ماضی کی حکومتوں کی شاہ خرچیوں کے آفٹر شاکس کا سلسلسہ جاری ہے ۔آخر کوئی بتائے کہ بجلی کے بلوں میں اضافے کی تہلکہ خیزی کب تک جاری رہے گی؟ کوئی ہے جو یہ بتائے کہ یہ مفلوک الحال قوم کب تک پٹرولیم مصنوعات میں مسلسل ہر ایک کو چکرا دینے والے اضافے پر حکومت کی دیدہ دلیری پر داد دیتی رہے گی؟ کیا یہ فارمولا طے کر لیا گیا ہے کہ بجٹ خسارے کے سارے پیسے ساری رقم عوام کی جیبوں سے وصول کئے جائیں گے۔ مجھے علم ہے کہ بجلی کے کارخانے لگانے والے انویسٹرز کے ساتھ حکومت نے جو معرکتہ الآراء معاہدے کئے تھے اور جن کی رو سے Capacityپیمنٹ کی مد میں انہیں ڈالر کی صورت میں ادائیگی کی شرط مان کر ہم ایسے چنگل میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنے کا اب کوئی راستہ نہیں ہے۔قوم کو بتایا جائے کہ یہ سب معاہدے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومت نے کیے تھے ۔یہ خندق انھوں نے عوام کے لیے کھودی تھی ۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بجلی کے بلوں کی مد میں سالانہ 3700ارب روپے کی ریکوری ہوتی ہے، ہمارے سسٹم میں بجلی چوری کی مد میں جو ڈاکہ ڈالا جاتا ہے اس کا تخمینہ 600ارب کے قریب ہے تقریباً 2250ارب روپے ڈالر کی صورت میں ہمیں آئی پیز پیز کو Capacityپیمنٹ کی صورت میں ادا کرنے پڑتے ہیں، ایسی صورت میں صرف 900ارب روپے بچ جاتے ہیں اس میں واپڈا کے ملازمین کی تنخواہیں‘ مینٹیننس اور دوسری مدوں میں اخراجات کے ساتھ ملک کی تباہ حال معیشت اس بوجھ اور دبائو کو برداشت نہیں کر سکتی، ہماری بجلی کی پیداواری ضروریات جن کارخانوں کے ذریعے ہوتی ہے وہ 70فیصد فرنس آئل سے چلتے ہیں کوئلے اور ایل این جی کے ذریعے بجلی بہت کم مقدار میں پیدا کی جاتی ہے، فرنس آئل کی تمامتر ادائیگی ڈالر کی صورت میں کرنی پڑتی ہے، بھارت نے بھی اپنی بجلی کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لئے ایسے کارخانے لگائے ہیں لیکن وہ ایسی تمام ادائیگیاں بھارتی کرنسی میں کرتے ہیں پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت میں کم و بیش 19سے 20فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں جبکہ ہمارا ٹیکس نیٹ صرف 9فیصد لوگوں پر مشتمل ہے پھر ہمارے ہاں چوری کی شرح بھارت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے ان کے نظام میں ویجیلینس بہت بہتر اور لائن لاسز ہم سے نصف ہیں، ہمارے ہاں سندھ میں ایک درجن کے قریب ایسے شہر ہیں جہاں 50سے 80فیصد بجلی چوری ہوتی ہے بلوچستان میں بیشتر علاقوں میں بجلی کے بل ادا نہیں کئے جاتے۔ پنجاب کے متعدد قصبوں اور چھوٹے شہروں میں بجلی کی چوری کی شرح 40فیصد ہے زراعت میں ٹیوب ویل اور دیگر مشینری میں بجلی چوری کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ سرحد میں بھی کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں بجلی کے بل 80فیصد ادا نہیں کئے جاتے اور اس حوالے سے سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں خود واپڈا اور کے ای ایس سی کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے چوری کا یہ عمل سالہا سال سے جاری ہے۔ کراچی میں 15سے 20فیصد گھریلو صارفین اور کم و بیش اتنی ہی فیصد بجلی صنعتی یونٹوں میں چوری ہوتی ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ جب بھی ان کے خلاف کسی بڑی کارروائی کا آغاز ہوتا ہے یہ سڑکیں بند کر دیتے ہیں، جلائو گھیرائو تک کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور پھر ارکان اسمبلی جیسے بااثر لوگ بھی ان کی سرپرستی کے لئے میدان میں آ جاتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومتیں اپنے غلط معاہدوں‘ ناقص فیصلوں اور اپنی غلطیوں کا بوجھ عوام پر جس رفتار سے منتقل کر رہی ہیں، اس سے عام پاکستانی کی بس ہو گئی ہے اور فی الحال کوئی ایسا امکان نہیں ہے کہ اس حوالے سے کوئی بریک لگ سکے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے پاکستان میں بلیک مارکیٹ پر قابو پانے