اکبر ایس بابر نے 2014ء میں فارن فنڈنگ اور بینک اکاؤنٹس خفیہ رکھنے پر پاکستان تحریک انصاف کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجوع کیاتھا۔ 7سال بعد بالاخر الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی نے پاکستان تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ اور بینک اکاؤنٹس سے متعلق 239صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کرکے شفافیت اور دیانتداری کے بلندوبانگ دعووں کی قلعی کھول کررکھ دی ہے۔اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ کے بعد بھی یہ تسلیم کرنے کیلئے تیارنہیں کہ ملکی قوانین کے برعکس فارن فنڈنگ ہوئی تاہم اسکروٹنی کمیٹی حکمران جماعت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو دی گئی تفصیلات میں سینکڑوں تضادات سامنے لے آئی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے پاس جتنا ریکارڈ دستیاب تھا وہ اسکروٹنی کمیٹی میں پیش کیا جاچکا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے اپنے عزم کو دہرایا ہے کہ جتنے ہمارے اکاونٹس کی سکروٹنی ہوگی حقیقت عوام کے سامنے آئے گی۔ پی ٹی آئی واحد جماعت ہے جو سیاسی فنڈ ریزنگ سے چل رہی ہے۔ویسے اسکروٹی کمیٹی کے سامنے پیش کئے گئے ریکارڈ کی روشنی میں سیاہ و سفید سب کچھ عیا ں ہوچکا ہے۔میرا خیا ل ہے کہ بات اب بیانات اور دعووں سے نکل کر دستاویز اور قانون کی پاسداری تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے موقف کے برعکس اسکروٹنی کمیٹی کے مطابق پی ٹی آئی کو1ہزار 414 پاکستانی، 47 غیر ملکیوں اور 119 کمپنیوں نے عطیات دیے تاہم اسکروٹنی کمیٹی کو پی ٹی آئی کے امریکی بینک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل نہ ہوسکی۔پی ٹی آئی نے 2010 اور 2013 کے درمیان صرف امریکا سے 23 لاکھ 44 ہزار 882 ڈالرز کے فنڈز اکٹھے کیے۔فنڈنگ کرنے والوں میں 4ہزار755 پاکستانی، 41 غیر ملکی اور 230 فارن کمپنیز شامل تھیں۔اسٹیٹ بینک ڈیٹا کے مطابق پی ٹی آئی کے پاکستان میں 26 بینک اکاؤنٹس ہیں۔ پی ٹی آئی کو امریکا اور دیگر ممالک سے فنڈز ملے جن میں دبئی، برطانیہ، یورپ، ڈنمارک، جاپان، کینیڈا، آسٹریلیا اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ کمیٹی کو دبئی سے پی ٹی آئی کو ملنے والے 22 لاکھ ڈالرز کی تفصیلات نجی بینک نے اسٹیٹ بینک کو فراہم کیں تاہم کمیٹی کو یو اے ای سے ملنے والی مزید تفصیلات تک رسائی نہیں مل سکیں۔برطانیہ سے ملنے والے فنڈز کی تفصیلات بھی فراہم نہیں کی گئیں۔کمیٹی کے مطابق اس لیے سورس آف فنڈز پر تبصرہ ممکن نہیں۔ یورپ سے پی ٹی آئی کو ملنے والی رقوم کی تفصیلات بھی فراہم نہیں کی گئیں۔ سال 2008ء سے 2013ء تک پی ٹی آئی نے اکاؤنٹس میں 1 ارب 33 کروڑ کی فنڈنگ ظاہر کی جبکہ اسٹیٹ بینک رپورٹ کے مطابق اصل رقم 1 ارب 64 کروڑ روپے تھی۔اسکروٹنی کمیٹی کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویزات میں 31 کروڑ کی رقم ظاہر نہیں کی۔ الیکشن کمیشن اب سکروٹنی کمیٹی کی اس رپورٹ پر سماعت کرے گا جس کے بعد حتمی فیصلہ ہوگا کہ پاکستان تحریک انصاف نے فنڈنگ اور بینک اکاؤنٹس او رآڈٹ کے معاملے میں جو سنگین بے ضابطگیاں کیں ‘قانون کی روشنی میں ان پر کیا ایکشن ہوگا۔ اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ نے اکبر ایس بابر کا سات سال پرانا موقف درست ثابت کرتے ہوئے مسائل کے منجدھار میں پھنسی پاکستان تحریک انصاف کو ایک بڑے سیاسی چیلنج سے نبرد آزما کردیا ہے۔اب مارچ سے قبل پی ٹی آئی کیلئے الیکشن کمیشن کا حتمی فیصلہ ایک لٹکتی تلوار ہے۔ کمیٹی نے تو ٹھپہ لگادیا ہے کہ پی ٹی آئی نے اکاؤنٹس چھپائے اور غلط معلومات دیں۔ اپوزیشن اسکروٹنی کمیٹی کے اس نتیجے کوآنے والے دنوں میں بھرپور استعمال کرے گی۔اپوزیشن رہنماؤں نے ابھی سے عمران خان کو آڑے ہاتھوں لے لیا ہے کہ عمران خان نے سچ بولنے کا حلف اٹھا کر پی ٹی آئی کے بینک اکاؤنٹس الیکشن کمیشن سے چھپائے۔ منی بجٹ پر بلائے گئے اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران بیشتر کابینہ ارکان نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان ترمیمی بل کو ریاست کے اندر ریاست کے قیام سے تشبیہہ دیتے ہوئے بھرپور مخالفت کی۔ کابینہ ارکان نے موقف اپنایا کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان ترمیمی بل ملکی میں معاشی خودمختاری سرینڈر کرنے کے مترادف ہے۔ سرکاری اداروں میں بد انتظامی اور اربوں روپے خسارے کے خبروں کے دوران سرکاری کمپنی نیشنل انشورنس کارپوریشن کی جانب سے طویل عرصے بعد تازہ ہوا کا جھونکا آیا ہے۔ ماضی میں میگااسکینڈل کی زد میں رہنے والی سرکاری کمپنی این آئی سی ایل کا بہتر گورننس کے باعث ریونیو 21 ارب روپے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا ہے۔ نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ نے 2010ء میں رئیل اسٹیٹ فراڈ کیس میں 2 ارب روپے 29کروڑ روپے کی ریکوری بھی کرلی ہے۔چیف ایگزیکٹو آفیسر خالد حمید کے مطابق بہترین لیڈرشپ، کسٹمر کئیر اور افسران کا اعتماد بحال ہونے کے باعث این آئی سی ایل نے بہتری کا سفر شروع کیا۔ سال 2019 میں نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ کا مجموعی پریمیم 10.6 ارب، 2020 میں 15 ارب اور سال 2021 کے اختتام پر 20 ارب روپے رہا جو کہ سال 2019ء کے مقابلے میں 100 فیصد اور سال 2020ء کے مقابلے میں 33.3 فیصد زیادہ رہا جبکہ اس کے مقابلے میں مجموعی صنعتی انشورنس پیداوار کافی کم رہی۔کسٹمر کئیر پر توجہ دینے کے باعث کمپنی کا ریونیو میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ این آئی سی ایل کی جانب سے سرکاری شعبے کیساتھ نجی شعبے میں بھی انشورنس کی خدمات فراہم کرنے کیلئے منصوبہ بندی شروع کردی گئی ہے۔ کمپنی ملازمین کی فلاح وبہبود کا خاص خیال نے بھی صورتحال بہتر بنانے میں کلیدی کردار اداکیا۔ پروفیشنلزم ‘ پختہ ارادوں اور نیک نیتی کیساتھ کوشش کی جائے تو سالانہ 500ارب روپے خسارے سے دوچار سرکاری کمپنیوں کو تباہی کے گڑھے سے نکالنا کوئی ناممکن کام تو نہیں۔