1968ء اور 1969ء میں عوام کی بے چینی سے ایک عمومی ہنگامہ آرائی کی راہ ہموار ہوئی۔اس بے اطمینانی کی جڑ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اقتصادی توازن کا نہ ہونا تھا۔بائیس خاندانوں کے ہاتھوں میں دولت کا جمع ہونا۔ مشرقی پاکستان کا احساس محرومی و بیانگی اور عوام میں سیاسی گھٹن سیاسی حزب اختلاف نے بڑی ہوشیاری سے صورتحال کو استعمال کیا ہے۔ ایوب خان اس دبائو کو برداشت نہ کر سکے اور مارچ 1969ء میں استعفیٰ دیدیا۔ یحییٰ خان نے آئین کو منسوخ کر کے مارشل لاء لگا دیا۔ پاکستان وہیں واپس آ گیا جہاں 1958ء میں تھا لیکن یحییٰ خان پر سخت دبائو تھا کہ وہ ایوب خان کے خلاف احتجاج کے دو مقبول ترین مطالبات ’’برابری کا اصول‘‘ اور ون یونٹ ختم کرنا تھا۔ انہوں نے یہ مان لیے اور مغربی پاکستان کے چاروں صوبے بحال ہو گئے اور پاکستان 1956ء کے آئین سے پہلے کے دور ہی واپس آ گیا۔ 70 کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کر کے ملک کو ایک امتحان میں ڈالدیا گیا پھر یہ بڑی کڑوی تاریخ ہے کہ مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ اب ہمارے پاس صرف مغربی حصے پر مبنی ’’نیا پاکستان‘‘ تھا۔ بھٹو برسراقتدار آئے 1977ء کے انتخابات میں بھٹو کی مخالف پارٹیوں نے اتحاد کر کے ایک مضبوط محاذ بنا لیا۔ اس محاذ نے بھٹو کی کامیابی کے نتیجے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ ہنگامہ آرائی اور احتجاج کے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور 5جولائی 1977ء کو ضیاء الحق کی سرکردگی میں فوج نے مارشل لگا دی۔ پھر دو سال بعد قتل کے ایک انتہائی متنازعہ مقدمے میں سزا پانے کے بعد انہوں نے بھٹو کو پھانسی دلوادی۔ 1985ء میں ضیاء الحق نے غیر جماعتی الیکشن کروا کر ملک سے مارشل لاء اٹھانے کا اعلان کر دیا اور پھر 1988ء میں ضیاء الحق نے آٹھویں ترمیم کو استعمال کر کے جونیجو کی حکومت کو برخاست اور قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ 1988ء میں طیارے کے حادثے میں ضیاء الحق اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ منظر بدلا اور 1988ء سے 1999ء تک نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے مابین میوزیکل چیئر کا یہ کھیل چلتا رہا اس وقت تک جب 1999ء میں جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت کو فارغ کر کے اقتدار سنبھال لیا پھر ایک طویل عرصے تک حکومت کرنے کے بعد مشرف رخصت ہوئے اور پھر پیپلزپارٹی،نواز شریف اور 2018ء میں عمران خان جبری سیاسی قوت بن کر اقتدار تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔آج جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا ہم اتنے بدقسمت ہیں کہ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی جانب کھسک رہے ہیں۔ وقت کے اس تنہا، اداس اور ویران سفر میں ہمارے لیے کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو اس قوم کی ہمت بندھا سکے۔ آگے لے جانے کا راستہ دکھا سکے جو ہماری پیروی کر سکے جب میں سوچتا ہوں کہ ہم اتنے تھکے ہوئے چڑ چڑے بیزار مایوس اور مردہ دل کیوں ہیں تو جواب ملتا ہے کہ ہمیں ہر بار دھوکہ دیا جاتا ہے جو لوگ رہنمائی کا دعویٰ کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں اور شاید اس بات بھی شاید یہی ہمارا المیہ ہے۔ قومی تاریخ کی داستان بہت طویل ہے اس کے ہر باب کا عنوان ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اب بھی سنبھل جائیں۔ آگے موڑ ہے۔ سڑک بھی تنگ اور موڑ بھی خطرناک۔ سامنے پتھریلی چٹان تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی ڈرائیور اسے غلط سمت لے جاتے رہے ہیں۔ ہم کئی حادثات سے دوچار ہوئے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر قدم احتیاط سے اٹھایا جائے ایسا لگتا ہے سیاست وہیں کھڑی ہے جہاں 30سال پہلے تھی۔ چہرے بدلے نہ سیاستدان‘ عمران خان کی انٹری ضرور ہوئی لیکن اس نے پاکستان کی سیاست میں تبدیلی کے بجائے صرف ہلچل پیدا کی۔ شطرنج کی بساط پر وہی چالیں ہیں وہی انداز۔ کوئی کیونکر اندازہ لگائے کہ کیا کھویا کیا پایا۔ اگر ن لیگ خوش ہے تو پیپلز پارٹی بھی اقتدار تک پہنچنے کے لئے کسی نئی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔پی ٹی آئی اپنے آزمائشی دور سے گزر رہی ہے لیکن کسی راستے کی تلاش میں ہے۔جے یو آئی خاموش ہے اور اے این پی راضی‘بلوچستان کی جماعتیں ٹھہرے پانی میں پتھر مار کر حالات کا جائزہ لے رہی ہیں۔ در حقیقت ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ 8فروری کو جب انتخابات منعقد ہوں گے تو ملک کا سیاسی منظر نامہ کیا ہو گا ،چونکہ ہمارا معاشرہ ابتدا سے ہی ناخواندگی کا شکار اور جاگیردارانہ اور قبائلی طرز کا رہا ہے۔ گوکہ گزشتہ دو تین دہائیوں میں لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں آئے ہیں لیکن یہ بات درست ہے کہ ناخواندہ جاگیردارانہ قبائلی اور علاقائی معاشروں میں ایک بڑی خامی ہوتی ہے۔لوگ اپنی اہلیت کی بناء پر منتخب نہیں کئے جاتے بلکہ سیاسی عمل میں ان کی ترقی خاندانی تعلقات اور دولت کی بناء پر ہوتی ہے جب بھی مارشل لاء کے ادوار آئے اس وقت انتخابی مرحلے سے نہیں بلکہ ان کو چن لیا جاتا تھا۔یہ کم و بیش ون مین شو ہوتا ہے اب جبکہ انتخابی مرحلہ ہمارا سر پر ہے اور ہم پندرہ سال تک ایسے امتحان سے گزر رہے ہیں جسے انتخابی امتحان کہتے ہیں۔ خواہ اس پر جتنے بھی اعتراضات رہے ہوں۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ اگر آپ جمہوریت چاہتے ہیں تو آپ کو اتنا احساس ذمہ داری بھی ہونا چاہیے کہ آپ مناسب لوگوں کا انتخاب کریں اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو بعد میں منتخب نمائندوں اور وزراء کے خراب معیار کے بارے میں شور نہ مچائیں۔ ہم نظام کے بدلنے کی بات کرتے ہیں لیکن اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ یہ نظام تب بدلے گا جب ہم بدلیں گے۔ ووٹ دینے والے بے خبر اور ووٹ لینے والے شاطر اور چالاک ہیں۔ یہ بھی خوب ہے کہ دوسروں کو فیلڈ سے آئوٹ کرنے کی شرائط اور خواہش رکھتے ہیں۔ دوسروں کو سلیکٹڈ کہتے ہیں اور خود سلیکٹ ہونے کے لئے تیار ہیں۔ قائد اعظم کی ایمبولینس خراب ہونے ،شہید ملت پر گولی چلنے اور حسین شہید سہروردی کی سزائوں سے لے کر آج تک ہم بھٹکے ہوئے مسافروں کی طرح اپنی منزل کی تلاش میں سرگرداں نظر آ رہے ہیں۔ میرے خیال میں ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم کچھ کرنے سے پہلے حکمت عملی نہیں بناتے حکومت چلانے کے طور طریقے پر آپ نظر ڈالتے جائیں کہ کس طرح حکومت بغیر سمت کے تعین کئے روز مرہ اصولوں پر اور کل کی فکر کئے بغیر چلائی جاتی رہی ہے۔ ہاں مایوسی ہے پروفیشنلز ملک چھوڑ رہے ہیں نوجوان مستقبل کے متعلق متفکر ہیں۔ معاشی اور سیاسی صورتحال پر ضخیم کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن پھر بھی ہمیں صورتحال کو پرامید انداز سے دیکھنا چاہیے جو ہر آدھے بھرتے ہوئے پانی کے گلاس کو آدھا خالی دیکھتے ہیں وہ مایوس اور منفی رجحان کے ساتھ ساری صورتحال کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جبکہ اس کا متبادل یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ گلاس کے بھرے ہوئے حصے پر نگاہ رکھی جائے اور خالی حصہ بھرنے کی کوشش کی جائے۔ہمارے صاحب اقتدار اور اختیار لوگوں کو ہر وقت یہ احساس رہنا چاہیے کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے ایک بات اور یاد رکھنے کی ہے کہ ایسے ملک موجود ہیں جہاں جمہوریت ناکام ہو رہی تھی کیونکہ وہ ان ممالک کی ضروریات پوری نہیں کر پا رہی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ 75سال قبل آزادی کی جو شمع روشن ہوئی تھی اس کی لو مدھم کیوں ہوتی چلی گئی۔ انتشار مایوسی کرپشن اور نفرت روز مرہ کا معمول بن چکی ہے ہم اپنا اعتبار کھو چکے ہیں ،ہم اپنا فخر وقار اور احترام کھو چکے ہیں۔ہمیں اس کا جواب تلاش کرنا چاہیے کہ کیا قائد اعظم نے ایسی ہی جمہوریت کا خواب دیکھا تھا۔