ایران کا آتش کدہ ایک ہزار سال سے روشن تھا۔کبھی بجھا نہ تھا۔اور پھر کائنات کا سب سے مبارک لمحہ آیا۔کواکب ٹوٹے، شیاطین رجم ہو گئے۔ گرجے اور یہودیوں کی عبادت گاہیں گر پڑیں۔ ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سواء پرستش کی جاتی تھی اپنی جگہ سے ہل کر تہہ و تیغ ہو گئی۔ساحروں اور کاہنوں کے حساب کتاب زیر و زبر ہو گئے۔اُن کے معبود شیاطین محبوس ہو گئے۔ایوانِ کسریٰ ہل گیا اور اس کے تیرہ کنگرے گر پڑے۔آتش پرستوں کا جو عالم اور حکیم ہوتا تھا اسے موبذان کہتے تھے۔ اُس نے خواب دیکھا کہ عربی اُونٹ سرکش گھوڑوں کی قیادت کر رہے ہیںاوریہ دوڑتے دوڑتے دجلہ کو عبور کر کے شہروں میں پھیل گئے ہیں۔اس بات نے کسریٰ کے بادشاہ نوشیرواں کو مضطرب اور خوفزدہ کر دیا۔اُس نے عرب کے سب سے بڑے منجم اور کاہن کی تلاش میں اپنے لوگ چاروں طرف دوڑا دیے۔پتہ چلا کہ وہ دمشق میں ہے اور قریب المرگ بھی۔نوشیرواں کے قاصد نے اُس کوکنگروںکے گرنے،آتش کدہ کے بجھنے اور موبذان کے خواب کا احوال بتایا۔کاہن نے بڑی دھیمی آواز میں اس کی تعبیر بتاتے ہوئے۔۔۔ سرکارِ دو جہاںؐ کی اس دنیا میں آمد کی خبر دی۔یہ بھی بتایا کہ آخری نبی اور پیغمبر کی آمد عرب کے قبیلہ قریش میں ہو گی۔عبدالمطلب قریش کے معزز سردار تھے۔ایسے سردار جو قحط میں مخلوق کو کھانا کھلاتے تھے یہاں تک کہ پہاڑوں میں پرندوں اور جنگلی جانوروں کو بھی۔قریش حضرت عبدالمطلب کو ابراہیم ثانی کہتے تھے۔جب عبدالمطلب نے آب زم زم کیلئے کنواں کھودنے کا اعلان کیا تو قبیلے نے تعاون سے انکار کر دیا ۔اس وقت صرف ایک ہی بیٹا تھا ،حارث۔دِل گرفتہ ہوئے۔منت مان لی اللہ کے حضور۔اگر اللہ مزید دس بیٹے دے اور وہ میری زندگی میں ہی پروان چڑھ جائیں تو ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کر دوں گا۔زم زم دریافت ہو گیا۔دس بیٹے بھی عطا ہو گئے۔ایک رات خواب میں کسی نے کہا ۔۔تم نے اللہ کے ساتھ جو وعدہ کیا ہے ،اُسے پورا کر کے قربانی دیں۔گھبراکر بیدار ہوئے ،ایک مینڈھا ذبح کر دیا۔خواب میں پھر کہا گیا،جو سب سے مفید ہے وہ قربان کر۔آپ قربانی دیتے گئے مگر خواب مسلسل آتا رہا اور کہا گیا کہ بیٹا قربان کر۔سب بیٹوں کے ناموں کی پرچیاں ڈالیں۔جو نام نکلا،وہ تھا۔ عبداللہ۔آقا کے والد کا نام۔ عبدالمطلب گھبر اگئے۔دوبارہ قرعہ نکالا اور نام پھر وہی نکلا۔ عبداللہ۔پھر حضرت عبداللہ کے نام کے ساتھ،ایک پرچی پر اونٹوں کی تعداد لکھی جاتی اور ہر بار نام نکلتا، عبداللہ۔یہاں تک کہ اونٹوںکی تعداد100تک پہنچی تو پھر قرعہ اونٹوں کے نام نکلا۔ اط طرح یہ قربانی قبول ہوئی۔یہ 100اونٹ۔۔۔انسانوں نے، درند، پرند اور چرند سب نے کھائے۔مگر حضرت عبد المطلب نے یہ قربانی نہ خود کھائی۔۔نہ اپنی اولاد میں کسی کو کھانے دی۔ حضرت عبد اللہ آقا دو جہاں کے والد تھے۔اِن کی وفات نبی پاکؐ کی پیدائش سے دو ماہ قبل ہو گئی۔آقاؐ خود فرماتے ہیں کہ میری والدہ نے خواب میں دیکھا کہ اُن کے اندر نور پل رہا ہے۔