ہم جب بھی اپنی سیاسی معاشرتی، سماجی، تمدنی اور اختیار و اقتدار کی داستان بیان کرنا شروع کرتے ہیں۔ شرمندہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ہم کب تک اپنے کئے کی عدالت میں کھڑے ہو کر یہ پشیمانیاں سمیٹتے رہیں گے۔ بات یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ ہم سب انسان ہیں ہم لغزش کے مرتکب ہو سکتے ہیں اور چھوٹی بڑی غلطیاں بھی کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ماضی کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے، ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے اور اپنے مفادات کے لیے باقی سب کچھ تہہ و بالا کرنے پر تلے رہے۔ اگر ہم باہم چپقلش اور ٹکرائو کے راستے پر یونہی چلتے رہے جس پر چلتے ہوئے ہم بہت کچھ گنوا بیٹھے ہیں اور جو کچھ بچا ہے اسے سمیٹنے کے بجائے راستے پر سرپٹ دوڑتے رہے تو ہم بائیں، دائیں آنے والی کھائیوں میں کسی حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کیا اس سے بہتر نہیں کہ ہم ماضی کی سلیٹ پر تمام تحریروں کو مٹا دیں۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب قوموں نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنی تمام کوتاہیوں، غلط فیصلوں اور طرز زندگی میں پے در پے ناکامیوں کا بوجھ ایک دوسرے پر تھوپنے کے بجائے اس کا بوجھ مشترکہ طور پر اٹھایا اور آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کیا۔ جوش کے بجائے ہوش سے کام لیا تو پھر ہم کیوںسبق حاصل کر کے غلطیاں معاف کر کے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے ،مشترکہ تدبیر کو یکجا کرنے اور باہم فکر و دانش سے کوئی ایسی راہ تلاش نہیں کر سکتے۔ کوئی مشترکہ روڈ میپ نہیں بنا سکتے۔ ابھی بھی ہمارے پاس مہلت ہے۔ ابھی زیادہ تاخیر نہیں ہوئی ہے۔ وقت کا کوئی نہ کوئی سرا ہمارے ہاتھ میں ہے۔ دیکھیں ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں ہمارے اعمال نامے ہمارے سامنے ہمارا منہ چڑا رہے ہیں۔ ہم سب مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ سنت رسولﷺ کی بات کرتے ہم تھکتے نہیں لیکن کبھی ہم نے کسی ایک شہر میں ایک صوبے میں ایک علاقے ایسے کسی نظام اور ریاست کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی جس میں امن ہوتا، روزگار ہوتا، سکون ہوتا، خوشحالی ہوتی، علم ہوتا اور دنیا کی تمام سہولتیں لوگوں میں مساوی تقسیم ہوتیں۔ یہ تجربہ ہم کسی چھوٹے سے شہر میں کر کے دیکھتے تو آپ اندازہ لگائیے کہ اسے پشاور سے کراچی اور کراچی سے کوئٹہ پہنچنے میں کتنی دیر لگتی۔ آپ کسی چھوٹے سے شہر کو کرائم فری شہر بنا دیتے۔ متمدن اور پرسکون علاقہ بنا دیتے تو یقین جانئے کہ اسلام کے تمام داعیوں کا سر بھی فخر سے بلند ہوتا اور یہ ماڈل بھی آگے بڑھتا لیکن آپ خود دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں ہم کراچی جیسے شہر کو صرف ایک صاف ستھرا شہر نہ بنا سکے۔ اسے کرائم فری نہ کر سکے۔ ہم نے ناکارہ کیمرے لگا کر قوم کو خوشخبری ضرور دی کہ کراچی کو اب کرائم فری بنایا جا رہا ہے۔ مبارک ہو حکمرانوں اور باتدبیر لوگوں کو کہ آج سب سے زیادہ کرائم کراچی میں ہوتا ہے۔ ملک میں سب سے زیادہ غیر قانونی اسلحہ کراچی میں موجود ہے۔ یہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں کے صف اول میں ہے۔ پاکستان کے سب سے زیادہ وسائل اور مواقع کے حامل شہر کو جس بے رحمی اور اناڑی پن سے چلایا جا رہا ہے اس کی گواہی یہاں کے درودیوار اور یہاں پر بسنے والا دے رہا ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ اس شہر کی آبادی کس رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ ان کے لیے صاف پینے کا پانی، اچھی ٹرانسپورٹ، معقول تعلیمی نظام، صحت عامہ کی سہولتیں، سستی اور عام لوگوں کی قوت خرید کے مطابق رہائشی سہولتیں یہ تمام باتیں یہاں کی حکومت کی ترجیح نہیں ہیں۔ اس لیے یہاں ہر شعبے میں مافیاز بن گئے ہیں جنہیں با اثر سیاسی اور با اختیار لوگوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ یہی حال پورے ملک کا ہے۔ عام لوگ مایوس ہو گئے ہیں۔ یہ کتنی حیرانگی کی بات کہ یہ بات اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج نے کہی تھی جو بعد میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر بھی بنے۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کا کرپٹ ترین ادارہ ’’عدالتیں‘‘ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تم عام سے عام سول جج کا لیونگ اسٹینڈرڈ دیکھو پاکستان کے بڑے بڑے کاروباری لوگ اس کا تصور نہیں کر سکتے۔ تم ججوں کے بچوں کے تعلیمی ادارے دیکھو۔ کوئی ایماندار آفیسر اتنی فیس ادا نہیں کر سکتا۔ تم عدالتی اہلکاروں کی بیویاں دیکھو بڑے بڑے امیر لوگوں کی بیویاں اتنے قیمتی زیورات نہیں پہن سکتیں تم ان لوگوں کے گھر دیکھو۔ یوں لگے گا جیسے کسی شہزادے کے محل میں آ گئے ہیں۔ یہ رزق کی فراوانی کہاں سے آتی ہے۔ یہ من و سلویٰ کیونکر اترتا ہے وہ کہنے لگے کہ اس ملک میں کوئی سوچتا ہے کسی نے بھی کبھی تحقیق کی کسی نے اس پر غور و فکر کی زحمت گوارا کی۔ یہ بات انہوں نے صدر بننے سے پہلے کہی تھی کتنی دہائیاں گزر گئیں آج بھی یہ بات تازہ لگتی ہے موجودہ حالات پر منطبق آتی ہے۔ وہ اس وقت کہہ رہے تھے جب تک پاکستان کا عدالتی نظام درست نہیں ہوتا۔ احتساب کا آغاز ججوں سے نہیں ہوتا۔ یہ ملک نہیں چل سکتا۔ جب وہ یہ بات کہہ رہے تھے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سامنے بیٹھا ہوا یہ باریش اور نہایت ہی سادہ شخص جس کے ماتھے پر محراب کا نشان اور جس کے پائوں میں قینچی چپل تھی محض ایک سال بعد اس ملک کا صدر ہو گا۔ افواج پاکستان کا سپریم کمانڈر ہو گا اور انہوں نے کہا تھا کہ جہاں انصاف نہیں ہوتا وہاں کوئی قانون نہیں ہوتا۔ قانون تو پانی کی طرح ہوتا ہے اگر وہی زہریلا ہو تو فصلیں کیسے صحت مند ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ تاریخ میں وہی حکمران زندہ رہتے ہیں جو قانون بناتے ہیں جو مظلوموں کے آنسو پونچھتے ہیں جو ظالم کا راستہ روکتے ہیں اور یہ بات بھی انہوں نے ہی کہی تھی کہ جس ملک کا سیاستدان بددیانت ہو حکمران لالچی ہو، دانشور چور ہو اور جج کرپٹ ہو۔ اس ملک کے قائم رہنے کا کوئی جواز نہیں ہوتا اور اس وقت آپ ہی نے کہا تھا کہ قدرت ہمیں اصلاح کا موقع ضرور دے گی۔ ہم سنبھل گئے تو ہماری اولادیں ایک خوشحال پاکستان دیکھیں گی۔ بصورت دیگر وہ خاموش ہو گئے تھے۔ سوشل میڈیا پر ہر ایک کا حمایتی اپنے اپنے راگ الاپ رہا ہے۔ حقائق سے زیادہ ہشات کا عمل دخل ہے۔ کچھ لوگ بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ انتخابات جب بھی ہوں اور اس کے نتائج جو بھی نکلیں۔ جیتنے والے طربیہ نغمے گائیں گے اور ہارنے والے نتائج کو نہ مانتے ہوئے احتجاج کی دھمکیاں دیں گے۔ پاکستان میں جمہوری نظام اور انتخابی عمل سے نت نئے تماشوں پر مشتمل یہ سرکس یونہی چلتا رہے گا۔ سیاست کے میدان میں میکس ویل جیسی اننگز کھیلنے والوں کو یقینا احساس ہو گیا ہو گا کہ سیاست اور کھیل کے انداز ایک جیسے ہو سکتے ہیں، نتائج ایک جیسے نہیں ہوتے۔ آئیے آپ اور ہم ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں کہ ہمارے ساتھ کوئی گڑ بڑ تو نہیں ہو گئی۔ ہمارے یہ سارے لیڈر قیادت کے اہل بھی ہیں یا نہیں۔ اگر یہ اہل ہوتے تو اس قوم اور ملک کا یہ حشر نہیں ہوتا۔ آئیے مہلت ختم ہونے سے پہلے سوچیں۔