وطن عزیزانہونیوں کی زدمیں ہے۔سب اپنااپناکھیل رہے ہیں کوئی دوسرے کوگنجائش دینے کو تیارنہیں۔ہم نے 90کی دہائی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔تاہم سیاسی قوتوں کوالجھنے سے کیاملا۔جمہوریت کااصول تویہ ہے کہ اکثریت کی بات مانی جائے اوراقلیت کوبات کرنے دی جائے۔شخصیات اورادارے اپنی اپنی غلطیوں کااحساس کریں۔اگرہم ایک دوسرے کاگریبان پھاڑتے رہیں گے تورفوگیری کون کرے گا؟سنبھلنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔اگرآپ کومجھ سے اتفاق نہیں توپھراس سوال کاجواب تلاش کریں کہ اس وقت ہم ایڑھیاں کیوں رگڑرہے ہیں ہم کم وبیش تین دہائیوں سے اقوام عالم کے چوک وچوراہوں پربھیک مانگنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پارہے ۔سماجی اورمعاشرتی طورپرہم غیریقینی کے دلدل میں پھنسے جا رہے ہیں اسٹیبلشمنٹ عدالتی فیصلوں کے مخمصے میں الجھی ہوئی دکھائی دے رہی ہے ۔پورانظام کسی اسکرپٹ رائٹریاڈائریکٹرکے ذریعے چلتانظرآرہاہے۔یہ تحریر تو دیوار پر صاف لکھی نظرآرہی ہے کہ 9مئی کے بعدترتیب پانے والی ریڈلائن اب کسی کو کراس کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جو کوئی اداروں کو تضحیک کانشانہ بنائے گا،اس کے لیے لغت میں کوئی معافی نہیں۔صلاح مشوروں اور سوچ بچارکی کشمکش جاری ہے۔ گزشتہ چندسالوں میں سیاسی بساط پرجوبازیگری ہوئی ہے، اسی کاخمیازہ قوم بھگت رہی ہے، ذرامڑکرتاریخ پر نظرڈالیں شیخ مجیب کے خلاف کارروائی میں بھٹوپیش پیش تھے۔مشرقی پاکستان میں آپریشن شروع ہوا تو بھٹو نے کہا شکر ہے پاکستان بچ گیا، پھر بھٹوخودپھانسی کے پھندے پرجھول گئے۔بے نظیرکواقتدارتک پہنچنے کے لیے سفیدجھنڈا لہرانا پڑا۔کیا تاریخ کے یہ باب اورتجربات آج کے سیاسی رہنماؤں اورفیصلہ سازوں کودعوت فکرنہیں دیتے آ ج صورتحال یہ ہے کہ نوازشریف کی قانونی گرہیں کھل رہی ہیں اورعمران قانونی بھول بھلیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ضمانتیں اورسہولتیں بتارہی ہیں کہ نئے الیکشن کاشہسوارچن لیا گیاہے، بیدخل کئے گئے نوازشریف کی واپسی کیاکسی نئے منظرنامے کااشارہ تونہیں ہے، یہ بھی درست ہے کہ وہ اس وقت سیاسی بساط بچھانے میں مصروف ہیں، ان کاسیاسی کریئرریاستی اداروں سے ان گنت ٹکراؤ کامجموعہ ہے،انہیں اندازہ ہے کہ غلطیوں کے حساب کا وقت الیکشن کی صورت میں آئے گا۔ایسا لگتا ہے کہ وہ فیصلہ سازوں سے رابطہ میں ہیں، انہیں انتخابات کے انعقادکاپتہ ہے انہیں یہ بھی اندازہ ہے کہ وہ کن حالات میں ملک سے باہرگئے تھے۔ جنرل باجوہ ایک اورسابق وزیراعظم کی موت کابوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہ تھے اورعمران خان کے ساتھی انہیں مشورہ دے رہے تھے اس وقت کی وزیرصحت نے وزیراعظم سے کہا تھا۔نوازشریف کوجانے دیں وہ واقعی بہت بیمار ہیں پھرڈاکٹر فیصل سلطان نے بھی اس کی تصدیق کی تھی۔