ایرانی اپنی قدیم تاریخ، ثقافت اور زبان پر فخر کرتے ہیں۔ فارس سے ایران بننے میں بھی نسلی زعم ہی کارفرما رہا ہے۔ سائرس سے دارا تک قدیم فارسی سلطنت کی سرحدیں اُس طرف اناطولیا تو ہماری طرف دریائے سندھ سے آملتی تھیں۔ عباسیوں کی خلافت کے قیام اور کوہ قاف کے پہاڑوں تک اسلامی سلطنت کے پھیلائو کے پسِ پشت’ عجمیوں‘کی دانش کا کردار کلیدی رہا۔سولہویں صدی عیسوی کے دوران ملکِ فارس میں صفوی بادشاہت کے زیرِ اثراثنائے عشری کو اسماعیلیوں، زیدیوں اور سنیوں پر برتری حاصل ہونے لگی۔ آزربائیجان ، آرمینیا اور داغستان کے بعدعراق پر بھی قبضہ کر لیا گیا ، تاآنکہ سلمان فاتح نے صفوی خاندان کی پیش قدمی روکی۔ ایران کے توسیع پسندانہ عزائم کے نتیجے میں یورپ پر عثمانی یلغار میں وقفہ نہ آتا توآج یورپ کا جغرافیہ مختلف ہوتا۔ ملک فارس کا ثقافتی اثرو رسوخ جو دریائے آمو کے پار اُترا تو ہندوستان کی عظیم مغلیہ سلطنت کی رگوں میں بھی تین صدیوں تک دوڑتا رہا۔فارسی کے بطن سے ہی اردو پھوٹی۔غالب اور اقبال سمیت برِ صغیر پاک و ہندکے عظیم شعراء کا کلام فارسی یا فارسی رنگ میں ہی رچا بسا ہے۔ کہا جاتا ہے اور درست کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی نوعمری کے باوجود دونوں ملکوں کے عوام صدیوں پرانے قدیم مذہبی، ثقافتی اور لسانی رشتوں میںمنسلک ہیں۔ پاک بھارت جنگوں میں ایران نے پاکستان کو سٹریٹیجک ڈیپتھ مہیا کی۔ایرانی ہوائی اڈے پی آئی اے کے لئے محفوظ ٹھکانے تو جنگی جہازوں کے لئے ’بیک یارڈ‘ ثابت ہوئے۔اسلامی انقلاب کے بعدتاہم کئی وجوہ کی بناء پر دونوں ملکوں کے تعلقات اونچ نیچ کا شکار ہوتے رہے۔ پہلا افغان جہاد روس کی پسپائی کے نتیجے میں اپنے انجام کو پہنچا تو پاکستان بین الاقوامی طاقتوں کی ’پراکسیوں ‘کے مابین خونریز اکھاڑاColosseum)) بن چکاتھا۔ تمام تر نظریاتی ومسلکی اختلافات کے باوجود پاکستان اور ایران کے درمیان معمول کے برادرانہ تعلقات مگر برقرار رہے،اگرچہ پاک ایران سرحد کے دونوں اطراف دہشت گرد گروہوں کی کارروائیوں کا مسئلہ دونوں ملکوں میں وقتاََ فوقتاََ تلخی کا سبب بھی بنتارہا ہے۔ ایران پاکستان سے منسلک اپنے سیستانی صوبے میں شورش پھیلانے والی سنی تنظیموں کے اڈوں کی پاکستان میں موجودگی پر شاکی رہا ہے، تو پاکستان اپنے ہاں قتل وغارت میں ملوث علیحدگی پسند دہشت گردوں کے سرحد پار ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کے لئے ایران سے مطالبہ کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس معاملے کو لے کر بھی مگر صورتِ حال کبھی اس نہج پر نہیں پہنچی تھی کہ جو بدقسمتی سے ہمیں حالیہ دنوں میں دیکھنے کو ملی ہے۔ ’سازشی تھیوریوں‘ کو ایک طرف رکھیں تو پاک ایران تعلقات پر نظر رکھنے والے مبصرین گھوم پھر کر ایران کے’ڈومیسٹک دبائو‘ کو ہی اس کی ہمسائیوں کے خلاف حالیہ جارحانہ کارروائیوں کا محرک قرار دے رہے ہیں۔دنیا کے تمام ممالک اپنے قومی مفادات کی خاطر دیگر ریاستوں پر اثر انداز ہونے کی مسلسل کوشش میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ جنرل قاسم ایران کی اسی پالیسی کے نگہبان تھے اوراسی بناء پرجب زندہ تھے تو عوام میں مقبول رہے اوراب بعد از مرگ ایک اساطیری کردار کا روپ دھار چکے ہیں۔ ایران خطے میں اثر ورسوخ قائم کرنے کے لئے حزب اللہ اور ہوتھی باغیوں جیسی ’پراکسیوں‘ پر انحصار کرتا رہا ہے۔ انہی پراکسیوں کے بل بوتے پر ایران نے حماس کے حالیہ حملوں کے بعد اسرائیل کو ’ایک حد‘کے اندر رہنے کی دھمکی دی تھی ۔ اسرائیل نے رعونت کے ساتھ ایران کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں اسرائیلیوں کا بھرکس نکال دیا۔ حال ہی میں شام کے اندر ایک سینئرا یرانی نمائندے پر حملے سمیت خودملک کے اندر ایرانی سیکیورٹی اہلکاروں کی مسلسل ہلاکتوں کے پیچھے ایرانی مبینہ طور پر جیش العدل اور اس جیسی دیگر تنظیموں کا ہاتھ دیکھتے ہیں۔ تاہم جنرل قاسم کی برسی کے موقع پر ہونے والی دہشت گردی اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوئی۔ ہماری طرح ایران میں بھی طاقت کے ایک سے زیادہ مراکز ہیں۔چنانچہ جہاں ایک طرف ابھی کچھ روز پہلے تک دو ممالک کی افواج کے مابین مشترکہ مشقیں جاری تھیں، افغانستان میں ایران کے مستقل نمائندے ہمارے وزیرِ خارجہ سے ملاقات کیلئے پاکستان تشریف لائے ہوئے تھے ، ایرانی وزیرِ خارجہ ڈیووس میں ہمارے وزیرِ اعظم سے گفت و شنید میں مصروف تھے تو وہیں پاکستان میں جارحیت کا معاملہ بھی سامنے آگیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ حملے ایرانی حکومت کی منشاء سے کئے گئے ہیں؟ اندازہ یہی ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے سامنے ایران کی بے عملی کے ساتھ ساتھ سرزمینِ ایران پر مسلسل دہشتگردی کے واقعات ہی ایرانی اسٹیبلشمنٹ کو شدید اندرونی دبائومیں لانے کا باعث بنے ہیں۔شام اور عراق پر حملوں کو اسی دبائو سے نکلنے کی ایک کوشش سمجھا گیا۔تاہم ایرانی ’ڈیپ سٹیٹ‘ نے اس بار اندازے کی جو بڑی غلطی کی وہ دو نسبتاََ کمزور ہمسائیوں کے بعد خود ’دومیسٹک دبائو‘ کا شکار پاکستانی ریاست پر حملہ تھا۔ حملے کے فوراََ بعد جس پیمانے پر ملکی اور غیر ملکی اکائونٹس سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر بے رحم تنقید کا آغاز ہوا، اس کی شدت نے ایرانی حملے کے منصوبہ سازوں کے اس اندازے کو یکسر غلط ثابت کر دیا کہ پاکستانی ریاست ماضی کی طرح اس بار بھی سرحد پار در اندازیوں سے صرف نظرکرے گی ۔در حقیقت فوری ردِعمل کے سوا اس بار پاکستان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ۔ پاکستانی جوابی کاروائی کے نتیجے میں انیسوی صدی کے دانشور ہربرٹ سپنسر کی بیان کردہ انسانوں کی ’قبائلی فطرت‘ آڑے آئی اور دائروں میں بٹی قوم ایک بڑے قومی دائرے میں یکجا ہو گئی۔ جس اندرونی خلفشار کو ایرانی ’ڈیپ سٹیٹ‘ کی جانب سے پاکستان کی کمزوری سمجھا گیا تھا، وہی انتہائی غیرمقبول پاکستانی حکمرانوں کے لئے آسمان سے اترنے والی غیبی امداد بن گیا۔ خدا کا شکر ہے کہ دونوں برادر ملکوں کے مابین درجہ حرارت کم کئے جانے پراتفاق ہو چکا ہے۔ امید کی جانی چاہیئے کہ دونوں ممالک صدیوں کی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے عمدہ سفارت کاری کے ذریعے تمام معاملات کو حکمت کے ساتھ طے کریں گے۔ دونوں ملکوں کو اس دوران ان اندرونی اور بیرونی عناصر سے خبردار رہنا ہوگا، صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے برادرہمسایہ ملک کے خلاف جو بے جا ہیجان پیدا کرنے کی کوشش کر تے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ایران بھارت نہیں ہے، ہماری سلامتی اور قومی بقاء کے جو درپے ہے۔ دوسری طرف ایران کو بھی نسلی برتری کے زعم سے آزاد ہو کرخطے کے معاملات میں اسی سائز کا نوالا توڑنے کی عادت اپنانی چاہیئے جسے وہ آسانی سے چبا سکے۔پاکستان صرف دشمنوں میں ہی نہیں، نادان دوستوں میں بھی خود کفیل ہے۔ ہمیںہر دو اطراف موجود اِن گروہی مفاد پرستوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