گزشتہ دنوں ایک دوست کی وساطت سے جناب سہیل احمد (عزیزی) کا فون آیا ۔ کہنے لگے: مَیں نے سنا ہے آپ نے مزاح میں پی ایچ۔ڈی کر رکھی ہے، مجھے ذرا مزاح کی تعریف تو کر کے دکھائیں! عرض کیا: ’مزاح بہت اچھی چیز ہے، دُکھی دلوں کے لیے ایک طرح کا ٹانک ہے، من کی افسردہ کلیاں کھلانے کا تیر بہدف نسخہ ہے، زبانوں اور رویوں سے لگے زخموں کے لیے مرہم ہے۔معاشرے کا حُسن ہے، دنیا کی ہر زبان کے ادب کی آبرو ہے۔ یہ جہاں، جسے ہمارے فلسفی قسم کے لوگ دارالمحن یعنی دکھوں کا گھر کہتے ہیں، قید خانے سے تعبیر کرتے ہیں، مزاح اسے خوش گوار اور قابل ِالتفات بناتا ہے… مزاح، زندگی کا زیور ہے… مزاح، زیست کی مشکلوں کو آسان بناتا ہے ۔ آسانیوں کوحیرانیوں اور کامرانیوں میں تبدیل کرتا ہے۔ مزاح عطیۂ خداوندی ہے۔ مزاح شخصیت کا نکھار ہے، محفل کا سنگھار ہے، گفتگو کا وقار ہے۔ سچ پوچھیں تو اچھا مزاح خدمت ہے، عبادت ہے، نجات ہے۔‘ فرمانے لگے: ’یہ تو دوسری والی تعریف ہو گئی… مَیں اصل میں Definition والی تعریف پوچھنا چاہ رہا ہوں…‘ عرض کیا، لسان العرب کے مطابق: ’’مزاح ایسی ہنسی کو کہتے ہیں جو خیر اور تلطف پر مبنی ہو۔‘‘ ’اور آپ کے مطابق؟‘ ’میرے نزدیک تو مزاح، معاشرے میںگری پڑی جزئیات کو پلکوں سے چُن کے ہونٹوں پہ سجانے کا عمل ہے۔‘ ’اسے تھوڑا سا آسان کر کے بتائیں‘ ’آپ یوں سمجھ لیں کہ میرے نزدیک اس دنیا میں زندہ دل ہونا، زندہ ہونے سے بھی زیادہ اہم ہے۔‘ ’ایہہ ہوئی ناں گل!!‘ مشتاق احمد یوسفی نے اسی لیے کہا کہ مزاح اپنے لہو کی آگ میں تپ کر نکھرنے کا نام ہے۔ جناب انور مسعود کہا کرتے ہیں کہ مزاح کی باکمال صورت وہ ہوتی ہے ، جہاں قہقہہ نچوڑیں تو آنسو برآمد ہوں… مزاح کو بالعموم ادب کی ایک صنف کے طور پر تعبیر کیا جاتا ہے یا کسی ادبی صنف کو خوشگوار بنانے کا ایک حربہ خیال کیا جاتا ہے، کسی محفل کو زعفرانِ زار بنانے کی ترکیب سمجھا جاتا ہے۔اگر یہ ہنسی بے وقت یا بے وقعت ہو تو ’چِڑیاں دی موت تے گنواراں دا ہاسا‘ کہہ کے برا بھی منایا جاتا ہے۔ ہمارے مطابق مزاح کی اصل حقیقت ان سب تصورات سے فزوں تر ہے۔ مزاح اصل میں ایک ایسی بنیادی حِس ہے، جو آدمی کو انسان بننے کا راستہ سُجھاتی ہے۔ پانچ حِصوں پہ اکتفا کیے بیٹھے جان دار کو زیست کی شان دار رفعتوں سے آشنا کرتی ہے۔ یہ کسی بھی شخصیت میں عظمت کی شناختی علامت ہے۔ اُردو ادب کے حیوانِ ظریف کے نزدیک آدمی کے انسان بننے میں حائل دشواری کی آسان اور سنہری کلید ہے۔ تلخ تر حیات میں دلوں کی کوکھ سے پھوٹنے والی امید ہے۔ کسی نئے جوڑے سے پوچھ کے دیکھیں کہ ان کے مطابق ایک نومولود کے ہونٹوں سے پھوٹنے والے پہلے تبسم کی قیمت اس ساری زندگی سے کتنی زیادہ ہے۔ ابوالکلام سچ کہا کرتے تھے کہ خدا کی اس رنگا رنگ اور بہترین مظاہرِ فطرت سے مزیّن اس خوبصورت کائنات کے چوکھٹے میں سُتے ہوئے چہرے اور بُجھے ہوئے جذبات والا انسان سج ہی نہیں سکتا۔ مزاح، برِ صغیر کی ادبی زندگی میں جس کے آغاز کا سہرا متفقہ طور پرنارنول کے جعفر زٹلّی کے سر سجا ہوا ہے، اور جسے بجا طور پرکارزارِ ظرافت و صحافت کا پہلا شہید بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جعفر کی پھانسی، اورنگ زیب کی بھینس جیسی باقیات کے آگے لطافت کی بِین بجانے اور جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی کڑی سے کڑی سزا تھی، جس کا خمیازہ اگلے ڈیڑھ سو برس تک ادبی دنیا کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سیاسی، سماجی تاریخ کو بھی بھگتنا پڑا۔ ایک طویل عرصے بعد (بلکہ بقول ِشاعرِ مشرق بڑی مشکل سے) اس چمن میں دو دیدہ ور غالب اور اکبر الہ آبادی کی صورت پیدا ہوئے، جنھوں نے ہر طرف پھیلے مسائل کی آلودگی کو لطافت کی آسودگی میں بدلنے کا کسی حد تک چارہ کیا۔ ’اودھ پنچ‘ کے فن کاروں کو آج ہم لاکھ، مسخروں سے تعبیر کریں، ان کی شریر جُگتوں اور بد تمیزانہ پھبتیوں پہ جتنا چاہے ناک منھ چڑھائیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان کی پنچ بازی یا ہر شہر سے برساتی کھُمبیوں کی طرح اُگ آنے والے ’پنچ‘ اخباروں نے انیسویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے پورے ہندوستان کی ادبی اور معاشرتی زمین میں اتنی نمی ضرور عطا کر دی کہ اس میں فرحت، پطرس، رشید جیسے تناور درختوں کے نمو پانے کی صلاحیت اور زرخیزی پیدا ہوگئی۔ ایسا ماحول بن گیا کہ ڈپٹی نذیر احمد جیسے واعظِ خشک اور محمد حسین آزاد جیسے حالات کے ستائے ہوئے قلم کاروں کے ہاں بھی ظرافت کی نِمی نِمی وا وَگنا شروع ہو گئی۔ بیسویں صدی کے آغاز کے بعد تو یہی مزاح، ادب و صحافت کی پُڑیوں میں فروخت ہونے لگا۔شوکت تھانوی، عظیم بیگ چغتائی، مُلّا رموزی، سجاد انصاری چراغ حسن حسرت، حاجی لق لق اور سالک جیسے قلمی اطبا نے اپنے اپنے برانڈ کا معجون بیچنا شروع کر دیا، حتّٰی کہ اقبال، ظفر علی خاں،خواجہ حسن نظامی اور نسیم حجازی جیسے ثقہ علما بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے بغیر نہ رہ سکے۔ منٹو، کرشن چندر اور شفیق الرحمن جیسے کہانی کار بھی کھلکھلائے بغیر نہ رہ سکے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد کے بارہ چودہ سال تو ادب و صحافت کی نگری سے برِ صغیر کی سفاکانہ جہالت کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں لیکن اس کے بعد تو مزرعۃ الظرافت پر ’اتنا ٹوٹ کے برسا بادل، ڈوب چلا مے خانہ‘ والی کیفیت طاری ہو گئی۔ ساٹھ کی دہائی میں محمد خالد اختر، یوسفی، ابنِ انشا، کرنل، ضمیر جعفری، یوسف ناظم، دلیپ سنگھ، نذیر شیخ، سید محمد جعفری، راجا مہدی علی خاں، نصراللہ خاں، مجید لاہوری، طفیل احمد جمالی، کی صورت اٹھنے والی ظرافت کی گھٹا ، عنایت علی خاں، مشفق خواجہ، صدیق سالک، مجتبیٰ حسین، انور مسعود، ظفر اقبال، مستنصر حسین تارڑ،عطا الحق قاسمی، فاطمہ بنت سراج، پروفیسر افضل علوی، مظفر بخاری، سرفراز شاہد، صولت رضا،کرنل اشفاق حسین، ضیا ساجد، ماسٹر الطاف تک برستی چلی گئی۔ ٹی وی ڈراموں میں کمال احمد رضوی، اطہر شاہ خاں جیدی، یونس جاوید، منو بھائی، ذوالقرنین حیدر، یونس بٹ وغیرہ نے ہلچل پیدا کیے رکھی۔ نشیب و فراز کی اس دنیا میںاکیسویں صدی پھر مزاح کے نزاع کی خبر لائی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۲۰۰۷ء میں ، مَیں نے مزاحیہ مشاعروں دکھائی دینے والی ’ترسیدہ ظرافت‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے مجموعے ’لایعنی‘ کے دیباچے کا عنوان ’شگفتہ شاعری کی ریل کا آخری ڈبہ‘ رکھا۔ سب جانتے ہیں کہ معاشرے کے روز بروز بڑھتے مسائل میں اس نایاب جنس کی طلب بھی روز افزوں ہے۔