چند روز پہلے بڑی وضاحت کے ساتھ عرض کر چکا ہوں کہ صوبے مقدس نہیں‘ تقدس اگر حاصل ہے تو صرف ملک کو۔ یہ بھی وضاحت کر چکا ہوں کہ یہ ملک صوبائی اکائیوں کے اشتراک سے نہیںبنا تھا۔اگر ایسا ہوتا تو پنجاب اور بنگال کے صوبے تقسیم نہ ہوتے۔ سندھ تو خیر پہلے ہی تقسیم ہو چکا تھا جب اسے بمبئی سے الگ کر دیا گیا تھا اور بھی بہت سے دلائل ہیں جن پر گفتگو ہو سکتی ہے۔ اس وقت عرض مجھے یہ کرنا ہے کہ پاکستان کے دولخت ہونے سے پہلے یہ بحث چلی تھی کہ پاکستان کے صوبوں کو 40کی قرار داد کے مطابق خود مختاری دی جائے۔ یہ بحث کرنے والوں نے یہ تک کہا کہ پاکستان فیڈریشن نہیں کنفیڈریشن ہونا چاہیے۔ تاہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد یہ بحث دم توڑ گئی۔ پھر تو یہ بالکل بے معنی ہو گئی۔ یوں لگا جیسے اب اگر یہ بات کہی جائے تو اس کا مطلب مغربی پاکستان کے بھی حصے بخرے کرنا ہے۔ اب مگر یوں لگتا ہے کہ بعض قوتیں‘ خدانخواستہ اس طرف جا رہی ہیں۔ جس طرح ان دنوں 40کی قرار داد کا ذکر ہوتا تھا‘ اس طرح آج اٹھارویں ترمیم کے ہتھیار کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ ملک میں اس وقت کوئی مقبول قومی جماعت باقی نہیں رہی۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے اپنے صوبے کی ڈفلی بجا رہا ہے۔ بعض مسائل اور سوال ایسے کھڑے کر دیے جاتے ہیں جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہم اٹھارویں ترمیم کو کنفیڈریشن کے مترادف کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت تھی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی۔ کوئی ضرب تقسیم ہو کر ایک معقول بیانیہ بن جاتا تھا۔ اب پیپلز پارٹی کے پاس بدقسمتی صرف سندھ کے کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ اس پارٹی کو اس وقت قیادت کی تبدیلی کا مرحلہ بھی درپیش ہے۔ بلاول کی شکل میں قیادت نئی نسل کو منتقل ہو رہی ہے۔ پارٹی کے پرانے لوگوں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلاول کو جس خوبصورتی اور خوش سلیقگی سے لانچ کیا گیا ہے‘ وہ قابل دید ہے اور سنجیدہ مطالعہ کا تقاضا کرتا ہے۔ پنجاب میں خاص طور پر بلاول سے ان کی پارٹی کے بعض سربرآوردہ دانشور سیاستدانوں نے یہ امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں کہ وہ سامنے آئے تو پارٹی پنجاب میں دوبارہ جڑیں پکڑ سکتی ہے۔ بھٹو سے پارٹی جب بے نظیر تک پہنچی تو اس کے بیانیے میں بامعنی اور معنی خیز تبدیلی آئی تھی۔ اب بھی خاص کر پارٹی کے نظریاتی لوگ لگے ہوئے ہیں کہ بلاول تک آتے آتے پارٹی میں ایک خاص سیاسی جہت پیدا کر دی جائے۔ ہو مگر یہ رہا ہے کہ بلاول کا سارا بیانیہ سندھ دھرتی کے گرد گھوم رہا ہے۔ اگر یہ عارضی سیاست کا تقاضا نہیں تو ہم بہت دور انتشار کی طرف جا رہے ہیں۔ ایسے میں جب اٹھارویں ترمیم کی بات کی جاتی ہے تو ’’مضبوط مرکز‘‘ والے جاگ اٹھتے ہیں بحث صوبے اور وفاق سے ہٹ کر بہت دور تک جاتی ہے۔ جب ممتاز بھٹو نے 40کی قرار داد یا کنفیڈریشن کا نعرہ لگایا تھا تو لوگوں نے اتنا سیریس نہ لیا تھا۔ شاید یہ خیال تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو زندہ ہیں۔ وہ سنبھال لیں گے۔ اب کوئی بھٹو نہیں ہے۔ زرداری‘ رضا ربانی‘ فرحت اللہ بابر وغیرہ وغیرہ ہیں۔ بہت فرق ہے۔ اس وقت اس تجزیے کی ضرورت نہیں کہ کس طرح یہ لوگ صوبوں کو مقدس بنا رہے ہیں یہ نہ اوپر والوں کو مانتے ہیں نہ نیچے اختیار دینے کو تیار ہیںجو بہت خطرناک اور غیر سیاسی صورت حال ہے۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ریاست کا مطلب ملک ہے۔ صوبہ نہیں‘یہاں بعض بیانوں اور مطالبوں کی شکل ایسی ہے کہ یوں لگتا ہے دھرتی ماں کا مطلب ان کا صوبہ ہے۔ سچ پوچھئے کہ جو بات ہماری قوت ہونا چاہیے تھی‘ہم نے سے کمزور بنا لیا۔ کراچی ہماری واحد بندرگاہ تھی۔وہاں پورے ملک سے لوگ ہی روزگار کے لئے نہیں آتے تھے بلکہ پورے برصغیر سے آتے تھے۔ ہم نے ملک کے باہر سے آنے والوں کو کراچی کا مقامی باشندہ قرار دے دیا اور ملک سے آنے والوں کو غیر کراچی کا۔ تاہم یہ کراچی کے معاشی تقاضے ہی تھے جس نے اسے پاکستان کا سب سے بڑا پختون شہر بنا دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فطری طور پر پختونستان کا نعرہ دم توڑ گیا۔ اب پختون آبادی کا بڑا حصہ ملک کے اندر دیکھا تھا۔ جہاں ان کے لئے روزگار کے مواقع تھے اور وہ کسی نام نہاد ڈیورنڈر لائن کے اس طرف نہیں دیکھتا تھا۔ تاہم کراچی میں ایک خاص طرح کی عصبیت بھی پیدا ہونے لگی۔ہمارے کار پردازوں نے خرابی یہ کی اسے سندھ میں نام نہاد سیاسی توازن پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا۔ جلد ہی اس کے منفی نتائج سامنے آنے لگے۔ اس کا ردعمل بھی نمایاں ہونے لگا۔ وہ شہر جو منی پاکستان کہلاتا تھا اور اگر اسے منی جنوب ایشیا کہا جائے تو غلط نہ ہو گا‘ وہ انتشار کا نمونہ بن گیا۔ جب یہ اٹھارہویں ترمیم آ رہی تھی تو اسی وقت اس پر ردعمل ظاہر کیا گیا تھا۔ سچ پوچھیے تو یہ پارلیمنٹ کا پاس کردہ قانون نہیں ہے‘ بلکہ چند سیاسی جماعتوں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے۔ اس میں بعض تو ایسی ہیں جن کی اسمبلی میں ایک دو فیصد نمائندگی ہو گی مگر ہم نے انہیں برابر کی حیثیت دی۔ مسلم لیگ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہر صوبے کی انتہا پسند جماعتوں سے رابطے میں رہتی ہے۔اچھی بات ہے۔ حاصل بزنجو‘محمود خاں اچکزئی‘ سندھ کے قوم پرست جن میں ایک زمانے میں ممتاز بھٹو بھی شامل تھے‘ ان کے ساتھ پلتے ہیں‘ مگر پھر یہ ان سے نبھا نہیں پاتی۔ جانے کتنے مفادات تھے چھوٹے سیاسی گروہوں کے جنہیں بڑی پارٹیوں نے پذیرائی بخشی یا یوں کہہ لیجیے اکاموڈیٹ کیا۔ پھر یہ بھی کہا کہ پارلیمنٹ کو گویا بلڈوز کر کے ترمیم پوری کی پوری آنکھیں بند کر کے پاس کرائی گئی۔ پہلے تو چھوٹے چھوٹے انتظامی معاملے سامنے آئے‘ اب مگر لگتا ہے پورا بیانیہ بدل رہا ہے۔میں ان کے ساتھ نہیں جو اٹھارہویں ترمیم کو رول بیک کرنا چاہتے ہیں مگر ان کا بھی ساتھ نہیں دے سکتا جو اسے 40کی قرار داد کی طرح ملک توڑنے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں یہ ملک توڑنے کا لفظ ہو سکتا ہے بہتوں کو برا لگے‘مگر یہ میں ان اثرات کی طرف اشارہ کر رہا ہوں جو اس ترمیم کی آڑ میں پیدا ہونے والے نئے بیانیے سے نکل رہے ہیں۔پھر کہوں گا اٹھارہویں ترمیم کو 40کی قرار داد بنا کر پیش نہ کریں‘ صوبے اور وفاق اس طرح کی صورت حال پیدا نہ کریں کہ یہ ملک گویا کنفیڈریشن ہے۔ ان معاملات پر مسلم لیگ نے بھی مار کھائی ہے۔پیپلز پارٹی بھی کھا رہی ہے اور تحریک انصاف کا تو کوئی سیاسی بیانیہ ہے ہی نہیں سوائے اس نعرے کے کہ ہم ملک میں کرپشن نہیں چلنے دیں گے۔ ضرور نہ چلنے دیں مگر ملک تو چلنے دو۔