معروف امریکی مصنف سوسان ملیر نے ریٹائرمنٹ کا مطلب بہت ہی کم وسائل میں خوشیاں تلاش کرنا بتایا ہے۔ ویسے تو دنیا بھر بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں پبلک سیکٹرمیں تنخواہیں پرائیویٹ سیکٹر کے آٹے میں نمک کے مترادف ہوتی ہیں مگر اس کے باوجود نوجوانوں کی پہلی ترجیح خاص طور پر پاکستانیوں کی سرکاری نوکری ہوتی ہے اور اس کی وجہ سرکار کا اپنے ملازمین کو نجی شعبہ سے قدر بہتر سماجی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ سرکاری نوکری میں کم ہی سہی مگر ہر ماہ تنخواہ برابر ملتی ہے ہر سال انکریمنٹ بھی اور تعلقات کے حساب سے ترقی کے مواقع بھی۔ تعلقات کے حساب سے اس طرح کہ’ جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے ‘کی بہترین مثال محکمہ صحت کی دی جا سکتی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل انگریز نے محکمہ صحت کا جو ڈھانچہ بنایا اس میں ڈاکٹرز کی معاونت کے لئے پیرا میڈیکل سٹاف کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت تھی۔ انگریز سرکاری ڈاکٹر 17ویں سکیل میں گریڈ ون کے افسر کے طور پر بھرتی کرتی اور معاون سٹاف (پیرا میڈیکل) میں نرسز کو سکیل 7 ایکسرے ٹیکنیشن لیبارٹری اور ڈسپنسر کو بنیادی سکیل 6میں بھرتی کیا جاتا ہے۔ آزادی کے بعد نئے ملک میں سرکاری ملازمین باقی پاکستانیوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی آزاد ہوئے اور سرکاری ملازمین نے نئے ملک میں ترقی کے نئے امکانات ڈھونڈنے شروع کئے محکمہ صحت میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ نرسز کی سنی گئی اور مختلف ادوار میں نرسز اپنا بنیادی سکیل بڑھاتے بڑھاتے گریڈ 16تک اور ترقی کے زینوں کو سکیل 20تک لے گئیں مگر دیگر پیرا میڈیکس کے مطالبوں اور احتجاج کو حکومت طاقت سے کچلتی رہی۔ پیرا میڈیکل سٹاف نے ہڑتال کی تو ہڑتالیوں کے خلاف 302کے پرچے دے کر ان کو جیلوں میں ٹھونس دیا اور سینکڑوں ملازمین دس دس سال کی قانونی جنگ لڑنے کے بعد عہدوں پر بحال ہوئے اسی طرح 70سال کی جدوجہد کے بعد حکومت پیرا میڈیکل سٹاف کا سروس سڑکچر بنانے پر آمادہ ہوئی خدا خدا کر کے 2013ء میں پیرا میڈیکل سٹاف کا 4ٹایئرسروس سٹرکچر منظور ہوا اور بنیادی سکیل 6سے 9کر دیا گیا اس طرح عہدوں کو فارمیسی ٹیکنیشن، لیبارٹری ٹیکنیشن، اور ایکسرے ٹیکنیشن، آپریشن تھیٹر ٹیکنیشن اور ای سی جی ٹیکنیشنز کا نام دیکر سکیل بنیادی سکیل 6کے بجائے 9میں نئی بھرتی اور پہلے سے موجود ملازمیں کو ون ٹائم چار مدارج میں ترقی دینے کا کوٹہ مقرر ہوا جس میں 34فیصد کو گریڈ 12میں 14فیصد کو گریڈ 14اور ایک فیصد کو چیف ٹیکنیشن کے عہدے پر ترقی دینے کا فیصلہ ہوا۔اور تین سال کے غور و فکر اور مرحلہ وار منظوریوں کے بعد 2016ء میں پیرا میڈیکل سروس سٹرکچر کے مطابق ترقیاں دیدی گئیں۔ پنجاب کے تمام سرکاری ہسپتالوں نے منظور شدہ سروس سٹرکچر کے مطابق پیرا میڈیکس کو ترقیاں دینے کے نوٹیفکیشن کئے اور قواعد کے مطابق اے جی آفس نے نئے سکیل کے مطابق پے سلیبس اور تنخواہیں جاری کی گئیں۔ بیسوں ملازمین جو اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکے تھے وہ ریٹائر ہوئے اور پنشن وصول کرنے لگے۔ ریٹائرمنٹ کے وقت اگر کسی ملازم پر کوئی اعتراض لگتا تو لے دے کر وہ بھی رفع ہو جاتا اور سلسلہ چل نکلا پھر یوں ہوا کہ کوئی سر پھرا ایماندار ریٹائر ہوا اور اس نے رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہونے کے خوف سے اے جی آفس کے طے شدہ فارمولا کے مطابق فیس دینے سے انکار کیا دوسری طرف اے جی آٰفس میں بھی ہٹ کا پکا تھا اس نے طے شدہ فارمولے سے کسی ایک کا انحراف بھی قبول نہ کیا اور فائل پر ایسا اعتراض لگایا یوں معاملہ عدالت تک پہنچ گیا بوڑھا ملازم ایک تو ایماندار تھا دوسرے بغیر پنشن کے وسائل کی کے باعث عدالت میں مناسب وکیل اور پیروی نہ کر سکا اور عدالت نے فیصلہ صادر کر دیا کہ اے جی آفس کا اعتراض ٹھیک ہے پہلے تمام پیرامیڈیکس کو سکیل 9میں بھرتی کیا جائے پھر ڈی پی سی بٹھائی جائے پھر ترقی دی جائے۔ 2019ء میں اس فیصلے کا آنا تھا کہ اے جی آفس کی چاندی ہو گئی ریٹائرمنٹ کیسز کی فیس آسمان کو چھونے لگی جو فیس دیتا اس کا کیس پاس ہو جاتا جو انکار کرتا یا جس کے استعداد نہ ہوتی اس کی فائل روک لی جاتی یوں معاملہ ایک بار پھر عدالت پہنچ گیا اور 2022ء کے بعد دسیوں بیسوں ریٹائر ہونے والے پیرا میڈیکس کو نہ پنشن مل رہی ہے نہ ہی ان کے بقایاجات۔ اے جی آفس کی جانب سے ریٹائیر ہونے والوں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ گریجویٹی سے حاصل ہونے والے رقم میں سے کٹوتی کروائیں پھر پنشن جاری ہو گی۔ پنجاب بھر کے سینکڑوں پیرا میڈیکس ریٹائر ہونے کے بعد عدالتوں کے چکر لگانے پر مجبور ہیں جن کے پاس عدالتوں کے اخراجات اٹھانے کی طاقت نہیں وہ حکومت کے بعد خدا کی غیبی مدد کے منتظر ہیںتو کچھ ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور۔ جو زندہ ہیں وہ فاقوں سے مرنے کے منتظر ۔ معروف کمپیوٹر سافٹ ویئر انجینئر ایس کے سونی نے کہا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کام ختم ہوتا ہے زندگی نہیں شاید یہ بات ہماری عدالتوں، اے جی آفس اور خاص طور پر خاتون وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی سمجھ آ جائے کہ ریٹائر ہونے والے پیرا میڈیکس کے کام ختم ہوئے ہیں زندگیاں نہیں اور زندہ رہنے کے لئے ہی سہی ان کو بقایا جات نہ سہی کم از کم ماہانہ پنشن تو جاری کردی جائے تاکہ یہ غریب فاقوں مرنے سے تو بچ سکیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب صاحبہ کے دل میں اگر خدا رحم ڈالے تو یہ بھی سوچ سکتی ہیں کہ ملک کے دیگر صوبوں سندھ، سرحد، بلوچستان میں بھی اسی طرح پیرا میڈیکس کی ترقیاں ہوئیں وہاں اس طرح کے مسائل کیوں نہیں صرف پنجاب میں ہی ہر فائل کی فیس یا صاف لفظوں میں ریٹ کیوں مقرر ہے؟