خبر ہے کہ 34 روپے اضافے کے ساتھ پیٹرول کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی میرے عام پاکستانیوں کی زندگیاں تاریخ کی بدترین بدحالی سے دوچار ہیں۔ پٹرول کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں اور پاکستان کا ایک بڑا طبقہ جو مہنگائی کے تھپیڑوں میں بھی کسی نہ کسی طرح اپنے حالات کا بھرم رکھے ہوئے تھا ،اپنی سفید پوشی کا پردہ رکھے ہوئے تھا اب اس دھکے سے سرکتا ہوا غربت کی لکیر کے نیچے لڑھک گیا ہے۔سخت گرمی اور حبس میں تھری پیس سوٹ پہننے والے حکمرانوں کو کیا خبر کیا خط غربت کے نیچے زندگی کیسے بسر ہوتی ہے۔پیٹرول کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی تمام چیزوں کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہیں۔ اشیائے ضروریہ کا مطلب بھی اہل اختیار اور اہل اقتدار کو کہاں سمجھ میں آتا ہے۔ اس کے لیے سہانا خواب یہی ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اس کی پہنچ میں رہیں۔ اس کی جیب میں اتنے پیسے ہوں کہ وہ مہینے بھر کا آٹا خرید سکے۔دالیں گھی چینی سبزیاں اس کی جیب پر بھاری نہ ہوں۔ وہ اپنے بچوں کو دو وقت کی مناسب پیٹ بھر روٹی کھلا سکے۔بیماری سستی میں دوا دارو کر سکے۔یہ نہ ہو کہ بخار کی گولی بھی اس کی سے دور ہو جائے۔بچوں کو مناسب سکول میں پڑھا سکے سکول کی فیس اور سکول وین کا کرایہ دینے کے پیسے ہوں۔80 فیصد عام پاکستانیوں کے خواب اور خواہش کے دائرے بس زندگی کی انہی بنیادی ضرورتوں کے گرد گھومتے ہیں۔ لیکن اب حالات یہ ہیں کہ زندگی ایک عام پاکستانی کے لیے ڈراؤنا خواب بن کے رہ گئی ہے۔پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کے ساتھ زندگی کی تمام ضروری اشیا کی قیمتیں جڑی ہوئی ہیں۔ جیسے ہی پیٹرول اور ر ڈیزل کی قیمت بڑھتی ہے زندگی مہنگی ہو جاتی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل ائے دن بڑھتا ہے مہنگائی روز بڑھتی ہے مگر آمدنی تو وہی کی وہی ہے۔ عام پاکستانی کی جیب ہلکی سے ہلکی ہوتی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ زندگی بھاری سے بھاری۔خاکم بد ہن لوگ زندگی کے اس بھاری پتھر سے جان چھڑانے کے لیے خودکشیوں کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ پچھلے دنوں یہ خبریں تواتر سے آنے لگی تھیں ، خیال تھا کہ شاید کوئی اہل دل بھی اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہو اور وہ اس سنگین مسئلے کی طرف توجہ دلائے۔ یہ ظلم کی آخری حد ہے کہ حکمران طبقہ سرکاری خرچ پر پرتعیش زندگی گزارے۔لاکھوں روپے کے مشاہرے سرکاری خزانے سے حاصل کرے بجلی کے ہزاروں یونٹس اسے مفت ملے ہوں۔وہ اپنے گھر کے 15 ایئر کنڈیشن سرکار کے کھاتے پر چلائے اور غریب ایک پنکھا اور ایک بلب کے بھی 15 ہزار ادا کرے۔ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اتنا غم و غصہ ہے اتنی بے بسی کا احساس ہے کہ اظہار کے لیے لفظ ختم ہو جاتے ہیں۔ اپنے کالم میں لکھا تھا کہ جو کچھ اہل اختیار اور مقتدرہ کے مقدس اور غیر مقدس ایوانوں کو جو ہم کہنا چاہتے ہیں وہ تہذیب کے دائرے میں کہنا ناممکن محسوس ہوتا ہے۔یقین کیجئے لوگ جھولیاں اٹھا کر حکمرانوں کو بد دعائیں دے رہے ہیں۔ اب یہ حکمران کسی خاص سیاسی جماعت تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ وہ آدم خور مخلوق بے جو 76 سالوں سے پاکستان پر حکمرانی کر رہی ہے۔ وہ لوگ جن کے حالات پاکستان کے ہر دور میں بہترین رہے ہیں اور جن کے لیے پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جہاں ان کے کاروبار بینک بیلنس دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہے۔ان کی وجہ سے آج ملک کے یہ حالات ہوئے ہیں ۔پٹرول کی قیمت کا بڑھنا یا مہنگائی کا پیدا ہونا ،سبھی ماضی کے حکمرانوں کیا کیا ہوا ہے ۔16مہینوں میں پی ڈی ایم نے جو معیشت کے ساتھ کیا ہے ،اس کے اثرات اب سامنے آ رہے ہیں ۔ یہ دو فیصد اشرافیہ کا طبقہ پاکستان کی 80 فیصد دولت پر قابض ہے۔یہی طبقہ حکومتوں میں ہے چہرے بدل بدل کر مختلف سیاسی جماعتوں کے نام سے آتا ہے لیکن اندر سے یہ ایک ہی مخلوق ہے جسے پاکستان اور عام پاکستانی کے دکھ درد کا اندازہ نہیں۔ یہ کالم نہیں پریشان خیالی کا اظہار ہے۔ہماری ماضی کی حکومتوں کا نوحہ ہے۔عام آدمی کی حالات زار کایہ عالم نہیں ایک نوحہ ہے عام آدمی کے حالات زار کا جو ایک ایسے نظام میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے جس کی بنیاد کرپشن بددیانتی ظلم اور ہوس پرستی پر ہے۔یہ کالم نہیں پاکستان اور پاکستانیوں کی بدقسمتی کا ماتم ہے۔ پاکستان کو اللہ نے وسائل کی بے پناہ دولت سے نوازا چار موسموں کی خوبصورتیاں عطا کی لیکن اس کی قسمت میں ماضی قریب اور بعید میں بددیانت اور ہوس پرست ایسے حکمران آئے ہیں ۔ جو دلوں کی جگہ سنگ اٹھائے پھرتے ہیں ۔اب ایک بار پھر ملک کو لوٹنے کے لیے آ رہے ہیں ۔ یہ کالم نہیں ایک ایسی مملکت کی کہانی ہے جہاں اہل اقتدار اور اہل اختیار طبقہ عیش و عشرت میں بسر کرتا ہے۔اور اور غریب بھوکا پیاسا پیٹ بھر روٹی کو ترستا ہے۔یہ بدبے حس سیاستدان ہر بار پیٹرول بڑھانے کے بعد اس کا ملبہ آئی ایم ایف پر ڈالتے ہیں۔ان عالمی مالیاتی اداروں پر بھی حیرانی ہے جو ہر بار عوام کا خون نچوڑنے کی ہدایات جاری کرتے ہیں اورعوام کے خون پر پلتے ہوئے ان طفیلیوں پر خزانے سے ملنے والی مراعات پر پابندیاں کیوں نہیں لگاتے۔ان کی عیاشیوں کے دروازے بند کیوں نہیں کرتے،پاکستان پر اس وقت عالمی مالیاتی اداروں کی حکمرانی ہے اور یہ جہاں بھی گئے معاشی بربادی اور تباہی کی ایک داستان چھوڑ کر آئے۔پاکستان کی بد قسمتی کہ یہاں بے رحم اوربے حس لوگ حکمرانی کرتے ہیں، جنہوں نے اس مملکت کو اور اس مملکت کے پیارے لوگوں کے حالات کو زوال اکی اس ڈھلوان تک پہنچایا۔ معذرت آج کالم نہیں لکھا، بس ماضی کے حکمرانوں کی عوام دشمنی کا نوحہ لکھا ہے ۔