اختلاف رائے جمہوری نظام کا حسن ہوتا ہے لیکن موجودہ سیاسی ماحول ذاتی مخاصمت میں تبدیل ہو چکا ہے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے تمام ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔جہاں تک حکومتی عمائدین اور برسراقتدار جماعت کا تعلق ہے، سیاسی اختلاف اب ذاتی حملوں تک آ گیا ہے۔ اسی بنا پر یہ قطعاً حیران کن نہیں ہے کہ سیاست پگڑیاں اچھالنے، گالی گلوچ اور انتقامی کارروائیوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ظاہر ہے اس کانشانہ اپوزیشن بنتی ہے کیونکہ بے بس حزب اختلاف کی لیڈرشپ نیب کے تابڑتوڑ حملوں کامقابلہ زبانی طور پر ہی کر سکتی ہے اور حکمران جماعت کو عملی اقدامات سے ترکی بہ ترکی اور موثر جواب دینا اس کے بس میں نہیں ہے۔ ماضی کے کئی ادوار میں بھی اپوزیشن سے اسی قسم کا سلوک ہوتا رہا ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور حکمرانی میں بھی اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگایا گیا جس کی کئی وجوہات تھیں۔ اس دور میں اپوزیشن کے رہنماؤں کی نقل وحرکت پر پابندی معمول کی کارروائی بن چکی تھی۔ ائرمارشل اصغرخان ،نوابزادہ نصراللہ خان اور ولی خان سمیت لیڈرشپ کے خلاف ڈیفنس آف پاکستان رولز کا بے محابہ استعمال بھی ہوتا تھا لیکن بھٹوصاحب کے مشیروںکو ان رہنماؤں کے خلاف کرپشن کے کیسز بنانے کی کبھی نہیں سوجھی اورنہ ہی اس دور کی ان قدآور شخصیات کے خاندانوں کو چھیڑا گیا۔ اس وقت اختلافات کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹوکے غیرجمہوری رویئے تھے لیکن اس سے زیادہ اپوزیشن کی طرف سے بھٹو کوپاکستان توڑنے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا اور ان کی بطور وزیراعظم آئینی وقانونی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکارکرتی تھی۔1988 سے نوے کی دہائی کے اواخر تک مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی بھی کارویہ بھی ایک دوسرے کیخلاف اتنا اچھا نہیں تھا،ایک دوسرے کے رہنماؤں پر لفظی گولہ باری جاری رہتی۔ 2006میں جب لندن جلاوطنی کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تو ان دونوں جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ وہ کسی فوجی حکومت میں شامل ہوں گی اور نہ ہی حکومت میں آنے اور منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے فوج کی حمایت طلب کریں گی۔ اس پر بحث ہو سکتی ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے معاہدے کی رو پر کس حد تک عمل کیا تاہم اس میثاق سے یہ اصول طے ہو گیا کہ سیاسی اختلاف کو ذاتی اختلاف میں تبدیل نہیں کریں گے۔ اس کی ایک مثال 2014میں عمران خان کے دھرنے کے حوالے سے آصف زرداری کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کی مدد کرنا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ نوازشریف نے احسان فراموشی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے بعد میں آصف زرداری کو ذچ کردیا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ایک متنازعہ بیان سے ان سے ناراض تھی۔ آج بھی میاںنوازشریف، شہبازشریف اور دوسری طرف آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے درمیان اعتماد کا فقدان بدستور موجودہے لیکن جس قسم کی زبان حکومتی ترجمان، مشیر اور وزرا اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف استعمال کرتے ہیں اس کی ہماری سیاسی تاریخ میں شاید کم ہی مثال ملتی ہو۔ حکومتی ترجمان جن میں زیادہ تر کا تعلق پنجاب سے ہے اپوزیشن کے رہنماؤں پر رکیک حملے کرتے ہوئے زبان پر قابو نہیں رکھتے بلکہ بیان دینے سے پہلے شاید گھر سے ہی سوچ کر آتے ہیں کہ آج شریف خاندان ،زرداری اور بھٹو خاندان کے خلاف کس انداز سے جگت بازی کی جائے۔عام قاری اور ٹی وی ٹاک شوز کے ناظرین حیران ہیں کہ کیا نئے پاکستان میں اس طرح کے طوفان بدتمیزی کا لامتناہی سلسلہ جا ری رہے گا؟۔ اگرسیا سی فضا کو ذاتی حملوں کے بجائے سیاسی بیانات تک محدود رکھا جاتا تو جمہوری پسند ملک میں مکدر ماحول کا شاخسانہ سمجھ کر درگزر کر دیتے لیکن معاملہ صرف زبانی جمع خرچ تک نہیں ہے۔ میاں نوازشریف ،شہبازشریف کے خاندان، آصف زرداری کے خاندان،ان کی خواتین اور اولادیں سب نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حکمران جماعت نیب کے ان کیسز کو اس طرح جواز فراہم کرتی ہے کہ یہ نواز شریف نے خود بنا ئے تھے، شا ید ایسا ہی ہو لیکن جس انداز سے باقاعدہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپوزیشن کو دیوار سے لگادیا گیاہے اس کی پاکستا نی سیاست میں کم ہی مثال ملتی ہے۔ بعض حکومتی مشیر جیساکہ مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر ہیں کا یہی کام ہے کہ وہ اربوں کھربوں کی کرپشن کی ذمہ دار زرداری اور شریف فیملی کو قرار دیتے ہیں۔ جنرل مشرف کے بنائے ہونے نیب قانون کے تحت ہمارے ملک میں مروجہ قانون کے برعکس ملزم روز اول سے ہی مجرم ہوتا ہے اور کئی برسوں کی پیشیاں، صعوبتیں اورمیڈیا ٹرائل برداشت کرنے کے بعد اگر وہ بے گناہ ثابت ہو جائے تو دنیا ،خاندان اور حلقہ احباب کی نظروں میں وہ پہلے ہی سزا بھگت چکا ہوتا ہے جس کی ایک تازہ مثال ایل ڈی اے کے سابق ڈی جی احد چیمہ ہیں۔ ان پر ایل ڈی اے سٹی کیس میں کروڑوں کی کرپشن کے الزامات لگے اور بالآخرلاہور کی احتساب عدالت نے نیب کی تحقیقات بند کرنے کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں بری کردیا ۔ اس سے پہلے یہی بتایا جاتا تھا کہ وہ شہباز شریف کے فرنٹ مین ہیں۔ خان صاحب یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں مک مکا ہواہے اور یہ بھی کہتے رہتے ہیںکہ وہ کرپٹ اپوزیشن کو این آر او نہیںد یں گے بلکہ کیفرکردار تک پہنچائیں گے لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیتا کہ این آر او کون مانگ رہا ہے اور کس طرح دیا جا سکتاہے۔ اگر ملک میں جمہوری اقدار کو آگے بڑھانا ہے تو حکومت اور اپوزیشن کو ان ناپسندیدہ روایا ت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا بصورت دیگر جمہوریت کی رینگتی ہوئی گاڑی خدانخواستہ پٹڑی سے اتر سکتی ہے۔