کے لئے جس آپریشن کے احکامات جاری کئے ہیں، اس کے نتائج ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں منی ایکسچینج کمپنیوں پر کریک ڈائون حوالہ اور ہنڈی کے کاروبار کی روک تھام کے اقدامات‘ افغانستان کرنسی اسمگل ہونے کے لئے مافیاز پر ہاتھ ڈالنے کا عمل‘ سرحد پر زیادہ موثر نگہبانی پھر ایران کی سرحد سے روزانہ 27ہزار بیرل پٹرولیم کی اسمگلنگ اور بلیک منی کو وائٹ بنانے کے لئے سونے کی خطیر خریدوفروخت کو پارکنگ لاٹ کے طور پر استعمال کرنے اور افغانستان اور ایران سے دیگر اشیاء کی بڑے پیمانے پر اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں، اسے یقینا حوصلہ افزا قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس میں کرنے کے کام یہ بھی ہیں کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے ٹیکس نیٹ ورک کو توسیع دینی چاہیے اس کے لئے ہمیں ایف بی آر کی ازسر نو تنظیم کرنی ہو گی۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کو ہر ممکنہ حد تک کم کرنے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔بجلی کے بلوں میں اضافے کو روکنے کے لئے ہمیں آئی پی پیز کے ساتھ دوبارہ گفت و شنید کرنی ہو گی ان کی سننی ہو گی اور اپنی مشکلات بتا کر کچھ کچھ منوانا ہو گا کچھ سہولتیں حاصل کرنی ہو گی لوگوں کو ریلیف دینے کے لئے ضروری اشیاء خوردو نوش میں سبسڈی دینی ہو گی، حکومت کو چاہیے کہ وہ رقم ان راشی افسران کی آنتڑیوں سے نکالے جو فائل کو آگے چلانے ایک دستخط کرنے چند کاغذ نیچے دبانے مخصوص نوٹ لکھنے اور اپنے باسز اور سرکردہ لوگوں کو نذرانے پیش کرنے اور خود بریف کیسوں میں اربوں بھر کر گھروں کو لے جاتے ہیں ۔ان صنعت کاروں‘ ہول سیلز اور ریٹیلرز پر ہاتھ ڈالنا ہو گا جو اربوں کا ٹیکس ہر سال دبا لیتے ہیں اور حکومتیں ہیں کہ ہر بار عوام کی گردن پر ہی پائوں رکھ دیتی ہیں جو وقت پر ٹیکس ادا کرتے ہیں جو بجلی گیس اور ٹیلی فون بلوں کے نادہندہ نہیں۔ حکومت زراعت پر خاص طور پر بڑے زمینداروں پر جو کروڑوں کا ٹیکس ادا کر سکتے ہیں پکڑے۔ ان لوگوں کو پکڑنے کی ضرورت ہے جو اربوں کی ایکسائز ڈیوٹی سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے بچاتے ہیں کروڑوں کا نہری پانی چوری کرتے ہیں جو اربوں کی سرکاری لکڑی بجلی اور گیس چوری کرتے ہیں حکومت ان لوگوں کو کیوں نہیں پکڑتی جو تمام سرکاری منصوبوں میں سرکاری اہلکاروں کے ساتھ مل کر کچھ دو اور کچھ لو کی بنیاد پر اس ملک کی بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں، ان لوگوں کو کیوں نہیں پکڑا جاتا جو اربوں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے اور کروانے کے ذہ دار ہیں اور اس میں ہر ایک کا حصہ ایک سسٹم کے تحت سب کے حصے میں آتا ہے۔ واپڈا کے ان ملازمین کو پکڑا جائے جو اپنے حواری ٹھیکیداروں کی مدد سے تاریں اور کھمبے تک ادھر ادھر کر دیتے ہیں۔ٹرانسفارمر غائب ہو جائے ہیں، سرکاری ہسپتالوں میں کروڑوں کی دوائوں کی ہیر پھیر کی جاتی ہے جو مریضوں کی خوراک کے لئے مختص رقم بھی کھا جاتے ہیں، کروڑوں کی سڑکیں جیب میں ڈال لیتے ہیں کروڑوں کی نالیاں‘ گلیاں اور پلیاں اڑا لے جاتے ۔ سرکاری رہائش گاہوں کی آرائش سرکاری آفیسران کو رہائش کے نام پر کرائے کی مد میں ان کی گاڑیوں کے پٹرول کی مد میں کروڑوں کی ہیر پھیر وتی ہے، مجھے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس ملک کے 90فیصد سب چوری ہیں ساری حکومتیں پولیس چوری خواہ کسی محلے میں ہو مال کہیں سے اڑایا جائے ڈکیت خواہ کوئی ہو وصولی ہم سے کی جاتی ہے ہمیں الٹا لٹکایا جاتا ہے چھترول صرف ہماری ہوتی ہے سزا صرف ہمیں دی جاتی ہے قید صرف ہم کاٹتے ہیں اور چوری صرف ہم کہلاتے ہیں۔جنرل صاحب آپ نے ڈنڈا اٹھایا ہے اٹھائے رکھیں جب تک اصل چوروں کو کیفر کردار تک نہ پہنچا دیں۔عام پاکستانی کو دو وقت کی روٹی چاہئے روزگار صحت اور تعلیم اور سادہ سا نظام چاہیے اسے اب اس سے کوئی مطلب نہیں کہ کون حکمران بنے گا اسے صرف ریلیف چاہیے۔