پاکستان کی تاریخ کے عجیب و غریب تیور ہیں۔ حکمرانوں اور بااختیار لوگوں کے کہیں توصیفی نغمے گائے گئے۔کہیں ان کے چراغ ہوائوں کی زد میں آ گئے۔ہر ایک کی اپنی اپنی کہانی ہے۔ہنگامہ خیز اور ہلچل سے بھر پور۔ لیکن ایک بات قدرے مشترک ہے سب کو اقتدار سے پیار ہی نہیں عشق ہوتا ہے ہر ایک کی کارکردگی کا اپنا رنگ ہے۔اپنے اپنے کارناموں کے گن سب گاتے رہے لیکن کسی نے غلطیوں کا ادراک کیا نہ اعتراف کیا۔وقت گزرتا رہا اور سچ بھی یہی ہے کہ حالات جو بھی ہوں وقت گزر ہی جاتا ہے لوگ آتے رہے فریم وہی تھا چہرے بدلتے رہے ، واقعات میں نئی کڑیوں کا اضافہ ہوتا رہا۔کہیں کسی حکمران کے کردار کو لے کر اس کے کیریئر پر پردہ ڈالا جاتا رہا۔کہیں سیاستدان ماہر شکاریوں کی طرح اقتدار تک پہنچنے کے لئے کمندیں ڈالتے دکھائی دیے۔ حکمران اور بااختیار یہ بھول بیٹھے کہ غلطی بانجھ نہیں ہوتی بلکہ یہ مزید غلطیاں جنتی رہتی ہے۔ اسی لئے تاریخ گواہ ہے کہ اپنے اقتدار کو مضبوط اور محفوظ کرنے کے لئے حکمرانوں نے وہ غلطیاں کیں جس نے انہیں ایک مشکل دوراہے پر لاکھڑا کیا۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ضد‘ تکبر اور ہٹ دھرمی اور لالچ حکمرانوں کے لئے نا صرف زہر قاتل ثابت ہوئیں بلکہ حقائق سے انحراف ہر حکمران کے لئے مہنگا سودا ثابت ہوا ۔یہ کیسے لوگ ہیں۔میں تو ہمیشہ اس سوال کا جواب تلاش کرتا رہتا ہوں۔لیکن سمجھ نہیں آتا ۔اسی طرح جیسے عمران خان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ تحریک کیسے چلائیں اور یہ بات حکومت کے لئے ناقابل فہم ہے کہ وہ معیشت کیسے چلائے۔ ایسے ہی جیسے میں جب اپنے صحافی بھائیوں کو دیکھتا ہوں تو ان میں سے سینئر ساتھی صحافی کم اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے کارکن زیادہ نظر آتے ہیں۔آپ تاریخ میں کسی ایک شخص کے کردار کے کسی ایک حصے کو لے کر اس کے پورے کیریئر پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں۔ آپ ایوب خاں کے دور میں منگلا اور تربیلا ڈیم کی تعمیر سے لے کر پاکستان کی زرعی اور صنعتی شعبے میں ہونے والی زبردست ترقی کی چکا چوند سے متاثر ہو کر ان کے جمہوری اداروں کو تباہ کرنے اور سیاسی مخالفین کو کچلنے کے ناجائز فیصلے کی توثیق کرنا شروع کر دیں۔آپ یحییٰ خان کے ون یونٹ کے خاتمے اور ون مین ون ووٹ جیسے قابل تعریف فیصلوں 70ء کے انتخابات کو منصفانہ انداز سے انعقاد کے سبب ان کی نااہلی اور خود غرضی کے سبب ملک کو دولخت کرنے کے انجام کو نظرانداز کر دیں۔آپ بھٹو کی ذہانت فطانت‘ متفقہ آئین کی تیاری‘ اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد‘ مسلم امہ کو ایک پلیٹ پر جمع کرنے کے قابل قدر کارنامے ایٹمی پروگرام کے آغاز اور عام پاکستانیوں میں شعور پیدا کرنے کے حوالے ان کی زبردست صلاحیت سے انکار نہیں کر سکتے لیکن ان کے نیشنلائزیشن کے فیصلے‘سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں ان کی حکومت میں انتخابی معرکہ آرائی میں مخالفین کو اغوا کرانے جیسے اقدامات کو ان کے لاتعداد کارناموں کے باوجود تحسین کی نظروں سے نہیں دیکھا جا سکتا۔آپ کس طرح ضیاء الحق کی انکساری کو بیان کر کے ان کے مارشل لاء کی خونخواری کو جائز قرار دے سکتے ہیں۔آپ پیپلز پارٹی کے خلاف کریک ڈائون میں تمام حدود پھلانگ جانے اور بھٹو صاحب کو تختہ دار پر لٹکا دینے کے اقدام کو کس طر ح فیئرپلے سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ آپ ان کی اسلامائزیشن کے نعرے کو کس طرح صحیح گردان سکتے ہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے کارناموں کی فہرست پر نظر ڈالنے کے ساتھ ساتھ آپ یہ کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں کہ90ء کی پوری دہائی ان کی ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش میں کی جانے والی نئی نئی ترکیبوں اور تجربات کی نذر ہو گئی۔