ماہِ ربیع الاول کی دس راتیں گزریں تو سوموار کے دن آپ کی ولادت ہوئی۔22اپریل570ء کے دن،صبح صادق کے وقت۔جب بی بی آمنہ کا یثرب میں انتقال ہوا تودادا نے یتیم پوتے کو گلے سے لگا لیا۔12سال کی عمر میں اپنے چچاحضرت ابو طالب کے ساتھ تجارت کے تربیتی کورس پرعازمِ سفر ہوئے۔18سال کی عمر میں اکیلے تجارت شروع کر دی اور امین کے لقب سے مشہور ہو گئے۔مکہ کی ایک تاجر خاتون حضرت خدیجہؓ نے بھی آپ کے ذریعے سامانِ تجارت بھیجنا شروع کر دیا۔آپؐ کی ایمانداری حضرت خدیجہؓ کیلئے حیران کن تھی۔حضرت خدیجہؓ 40سال کی تھیں،بیوہ تھیں۔قریش کے کئی اشراف آپ کو عقد کا پیغام دے چکے تھے۔مگرآپ نے اپنی قریبی دوست نفیسہ کے ذریعے آپ ؐ کو عقد کا پیغام دیا۔آپؐ نے اپنے چچا(ابو طالب) کو مطلع کیا۔عقد ہو گیا۔آپؐ کا رنگ سفید،چہرہ خوبصورت،قد نہ زیادہ طویل نہ پست۔سر بڑا،سیاہ بال گھنگریالے،کشادہ جبیں، بھنویں بالوں سے بھر ہوئی ۔ بھنوئوں کے اندرونی کنارے ایک دوسرے سے پیوست۔آنکھیں سیاہ اور بڑی بڑی۔لمبی اور سیاہ پلکیں۔ ناک ستواں اور سیدھی۔دانتوں میں ریکھیں جیسے باریک سا خط کھینچ دیا گیا ہو۔ریش گھنی،گردن لمبی مگر خوبصورت، سینہ کشادہ۔ہاتھ کی ہتھیلیاں اور پائوں کے تلوے نرم اور گداز۔چال میں اعتدال جیسے ہر قدم اپنی جگہ جما ہو اور چہرے اور شخصیت میں متانت اور سنجیدگی۔ آپؐ اکثر مکہ سے دو میل دور ایک غار میں چلے جاتے۔جب آپ ؐ کی عمر چالیس سال ہوئی تو مورخین کے مطابق جبرائیل پہلے ہفتے کی شب اور پھر اتوار کی شب آپؐ کے پاس آئے۔پھر سوموار کے دن رسالت کے ساتھ آپؐ کے پاس آئے۔ایک روایت کے مطابق یہ جمعہ کا دن تھا اور 20رمضان۔اپنی کتاب میں خالقِ کائنات کہہ رہاہے"ہم نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا "۔سورۃ یونس میں ارشاد ہے"میں نبوت سے پہلے تم لوگوں میں ایک عمر بسر کر چکا ہوں۔۔۔کیا تم نہیں سمجھتے"؟۔آپ خُلق عظیم کے مالک تھے۔درویش کے مطابق"نبوت اخلاق کا نتیجہ نہیں۔۔اخلاق نبوت کی عطا ہے"۔آپؐ اکثر دعا فرماتے اے اللہ مجھے مسکین زندہ رکھ،مسکین اٹھا اور مسکینوں ہی کے ساتھ میرا حشر ہو۔آپؐ کا ارشا دہے'' میں تب بھی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان تھے"۔آپؐ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو حضرت خدیجہؓ نے جن الفاظ میں آپؐ کو تسلی دی وہ آپ کی شخصیت کا مرکزی پیغام ہے۔"آپ عزیزوں اور رشتہ داروں سے حُسن سلوک کرتے ہیں۔بے کسوں اور غریبوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اُسے دیتے ہیں۔مہمانوں کی توضع کرتے ہیں۔حق کے مددگار ہیں۔آپؐ صادق القول ہیں"۔ایک صحابی فرماتے ہیں،آپؐ نے کبھی کسی کو نہیں کہا"تم نے ایسا کیوں کیا اور ایساکیوں نہ کیا"۔ یہ روزِ کُن سے بھی پہلے زمانے کی کہانی ہے دو عَالم میں مُحمدؐ کانہ تھا ثانی۔۔نہ ثانی ہے فنا زیرِ قدم۔۔۔اُن کی بقا پر حکمرانی ہے محمدؐ کے غلاموں تک کی ہستی جاودانی ہے …… یہی چہرہ نشانِ وجہہ اللہ ورنہ رکھتا ہے کیا خُدا چہرہ