اس لیے یہی وہ وقت ہے شخصیات اورادارے اپنی اپنی غلطیاں مانیں ایک طبقہ فکرکاخیال ہے کہ ماضی پرلکیرکھینچ کرگاڑی آگے چل سکتی ہے لیکن جوکچھ چل رہا ہے اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ آپشن زیرغورنہیں، میں تو کہتا ہوں کہ چلیں خودآپشن تلاش کرلیں لیکن یہ توحقیقت ہے کہ سنبھلنے کے علاوہ اورکوئی آپشن نہیں۔کیا یہ ممکن نہیں کہ کسی بھی مخصوص اصول کے تحت سب کسی بھی ایک دائرے میں اکٹھے ہو جائیں، اپنی اپنی غلطیاں تسلیم کریں اوران سے سبق سکھیں اگرتمام فریق اس ایک نکتہ پراکٹھے ہو جائیں کیونکہ یہ ایک سب سے بڑی سچائی ہے کہ غلبے کی جبلت انسان کواس طرح پامال کرتی ہے کہ وہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔ دنیا کی تاریخ ناجانے کتنی بار اس بات کی گواہی دے چکی ہے، خطابت اورسیاست شانہ بشانہ چلتے رہتے ہیں، مجھے تویوں لگتاہے کہ ہمارے سیاسی اکابرین کے دکھ بھی عجیب ہیں اورسکھ بھی عجیب ہیں، اس لیے یہ سب نے دیکھا ہے کہ جب کسی نے اپنی اناکے پہاڑ پر کھڑے ہوکرسیاسی قوت کے بل پر ریاست کو چیلنج کیاتوان کی کلائی موڑ دی گئی، اسلیے میں کہتا ہوں کہ مقبولیت کا زعم بسااوقات انسان سے کسی بڑی غلطی کاارتکاب کرادیتاہے۔سیاست میں عمل اورردعمل ہمیشہ ایک ساتھ ہوتے ہیں، پاکستان کی سیاست تاریخ میں اسکرپٹ ایک جیسا ہوتاہے کرداربدل جاتے ہیں، میں توحیران ہوں کہ عمران کادم بھرنے والے انقلابی کس طرح معافی نامہ لکھ رہے ہیں، ہجوم درہجوم ہر کوئی انقلابی بن بیٹھا تھا اور بارودکو تیلی دکھانے کاشوق پوراکررہاتھا۔اب یہ انقلابی دم دباکربھاگ رہے ہیں، عمران کی پہاڑ جیسی اناانہیں زمین پرقدم رکھنے نہیں دے رہی ہے، جیل کے ایک سیل میں گزشتہ کئی ماہ سے قیدکے دوران وہ ضرور سوچتے ہوں گے، وہ عوامی حمایت کی جس کیفیت سے گزرے ہیں، اس نے ان سے Blunderکروادیے ہیں، مجھے تویوں لگتاہے عمران نے پوری سینجیدگی سے پاکستان کی سیاسی سفرکو نہیں پرکھا۔آپ دیکھ لیں اپنی گرفتاری سے پہلے وہ ایک طرف مقتدرہ سے لڑنے پر کمربستہ تھے اور دوسری طرف آرمی چیف جنرل عاصم سے ملاقات اور گفتگو کے خواہاں تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ فوج کے تمام درجوں میں ملک کے ساتھ وفاداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، فوج میں نچلے رینکس کے افراد اپنے کمانڈروں کے احکامات بغیر حجت اور سوال کے بجا لاتے ہیں اور اعلیٰ کمان کی سطح پر ملک کی حفاظت ایک مشترک مقصد کے ساتھ احساس وفاداری ہوتا ہے۔ فوج ایک منظم ادارے کے طور پر کام کرتی ہے۔ اس کا بنیادی کام ہی ملک کی سلامتی کا دفاع کرنا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف ایسے فوجی حکمران رہے۔ جنہوں نے مارشل لاء کی طاقت کے ساتھ ملک پر حکمرانی کی۔ ایوب خان کے دور میں پاکستان نے اتنی زیادہ اقتصادی ترقی کی جتنی پہلے کبھی نہیں کی تھی لیکن اسی کے ثمرات عوام تک اتنے نہیں پہنچے جتنے پہنچنے چاہییں تھے۔ بجائے اس کے دولت چند نئے صنعتکاروں کے ہاتھ میں جمع ہو گئی۔ شروع میں یہ بیس خاندان تھے بعد میں بائیس ہو گئے۔ (جاری ہے)