مجھ کو ابرو‘ تجھے محراب پسند سارا جھگڑا اسی نازک خم کا پاکستان میں عمران خان اور نواز شریف کی سیاست اہم سہی مگر فلسطین میں قتل عام پاکستان کی سیاست کے مقابلے زیادہ اور فوری توجہ کا مستحق ہے‘ ویسے بھی عمران خاں اور نواز شریف کا تقابل بنتا نہیں‘ ہر صنف اور جنس کا آپس میں تقابل ہو سکتا ہے۔ اگرچہ’’پٹواری‘‘ نواز پر نثار ’’کھلاڑی‘‘ عمران پر فدا پھر بھی نواز شریف کو آصف علی زرداری کے مقابل رکھ کر ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ دونوں کو اپنے اپنے میٹرک کے امتحان پاس کرنے کے لئے ’’سہارے ‘‘ کی تلاش ہوئی‘ وہ سہارے انہیں مہیا کر دیے گئے تھے‘ سہاروں کی یہ عادت اور دستیابی سیاست کے میدانوں تک وسیع ہوتی چلی گئی‘ ان کا آکسفورڈ کے گریجویٹ سے مقابلے رکھ کے دیکھنا؟ آئینے کا اندھا پن ہے‘ آکسفورڈ کا گریجویٹ 100(سو سالہ) کرکٹ کی تاریخ کا سب سے اعلیٰ کپتان اور کھلاڑی شمار کیا گیا۔ تیز رفتار ’’بالر‘‘ نے تقریباً ڈیڑھ لاکھ بال پھینکے اور ایک بار بھی ’’نو بال‘‘ قرار نہیں دیا گیا۔وہی کھلاڑی تعلیم اور علم کی دنیا میں برطانیہ کی مایہ ناز درسگاہ ’’بریڈ فورڈ یونیورسٹی‘‘ کا وائس چانسلر منتخب ہوا خالص اہلیت کی بنیاد پر ماہرین کے عالمی چنائو میں کسی سہارے اور سفارش یا عنائت خسروانہ کے بغیر۔ نعیم صدیقی مرحوم نے 1967ء ‘ عرب اسرائیل جنگ کے دنوں ایک زرمیہ لکھا تھا ’’یروشلم ‘ پروشلم‘ تسلط یہود یاں رہے نہیں کبھی نہیں،یہ ظلم ایسا‘ ظلم ہے کہ جس کی تاب ہی نہیں۔ میں ڈھونڈتا ہوں آج پھر صلاح الدین ایوبی کا علم‘ یروشلم یروشلم‘‘ ہر زمانے کا اپنا صلاح الدین ہے اور حجاج بن یوسف بھی جسے پکارا گیا اور لبیک کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ آج 57مسلم ممالک ہیں اور دنیا میں آباد تقریباً ’’دو ارب مسلمان‘‘ اور ان کے حکمران۔ مگر فلسطین میں نوجوان خاتون نے اپنی مدد کے لئے پاکستان کے ایک قیدی کو پکارا‘ فلسطین کے صحافی نے عالمی ذرائع ابلاغ پر عمران خان کو یاد کیا۔ فلسطین کے مفتی اعظم نے نماز جمعہ کے بعد عمران کے لئے دعا کی‘ فلسطین کے نوجوان اپنی دیواروں کو اسی قیدی کی تصاویر چسپاں کرتے ہیں۔ اپنے ملک میں جس کا نام لینے اور تصویر دکھانے تک کی پابندی ہے‘ مظلوم فلسطینی اور محصور کشمیری سب کی امید ’’فی الوقت اڈیالہ جیل‘‘ میں صبر اور ثابت قدم اچھے دنوں کی منتظر ہے۔ افغانستان کے بعد‘ فلسطین اور کشمیر میں جاری کشمکش‘ سیاسی اقتدار یا زمیں کے ٹکڑے کا حصول مقصود نہیں یہ تہذیب کے غلبے کی جنگ ہے‘جو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہی ’’تبوک‘‘ کے میدان سے شروع ہو گئی تھی ’’قیصر روم‘‘ کی قیادت میں اکیلی عالمی طاقت (سپر پاور) سلطنت روما‘ جس نے مقابلے کی دوسری ’’سپر پاور‘‘ ایران کو شکست دی تھی‘ ایران پر فتح پانے کے بعد اسے واحد عالمی طاقت کا اعزاز حاصل ہوا تھا‘ جیسا روس کے انہدام کے بعد امریکہ کو یہ اعزاز مل گیا تھا۔ افغانستان میں عبرت ناک پسپائی کے بعد وہ ’’بائولے کتے‘‘ کی طرح پریشان ادھر ادھر بھاگا پھرتا ہے‘ روم جیسی سپر پاور ’’مدینہ کے گائوں‘‘ کی چھوٹی سی حکومت کی نظریاتی اساس سے خوفزدہ ہو گئی۔ اسلام کے طاقتور نظریے اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ تہذیب نے جس طرح اس دور کی غالب تہذیبوں ایران و روم کو پریشان کر دیا اور بالآخر دونوں تہذیبیں اور ان کی سیاسی قیادت کو تلپت اور نابود کر دیا تھا‘ وہ خوف جو قیصر اور کسریٰ کے دلوں میں بیٹھ گیا تھا۔ وہ خوف اب تک بھی دلوں سے نکلا نہیں۔ تہذیبوں کا تصادم اور آئندہ کے امکانات ایک طویل موضوع ہے ،ایک کالم میں اس پر سیر حاصل بحث ممکن نہیں‘ بہرحال یہ تصادم جاری ہے‘ اس میں 1979ء کے بعد سے تیزی آ گئی ہے‘ اگلی دو تین دہائیوں میں ’’پندار کے خوگر کو ناکام بھی دیکھو گے‘‘ افغانستان کے بعد غزہ اور کشمیر اس معرکے کے اہم میدان ہیں‘ امریکہ کے قیادت میں سارا یورپ میدان میں اتر کے جنگ لڑنے کے قابل نہیں ہے‘ افغانستان اور کسی حد تک ایران میں اس کا مظاہرہ ہو چکا ہے‘ افغانستان کے بے سروسامان غازیوں نے دو سپر پاور کی کمر توڑ دی‘ امریکہ اور یورپ اپنے بل پر کچھ کرنے کے قابل نہیں‘ انہیں اسلامی ممالک میں اب بھی ’’شریفِ مکہ‘‘ دستیاب ہیں‘ انہی غداروں کی وجہ سے وہ اب تک زندہ ہیں‘ ہمیں یورپ سے خوف کھانے کی بجائے اپنے غداروں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے‘ یورپ اور امریکہ کے ’’غلام‘‘ اسلامی ممالک کے حکمران ہمارا اصل مسئلہ ہیں ورنہ اسرائیل عربوں کے درمیان چکی کے دو پاٹوں میں گندم کی طرح پس کے رہ جائے‘ اکثر عرب ممالک کے حکمران اسرائیل یا امریکہ کے مخبر ہیں‘ یہ خبر ہم سب پڑھ ہی چکے ہیں کہ اسرائیل پر حماس کے متوقع حملے کی چند دن پہلے ’’مصر کے جانب سے اسرائیل‘‘ کو اطلاع دی گئی تھی لیکن اسرائیل نے ان کی مخبری کو قابل اعتناء نہیں جانا‘ حقارت سے نظر انداز کر دیا کہ ہماری موساد اور امریکی سی آئی اے اور ایم آئی سکس کی نظر سے کون بچ سکتا ہے‘ مصرف ان کے مقابلے میں کیا بیچتے ہیں‘ حالانکہ گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھا دی تھی‘ حماس کو داد دیے بنتی ہے کہ اس کے چند ہزار مجاہدین نے اسرائیل کے ناقابل شکست بنے رہنے کا اثر ایک حملے اور ایک لمحے میں ختم کر دیا ہے۔ حماس کی حملے میں پہل کاری(دفاع کرتے رہنے کی بجائے جارحانہ حملے) کے بہت گہرے‘ کچھ فوری اور بہت سے دوررس اثرات مرتب ہونے والے ہیں‘ گھٹ گھٹ کے قسطوں میں مرنے کی بجائے میدان جنگ میں شہادت یا فتح کا جذبہ اپنا اثر رکھتا ہے‘ عرب عوام میں حماس کے لئے ہمدردی اور درپردہ عوام کی طرف سے عملی امداد ملنا شروع ہو جائے گی‘ سارے عرب اور افریقی مسلمان ممالک کے جنگ جو ان کی مدد کو پہنچنے کی کوشش کریں گے‘ ایران کے عرب ممالک میں اثرات بڑھنے لگیں گے‘ ترکی کو ایران کی سیاسی پیش قدم کو دیکھتے ہوئے مقابلے میں غزہ کی مدد کرنا ہو گی‘ وہ عرب ممالک جو اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں ان کی اسرائیل کے لئے گرم جوشی کو بریک لگ جائے گی‘ وہ عرب اور مسلم ممالک جو امریکہ کے ایما پر قطار در قطار اسرائیل کو تسلیم کرنے والے تھے انہیں انتظار کرنا پڑے گا کم از کم پانچ برس‘ اس تیز رفتار زمانے میں پانچ،وس برس بہت طویل دور ہے ۔یورپ‘ امریکہ اور خود یہودیوں میں فلسطینیوں کی ہمدردی اور حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے‘ عرب ممالک میں عرب بہار کی طرح عوامی بغاوتوں کے امکانات بڑھ جائیں گے‘ نیو یارک میں ایک لاکھ سے زیادہ یہودیوں کا احتجاج اور امریکہ سے مطالبہ کہ ہمارے نام پر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی حمایت بند کی جائے اور واشنگٹن میں تین لاکھ سے زیادہ امریکیوں کا احتجاجی جلوس بڑی اہم پیش رفت ہے‘ پہلی مرتبہ امریکی اقتدار کے ایوان میں اسرائیل کے خلاف اور حماس کی حمایت میں احتجاج ہو رہا ہے‘ یورپ کا کوئی ملک اور بڑا شہر ایسا نہیں ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں جلوس نہ نکالے ہوں۔ پاکستان میں اندر ہی اندر امریکہ کے ساتھ وعدے اور اسرائیل کے ساتھ ساز باز کر کے جو اقتدار کے پچھلے دروازے پر کنڈی کھلنے کے منتظر ہیں‘ ان کا انتظار طویل سے طویل تر ہوتا جائے گا۔ یورپ کے دانشوروں کا ردعمل زیادہ دیرپا اثر رکھتا ہے۔