پھر مشرف کا دور آیاتو اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے ملک کو تجربات کی لیبارٹری بنانے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیا گیا۔ہر وہ سیاسی تجربہ کیا گیا جس کا بنیادی مقصد مشرف کے اقتدار کو دوام دینا تھا۔پھر پیپلز پارٹی اور نواز شریف کے ادوار آئے کیونکہ ملک میں ٹو پارٹی سسٹم جڑ پکڑ رہا تھا اس لئے یہ دونوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی کرتی رہیں۔2011ء میں اس سیاسی اکھاڑے میں عمران کی انٹری نے ایک ہلچل ضرور برپا کی۔عمران کے دھرنے اور خود کو تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر منوانے کی کوشش نے پاکستانی سیاست میں ایک نیا تلاطم برپا کیا۔عوامی پذیرائی اور مقتدر حلقوں کی آشیرباد سے بالآخر وہ 2018ء میں اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔چونکہ وہ انتخابی میدان میں لوگوں کو بڑے سہانے خواب دکھا رہے تھے۔وہ عام پاکستان کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ انہیں موقع ملا تو وہ کچھ ایسا کر دکھائیں گے جو انہوں نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔لیکن ان کے 4سالہ دور حکومت میں ایک کروڑ ملازمتوں اور 50لاکھ گھروں کے وعدے کا وہی حشر ہوا جو بھٹو کے روٹی کپڑا مکان اور ضیاء الحق کی سائیکل سواری کا ہوا تھا۔پھر مہنگائی کا ایسا طوفان امڈا جس نے عام لوگوں کی چیخیں نکال دیں۔یہی وہ وقت تھا جب عمران کی مقبولیت کو گن لگ رہا تھا۔ان کے تمام سیاسی مخالفین نے مل کر عمران کی حکومت کا خاتمہ تو کر دیا لیکن ان کا یہ اقدام عمران خان کے لئے ایک نئی لائف لائن ثابت ہوا اور موجودہ مخلوط حکومت کی 8ماہ کی کارکردگی اور پیچیدہ معاشی بحران کے سبب اس میں شامل تمام سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی اثاثے سے بڑی تیزی سے محروم ہوتی جا رہی ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں فوج کا جابجا مداخلت‘ مارشل لاء کے نفاذ کے سبب وہ جمہوری اقدار روایات اور آزاد سیاسی معاشرہ نہیں پنپ سکا جس کا قوم خواب دیکھتی ہے ۔پھر پاکستان میں عدلیہ کے فیصلوں اور دوسرے فیصلوں کی ایک طویل فہرست ہے جس سے ملک میں جمہوری اقدار کو پنپنے میں مزاحمت کا سامنا رہا۔میں جب پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالتا ہوں تو آج سیاسی دلدل اور معاشی دلدل میں پھنسے پاکستان کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے شاید طاقت کے مورچوں میں بیٹھے آج کے حکمران اور اپنے بیانیوں سے قلابازیاں کھاتے عمران خان ساری صورتحال اپنے اپنے مفادات میں سمجھتے ہوں لیکن ان صاحب اقتدار اور طاقتور لوگوں کو یہ احساس ہی نہیں کہ ان کی چالاکیوں نے ملک کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔ سیاسی اور معاشی استحکام دائو پر لگا ہوا ہے۔ ہم صحافی حضرات الٹ پھیر کر مختلف زاویوں سے تجزیے کرتے میں مصروف ہیں اور اپنی اپنی پسند کے لیڈروں کی غلطیوں کے داغ مختلف ڈیٹرجنٹ سے دھونے میں برسر پیکار ہیں۔اور نہ جانے یہ کیوں نہیں مانتے کہ اس قوم اور ملک کو کوئی ایسا بندہ خدا چاہیے جس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ جس کاباہر اور اندر سے دو رنگا نہ ہو۔ سمجھنے کے لئے ایک مثال دیتا ہوں گزشتہ چار سال میں ملک سے 12لاکھ ہنر مند لوگ ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ یاد رکھیں کسی قوم کا ایک عالم دانشور یا سائنسدان حالات سے پریشان ہو کر نقل مکانی کر جائے تو اس سے بڑی قلاش قوم کوئی اور نہیں ہوتی ،خواہ اس کے سارے پہاڑ سونے کے بن جائیں، ساری ندیوں، سارے دریائوں سارے بیراجوں سے تیل بہنے لگے اور اس کے سارے درختوں سے اشرفیاں اترنے لگیں۔