امریکہ میں سینٹر فار ڈیزیز اینڈ پروونشن نے اپنے ایک ہیلتھ جنرل میں ڈاکٹر الیگزینڈر کا ایک ریسرچ آرٹیکل شائع کیا جس نے خود کشی کی وجوہات پر تحقیق کرنے والوں کی سوچ کو ایک نئی جہت سے روشناس کروایا ڈاکٹر الیگزینڈر نے لکھا:"suicide deaths are result of spiritual vacuum in our secular culture" اس میں سپرچوئل ویکیوم اور سیکولر کلچر کے اصطلاحیں بہت معنی خیز ہیں اور ان کو استعمال کرنے والا کوئی مسلم عالم دین نہیں بلکہ غیر مسلم امریکی ریسرچر ڈاکٹر ہے, جو اپنی برس سا برس کی تحقیق اور سینکڑوں مریضوں کی کیس ہسٹری کا جائزہ لے کر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جب انسان کے اندر روحانی سطح پر خالی پن پیدا ہوتا ہے تو تمام مادی آسائشوں کے باوجود زندگی بے مقصد اور بے معنی لگنے لگتی ہے۔ اس روحانی خلا کے ساتھ جب انسان زندگی سے جڑے دکھوں مسائل اور ناکامیوں سے گزرتا ہے تو پھر مایوسی کے اندھیرے ایک دلدل کی طرح محسوس ہوتے ہیں جس سے چھٹکارا پانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا جائے۔بے شمار ایسے واقعات ہمارے سامنے نظر سے گزرتے ہیں کہ دنیا کی نظر میں بظایر اہک کامیاب شخص موت کو خود اپنے لیے منتخب کرتا ہے۔ کچھ ہفتے پہلے سی ایس پی آفیسر بلال پاشا کی خودکشی نے سب کو رنجیدہ اور حیران کیا۔غربت کی دلدل میں کامیابی اور خواب کی تعبیر پانے کی غیر معمولی جدوجہد کرنے والے سی ایس پی آفیسر نے آخر اپنے خواب کی تعبیر پاکر پھر خودکشی کیوں کی؟ کن عوامل نے اسے ذہنی دباؤ کی اس خوفناک سطح تک پہنچایا؟ سی ایس پی افیسرز کی اپنے ہاتھوں جان لینے کی خبریں پہلے بھی آتی رہیں ہیں۔ ایس ایس پی ابرار حسین نیکوکارہ نے 2020 میں خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا ۔ اپنے ہاتھوں اپنی جان لینا تو ایک انتہائی قدم ہے، لیکن یہ چیز بھی مشاہدے میں ہے کہ صرف مادیت پرستی سے بھرا ہوا انسان جلد ڈپریشن اور انزائٹی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر الیگزینڈر اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ انسانی صحت کی بہتری کوہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں نمبر 1. جسمانی صحت نمبر 2. ذہنی صحت نمبر3.روحانی صحت اج کے مادی دور میں انسان اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ لیکن روحانی صحت کیا ہے اور اس روحانی صحت کو کیسے بہتر کیا جائے۔بیشتر لوگ اس سے واقف نہیں۔ ڈاکٹر الیگزینڈر نے مزید لکھا ہے کہ آج کے جدید دور کا انسان ایک دوراہے پر کھڑا ہوا ہے جہاں ایک طرف تو تنہائی کا عذاب ہے جسے انہوں نے آئیسولیشن کا عذاب کہا ہے، تو دوسری طرف زندگی کی meaninglessness ہے .یعنی زندگی اپنے تمام تر کشش کے باوجود بے مقصد اور بے معنی نظر آتی ہے۔ اگر زندگی میں آپ کے خواب اور خواہشات کسی بڑے مقصد سے نہیں جڑے ہوئے تو آپ کچھ بھی حاصل کر لیں زندگی میں ایک بے مقصدیت کا احساس ہمیشہ رہے گا ۔ حیرت ہے کہ یہ خیالات ایک غیر مسلم مغربی معاشرے سے تعلق رکھنے والے محقق کے ہیں جب ہم آئسولیشن کی بات کرتے ہیں تو مغرب میں انسان کی زندگی میں تنہائی بہت زیادہ ہے وہاں بچے 16، 17 سال کی عمر میں گھر سے چلے جاتے ہیں۔ ایک طرف والدین تنہائی کے عذاب سے گزرتے ہیں تو دوسری طرف بچے تنہا وجود کی حیثیت سے معاشرے میں اپنی شناخت حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ہم مغرب کا انسان دوست نظام دیکھتے اور اس کو سراہتے ہیں لیکن اس انسان دوست نظام کے اندر ایک انسان کس طرح سے تنہا ہے اور تنہائی کی کس اذیت سے گزرتا ہے یہ ہمارے سامنے سے اوجھل رہتا ہے۔ یہاں تنہائی ماں باپ اور بچے دونوں کا مقدر بن جاتی ہے۔ پھر وہاں زندگی اتنی مصروف ہے کہ دوست احباب رشتہ داروں کے ساتھ میری بیٹھنے کا وقت ہی نہیں۔اب حالات یہ ہیں کہ ایسی تنہائی اور آئیسولیشن اب صرف مغرب ہی کے حصے میں نہیں بلکہ ہمارے جیسے سماج میں بھی فرد کی تنہائی کا مسئلہ ایک سوال بنتا جا رہا ہے۔ اس گلوبل ویلج میں بچے پڑھ لکھ کر بیرون ملک سدھارتیہیں اور پیچھے سے والدین خالی مکانوں میں یادوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ دوسری طرف اپنے بھرے پرے گھر اور والدین کو چھوڑ کر پردیس میں اپنی قسمت آزمائی کرنے والے نوجوان وہاں کے معاشرے میں اجنبیت سہہ کر تنہائی کے ایک مسلسل عذاب سے گزرتے ہیں۔ ایک طرف سوشل میڈیا کے کتنے ہی پلیٹ فارم ایسے ہیں جہاں کروڑوں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دوستیاں نبھانے میں مصروف ہیں لیکن اس کے باوجود ایک آئیسولیشن کا عذاب ہے جس سے ہر فرد دوچار ہے۔ کیونکہ میل ملاقات صرف سکرین پر انگلیوں کی پوروں سے ہوتا ہے جبکہ آپ کا پورا وجود ایک تنہائی سے گزر رہا ہے۔ یہ زندگی کا وہ بنجر پن ہے جس کا ذکر ٹی ایس ایلیٹ نے اپنی لازوال نظم ویسٹ لینڈ میں کیا ۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد صنعتی انقلاب نے معاشرے کے اندر مادیت پرستی کو فروغ دیا خاندانی نظام کی چادر میں شگاف پڑنے لگے اور فرد اپنی ذات میں تنہا ہوتا چلا گیا۔ زندگی کا مقصد اپنی ذات کے لیے خوشیوں کا حصول رہ گیا کیونکہ ایک فرد خاندان کے دائرے سے بھی نکل گیا تو وہ تنہائی کی پاتال میں گرتا چلا گیا۔ سی ایس ایس کرنا، محض ڈاکٹر بن جانا یا کوئی کامیاب بزنس مین بن جانا یا کسی بڑے تعلیمی ادارے کا ٹیگ اپنے نام کے ساتھ لگا لینا، کینیڈا امریکہ میں سیٹل ہونا اگر یہی زندگی کا مقصد ہے تو پھر اپنی ترجیحات درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی اور اپنے بچوں کی کی روحانی صحت کا اہتمام کرنے کی کوشش کریں۔ بچوں کو اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جوڑیں۔اللہ کا ذکر ہمارے اندر کے روحانی خلا کو بھرتا ہے اور بلا شبہ مضطرب روح اور دل کو سکون عطا کرتا ہے۔ ہمیشہ اپنے سے نیچے لوگوں کی طرف دیکھنا آپ کے دل کو شکر گزاری کی عظیم نعمت سے سرشار رکھتا ہے۔ پریشان حال مخلوق کی مالی اور اخلاقی مدد کرنے سے ایک طرف تنہائی کا دائرہ ٹوٹتا ہے تو دوسری طرف اس خوشی سے حاصل ہونے والی روشنی آپ کی زندگی کو بامقصد بنادیتی ہے۔ یقیں اور ایمان کا یہ اثاثہ اپنے بچوں میں ضرور منتقل کریں تاکہ ان کی جسمانی اور ذہنی بہتری کے ساتھ ساتھ ان کے اندر کوئی روحانی خلا باقی نہ رہے۔