میں ٹیلیویژن پر بیٹھا تھا کہ اچانک یہ سوال پوچھ لیا گیا کہ آج احمد فراز کا یوم وفات ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔ مرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ وہ ہمارے وزیر اطلاعات کے والد ہیں۔ فراز سے کم از کم اتنی دوستی ضرور تھی کہ جب آخری بار امریکہ جانے سے پہلے وہ کراچی آئے تو ان کے اعزاز میں جو دو بار دعوتیں ہوئیں‘ ان میں سے ایک میرے گھر پر تھی۔ فقرے بازی سے میں باز نہ آتا تھا۔ اس محفل میں کسی نے زہرہ آپا (زہرہ نگار) سے کہا کہ یہ تو فیض اور فراز کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے فیض کا نام سن کر انہیں خاصا دکھ ہواہو گا۔ وہ تو ایک طرح لندن میں ان کی میزبان تھیں۔ میں نے وضاحت کی کہ جب فیض کا انتقال ہوا تو میں نے فیض پر جو مضمون لکھا‘ اس کا عنوان تھا‘ اردو کا آخری شاعر۔ خیال رہے کہ یہ مضمون نوائے وقت میں شائع ہوا جو اپنے مزاج کے لحاظ سے فیض کا کٹر مخالف تھا۔ کسی کی اہمیت کا قائل ہونا ایک بات ہے اور اس میں ادبی اور تہذیبی حوالے سے عرض کیا تھا کہ میرا فیض پر اس قسم کا اعتراض ہے جتنا اقبال کا حافظ پر تھا۔ یہ تو میں فیض ہی پر رواں ہو گیا ہوں۔ فراز کی طرف پلٹتا ہوں کوئی 45برس پیشتر میں نے کراچی یونیورسٹی کے بھرے پنڈال میں یہ کہہ دیا تھا کہ فراز ٹین ایجر کا شاعر ہے اور انڈر گریجوایٹ شاعری کرتا ہے۔ طلبہ نے اس کی خوب خوب داد دی تو میں اور پھسل گیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار کراچی کی میڈیکل ایسوسی ایشن نے اپنے لان میں ایک مشاعرہ کرایا۔ فراز آئے اور مشاعرہ لوٹ کر لے گئے۔ ان کے جاتے ہی مجمع اکھڑ گیا۔ اتنے میں اسٹیج سے منور بدایوانی کا نام پکارا گیا۔ باریش اور معمر شاعر۔ انہوں نے آتے ہی غزل چھیڑی تھوڑی تھوڑی اور کہ ساقی رات گزرنے والی ہے پل بھر میں گیٹ سے باہر جاتے ہوئے لوگ پلٹے اور مشاعرہ پھر جم گیا۔ یاد آیا کہ ایک بار فیض اور فراز پر بحث ہو رہی تھی۔ غالباً شہزاد احمد کے ساتھ۔ بات یہاں پہنچی کہ فیض بورژ وا تھا اور فراز پیٹی بورژ وا۔بہرحال بورژوا کی اپنی اقدار ہوتی ہیں اور پیٹی بورژوا بیچارہ اپنے ساتھ لڑرہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وضعدار فیض ملک سے باہر بھی گیا تو کبھی اپنے وطن کے خلاف نہیں بولا۔ نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کر چلے بھٹو کے زمانے میں فیض نیف ڈیک کے سربراہ تھے اور فراز غالباً نیشنل بک فائونڈیشن کے۔ دونوں کو گمان گزرا کہ ان کے اداروں میں کچھ مالی بے ضابطگیاں ہوتی ہیں۔ شاید وہ دھر لئے جائیں۔ دونوں ملک سے باہر چلے گئے۔ اس زمانے میں بھی فیض نے یہ وقت بڑی وضعداری سے گزارا۔ فہمیدہ کو تو نہرو یونیورسٹی میں نوکری بھی مل گئی تھی۔ دونوں ضیاء الحق کے زمانے میں ہی واپس آئے۔ جونیجو وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے جب ضیاء الحق سے پوچھا تو صدر نے جواب دیا کہ میں تو ان کو شوق سے سنتا اور پڑھتا ہوں۔ ان کا ملک ہے‘ اپنی مرضی سے گئے تھے اپنی مرضی سے جب چاہیں آئیں۔ اب میں کہوں احمد فراز این آر او ملنے پر وطن واپس آئے تھے تو یہ محض فقرے بازی ہو گی۔ وہ جانے کیوں شمال کے راستے آئے تھے اور غالباً گاڑی کا ایکسیڈنٹ بھی کر بیٹھے تھے۔ شاید واپسی پر نوکری بھی دوبارہ مل گئی اور شاید بقایا جات بھی۔ کالم تمام ہوا مگر مزہ نہیں آئے گا جب تک میں فیض کے بارے میں اپنے دو چار تبصروں کا تذکرہ نہ کروں ،مثلاً میں کہا کرتا تھا کہ اپنے کمزور لمحوں میں مجھے فیض بھی اچھا لگتا تھا۔ یا یہ کہ فیض کاپی اچھی لکھتا ہے مگر پھر میں برسوں یہ سوچتا رہا کہ اچھی کاپی لکھنے اور شاعرانہ ٹریٹ منٹ میں کیا فرق ہے۔ ادب میں یہ سوال بہت اہم ہوتے ہیں۔ یا پھر ایک یہی بچت ہے کہ نسائی غنائیہ شاعری کا ادب میں زیادہ سے زیادہ کیا مقام ہو سکتا ہے۔علی گڑھ والوں نے جس طرح غزل کے عناصر اربعہ کو اہمیت دی اور اپنے شعری شعور سے فراق اور یگانہ تک کو فارغ کر دیا‘ اس کا تہذیب پر کیا اثر پڑتا ہے۔اس کی جدید ترین شکل فیض کی رومانی غنائیت ہے۔ میں شاید ایک نئی شعریات یابوطیقاکی تلاش میں رہا ہوں۔ یہ شاید اپنی تہذیبی روح کی دور جدید میں تلاش ہے ۔اس کی نغمگی نے اردو سے کئی آوازیں چھین لیں۔ پھر انہیں گنواتا تھا۔ غالب نے ’’بھوں‘‘ کا لفظ استعمال کر دیا اور ہمارے مفرس،معرب ذہن نے اس خوبصورت آواز ہی کو غیر شاعرانہ قرار دے دیا: لمبی اور نازک بحث ہے الفاظ ہی نہیںمٹتے ،کیا تصورات بھی چھن جاتے ہیں ۔ جیل کہنا اور بات ہے زنداں کے لفظ میں ایک اور رومانیت ہے۔ آدھا انقلاب تو اس میں نکل گیا۔ الغرض یہ تہذیب کا مسئلہ ہے‘ افراد کا نہیں۔ بہرحال چھیڑ چھاڑ کے لئے دوہرا دوں فراز این آر او لے کر ملک میں واپس آئے تھے۔ کیا خیال ہے آپ کا ۔اور ضیاء الحق ہی کے زمانے میں۔