میںآزادی کی نئی صور پھونک دی۔ اب وہ کسی بھی صورت اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں اور حماس اسرائیل کیخلاف مزاحمت کا استعارہ بن چکی ہے اور وہ کسی صورت اسرائیل کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے کیلئے تیار نہیں ۔ ہر کشمیر ی کی طرح ہر فلسطینی بھی آزادی کا سورج دیکھنے کے لئے بے چین ہے دونوں کو یہود و ہنود کے خلاف صف آراء ہوئے75سال بیت گئے ہیں مگر دونوں اپنوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہیں ۔مسئلہ کشمیر ہو فلسطین، دونوں کا موجد برطانیہ ہے برطانیہ نے گورداسپور کی تحصیل بھارت کے حوالے کرکے اسے جموں و کشمیر تک پہنچنے کا راستہ دیا جس کے بعد بھارت نے ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کیا اس طرح برطانیہ نے ہی یہودی آباد کاروں کو فلسطین میں آباد کاری کی اجازت دے کر اسرائیل کے قیام کی راہ استوار کی ، پاکستان ہر فلسطینی کیلئے مشکل گھڑی امید کی کرن ہے۔ پاکستانی عوام اس مشکل گھڑی میں فلسطینی عوام کے شانہ بشانہ کھڑی ہے کاش مسلم حکمران بھی اپنی عوام کی آواز پر لبیک کہیں اور فلسطین بارے دو ٹوک اور واضح پالیسی اپنائیں اگر امریکہ اسرائیل کی حمایت میں دو ٹو ک پالیسی اختیار کر سکتا ہے کیا مسلم حکمران فلسطین کی حمایت کا اعلان نہیں کر سکتے ؟