عصر حاضر کے عارف کا قول ہے: دنیاوی زندگی فانی ہے لہذا دنیا کی فانی زندگی کو آخرت کی دائمی زندگی پر ترجیح دینا حماقت کے سوا کچھ نہیں ۔انسانی فطرت ہے کہ انسان اپنی ذات اور وجود سے محبت رکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ نمایاں ، طاقتور ، غالب اور اقتدار کا حامل ہو۔بہت سی آسائشیں اور بے شمار نعمتیں اپنے دامن میں سمیٹنے۔ لمبی عمر پانے اور تمام کائنات کا محور و مرکز بننے کا آرزومند بھی ۔ اسی بنا پر اس میں بیک وقت محبت اور نفرت دو ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو انسانی نفس اور زندگی کی بڑی وسعتوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے خوف اور امید کی بیک وقت موجودگی انسانی نفس کی وہ پراثر خصوصیات ہیں، جو انسانی زندگی کے بیش تر پہلوئوں پر چھائی ہوئی ہیں۔ اسلام نے جس طرح خوف اور امید کی خصوصیات کو صحیح رخ عطا کیا ہے، اسی طرح انسانی فطرت میں موجود محبت و نفرت کی خصوصیات کو مستحکم کرکے انھیں ہم آہنگی، توازن اور اعتدال بخشا ہے۔ ان کی حقیقی کارکردگی اور عمل کا تعین کیا ہے۔ نفرت کے بیچ بو کر ہم نے اپنا مستقبل تباہ کر لیا۔ ماضی میں ہم انگزیر سے متنفر تھے ۔ اسی نفرت کی بنا پرہم نے سر سید کے تعلیمی فلسفہ پر طعن و تشنیع کی۔نتیجہ سب کے سامنے ۔متحدہ ہندوستان میں ہندو تعلیمی شعبے میں آگے چلے گئے اور ہم چوکیدار اور نائب قاصد بن گئے ۔ انگریز سے نفرت، تعلیم میں پیچھے رہ گئے۔معاشروں میں تنزلی ہمارا مقدر ٹھہری ۔ قائد اعظم ؒ کی قیادت میں طویل جدوجہد کے بعد اللہ تعالیٰ نے الگ وطن دیا، ہم نے بنگالیوں سے نفرت کی ،پاکستان تقسیم ہوگیا، زرداری سے نفرت، نواز شریف سے نفرت، عمران سے نفرت، فوج سے نفرت، معاشرہ تقسیم در تقسیم ۔ خدا کے بندو! کبھی رُک کر سوچوکہ نفرت ایک منفی جذبہ ہے اور منفی جذبے کبھی کسی معاشرے کی تعمیر و ترقی کی بنیاد نہیں بن سکتے ۔نفرتوں کے بیچ خلق خدا مہنگائی سے پس رہی ہے ۔کسی ریڑھی والے اور مزدور سے پوچھیں کہ بجلی کا بل کیسے ادا کیا ؟حکومت نے ایوب خان کے بعد ایک بار پھر سبز انقلاب لانے کا اعلان کیا ہے ۔مگر کیا قوم کی تفریق اور نفرتوں کے درمیان یہ انقلاب برپا ہو سکے گا ؟چین اور سعودی عرب اور عرب امارات کے علاوہ اگر یورپی یونین بھی میدان میں آ جائے تب بھی مشکل ۔جب تک ہم نفرتوں کا خاتمہ نہیں کر سکتے تب تک کسی انقلاب کی امید مت رکھیں ۔ شدید نفرت میں جرمنی اور فرانس جل گئے تھے، آج وہ ایک ساتھ بیٹھے ہیں، ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، کیا ہمارانفرت کا سفر کبھی اختتام پذیر ہوگا؟ہم بھی کسی مثبت سوچ کے حامل معاشرے کی بنیاد رکھ پائیں گے؟کبھی فرصت ملے تو ٹھنڈے دل سے ضرور سوچیں ۔ ہمارا سفر کس سمت جاری ہے ، اس کی منزل کیا ہے؟آج بھارتی روپیہ ہمارے3.40روپے جبکہ بنگلہ دیشی ٹکہ 2.60 پاکستانی روپے کے برابر۔مگر ہم صرف بات پر خوش ہیں کہ واہگہ بارڈر پریڈ میں ہمارے فوجی جوان کی ٹانگ بھارتی فوجی کے مقابلے میںزیادہ اونچی ہوتی ہے۔ جرمنی اور فرانس نے جب نفرت ختم کی ،تو ترقی کی منازل کو چھوا۔آج میرے ملک کا نوجوان ان ملکوں کی شہریت کے لیے ڈنگی لگا رہا ۔مگر ہم اسی پرانی ڈگر پر چل رہے ہیں ۔متعصبانہ سوچ کے علمبردار، نفرتوں کو مٹا کر محبتوں کے بیج بوئیں ، جب ملک نفرت کی آگ میں جل رہا ہو، تو خاموش تماشائی رہنا جرم ہے، حق گوئی کے ذریعے محبتوں کو پروان چڑھانا لازمی ہے۔ قوم و ملک کا درد رکھنے والے تمام محب وطن لوگوں کو آگے بڑھ کر نفرتوں کی آگ بجھانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ماضی میں کراچی سمیت سندھ بھر میں نفرت کو ہوا دی گئی ، ابھی تک بلوچستان اور کے پی کے میں نفرت کی آگ بھڑک رہی ۔پنجاب بچا تھا ،اب اس کا رخ کر لیا گیا ۔سیاستدان اپنے چند برس کے اقتدار کے لیے نفرتوں کی سوداگری کرتے ہیں ۔یہ ملک ہمارا ہے اور ہم نے ہی اسے فرانس اور جرمن کی طرح پر امن بنانا ہے ۔ نفرت کی اس فضاء کے خاتمے کے لئے فی الفور اقدامات نہ کئے گئے تو حالات مزید کشیدہ ہو جائیں گے۔ وطن کی تباہی اور بربادی سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یاد رکھیں !کھیت میں اُگی فصل کی آگ مقدر نہ ٹھہری، تو بھی اس نے کٹ ہی جانا ہے۔جس کے بعد گھاس کا نچلا حصہ اس کی جگہ سنبھالے گا ۔تمہاری سوچ،محبت ،نفرت،بغض،عداوت اور غصہ سبھی اس گھاس کی مانند ہیں۔ گھاس نے بڑھنا ہی بڑھنا ہے ، اگر کوئی سنوارنے والا اسے نصیب ہوا تو اس کی زیبائش ہوتی رہے گی ورنہ طبعی عمر کے بعد خاتمہ یقینی۔اسی طرح اپنی سوچوں کی بھی زیبائش کرتے رہا کریں تاکہ تاریخ کے صفحات میں سنہری لفظوںمیں یاد رکھے جائیں ۔ جس طرح ایک باغ اور ایک جنگل میں فرق صرف ترتیب کا ہوتا ہے، اسی طرح انسان میں بھی محبت اور نفرت کا فرق ہوتا ہے۔ایک فصل نے بڑھنا ہی بڑھنا ہے، نفرت کے دن پرانے ہونے اورمحبت نے سر اٹھانا ہی ہے۔لہذااس قدر دوریاں مت اختیار کریں کہ واپسی ناممکن ہو جائے ۔ اسلام نے محبت و نفرت کے جذبات پر روح اورعقل کے ضابطے قائم کیے ہیں اور ان ضابطوں کو اللہ کی ذات سے منسوب کر دیا ہے۔ محبت ایک طاقتور فطری جذبہ ہے جو انسان کو تعمیروترقی پر ابھارتا ہے۔جبکہ نفرت تباہی اور بربادی کی طرف لیکر جاتا ہے ۔ اس وقت ہمارا ملک بھی ایسے ہی حالات سے دوچار ہے۔جہاں پر محبت پر نفرت بھاری ہو چکی ہے۔اس نے معاشرے کو تقسیم کر رکھا ہے ۔ ہمارا معاشرہ اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے ۔لہذاسماج کے لیے لڑو،لڑ نہیں سکتے تو لکھو،لکھ نہیں سکتے تو بولو، بول نہیں سکتے تو ساتھ دو، ساتھ بھی نہیں دے سکتے تو جو لڑ،بول اور لکھ رہے ہیں ان کی مدد کرو،اگر مدد بھی نہ کرسکو تو ان کے حوصلوں کو گرنے مت دو کیونکہ وہ آپ کے حصے کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔اس وقت جو کچھ ہمارے ملک میں ہو رہا ہے ۔وہ صرف ریس میں جیت کی کوشش ہے ۔یاد رکھیں !گدھے صرف ایک شرط پر ریس جیت سکتے ہیں کہ گھوڑوں کو ریس سے باہر کر دیا جائے۔