قومی اسمبلی میں سیاسی مفاہمت اور قومی معیشت کی بحالی کے معاملے پر سیاسی قائدین کی گونجتی آوازوں نے پاکستان کا جمہوری مستقبل تابناک ہونے کی نوید سنائی ہے ۔ قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت کی جو پیشکش کی تھی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس کو زیادہ واضح شکل میں بیان کیا۔بلاول بھٹو زرداری نے ملکی معیشت میں بہتری کے لئے تجاویز دینے کے بعد مسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی کے درمیان مصالحت کے لئے اپنی جماعت کی خدمات دستیاب ہونے کا بتایا۔انہوں نے بجا طور پر کہا کہ آئندہ انتخابات صاف ،شفاف اور سب کے لئے قابل قبول بنانے کی خاطر حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنی چاہئے۔سنی اتحاد کونسل کے سینئر رکن اور سابق سپیکر اسد قیصر نے مفاہمت کے عمل کو ڈھاندلی کی تحقیقات، سائفر کی جوڈیشل انکوائری اور پی ٹی آئی کے لوگوں پر قائم مقدمات کے خاتمے کے ساتھ جوڑ کر جمہوری بالا دستی کی بات کی۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے بلوچستان کی محرومیوں اور قومی مفاہمت کے لئے درکار رویوں کی بات کی۔مفاہمت اور سیاسی جماعتوں کے درمیان قومی ایجنڈے پر اتفاق رائے کے سفر کا یہ آغاز ہے۔بہت سی جماعتوں اور سیاسی رہنماوں کو نطام سے شکایات ہو سکتی ہیں، ایک دوسرے سے شدید اختلافات بھی ہوں گے لیکن سب کا یہ تسلیم کرنا ہی ایک نئے آغاز کا نکتہ ہو سکتا ہے کہ ملک کو عدم استحاکم کی حالت سے نکالنے کی ضرورت ہے۔دانا کہتے ہیں کہ مفاہمت انصاف کے ساتھ ہونی چاہیے ورنہ یہ قائم نہیں رہتی۔ اہل پاکستان اپنے نمائندوں سے امن کی امید رکھتے ہیں۔ کسی بھی صورت میں بدامنی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اصول کی بنیاد پر مبنی انصاف ہونا چاہیے۔ مفاہمت اور معافی صحت مند، خوش کن انداز میں آگے بڑھنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ انتخابی نتائج سے اب چاروںصوبوں، بلوچستان، سندھ، کے پی اور پنجاب میں حکومت سازی بالکل واضح ہے۔ سندھ اور کے پی نے بالترتیب پی پی پی اور پی ٹی آئی کو واضح مینڈیٹ دیا ہے جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) آزاد امیدواروں کی حمایت سے سادہ اکثریت حاصل کر چکی ہے۔ بلوچستان میں پی پی پی کی حکومت بن چکی ہے۔تاہم مرکز میں صورت حال ان لوگوں کے لیے انتہائی پیچیدہ اور تشویشناک رہی ہے جو پاکستان میں جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس بار الیکشن کمیشن کے شائع شدہ نتائج کے مطابق یہ اس حد تک معلق پارلیمنٹ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت مرکز میں حکومت بنانے کو تیار نہیں تھی۔ یہ نتیجہ یقیناً جمہوریت کے لئے موزوں نہیں ہے لیکن پھر بھی اس سے سیاسی استحکام لایا جا سکتا ہے جس کے بغیر معیشت کی بحالی کے امکانات کم ہیں۔ پی پی پی کی حمایت سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں اقلیتی مخلوط حکومت کے وزیر اعظم حلف اٹھا چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت والے اتحاد کی حمایت جاری رکھے گی، لیکن وزارتیں قبول نہیں کریں گے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی خود نواز شریف اور بعض دیگر اہم رہنما مرکز میں حکومت نہیں بنانا چاہتے تھے ۔ پارلیمنٹ کی واحد سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اپنی پارٹی کو ہدایت کی تھی کہ وہ پی پی پی، مسلم لیگ ن یا ایم کیو ایم سے مذاکرات نہ کریں اور اس کے بجائے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں۔اسد قیصر نے بھی ان جماعتوں کے ساتھ مل کر تحریک چلانے کی بات کی ہے جو انتخابی دھاندلی پر ان سے اتفاق کرتی ہیں۔اس ضمن میں اہم بات یہ ہو سکتی ہے کہ احتجاج کے دوران حکومت اور اپوزیشن پارلیمنٹ کو طاقتور بنائیں۔اپنے جھگڑے پارلیمنٹ میں حل کریں۔اس طرح باقی ادارے اپنا کام یکسوئی کے ساتھ کر سکیں گے۔ سیاسی نا اتفاقی کی صورت حال میں پاکستان کو صرف تمام فریقین کے درمیان مفاہمت اور کھلی بات چیت ہی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ انتخابی دھاندلی کی شکایات اور حکومت سازی کے مسائل محض ایک علامت ہیں، اصل مسئلہ کھیل کے اصولوں کی مکمل عدم موجودگی ہے، جسے تمام سٹیک ہولڈرز قبول کرکے صحیح معنوں میں لاگو کرسکتے ہیں۔ پچھلے پانچ برسوں میں سیاسی اور عدالتی محاذ پر جو کچھ ہوا ہے وہ بتاتا ہے کہ آئین جو بھی کہتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پاکستان میں کتاب سے کچھ نہیں چلتا۔ طاقت سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور تمام اہم فیصلے پاور کی مدد سے کیے جاتے ہیں۔ یہ امر سیاسی اتفاق رائے کی کوششوں میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے کہ جو ادارے پاکستان میں طاقت کے اصل مراکز ہیں وہ میثاق جمہوریت کا حصہ نہیں تھے ۔یہ طاقتور حلقے میثاق جمہوریت، 18ویں ترمیم اور 7ویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت کیے گئے انتظامات سے خوش نہیں تھے۔ اس لیے معاملات اس وقت قابو سے باہر ہو گئے جب تیسری قوت مزاحمت کی طرف چل پڑی۔پاکستان کے لئے جنوبی افریقہ کی طرز پر ٹروتھ اینڈ ریکنسلی ایشن کمیشن کی ضرورت ہو گی۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو مفاہمت کا حصہ بنائے بغیر ملک کی سیاسی قوتیں مستقل طور پر ٹھیک نہیں ہو سکتیں۔ کھیل کے قوانین کو تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے سے طے کرنے کی ضرورت ہے۔ایک متحد ، جمہوری اور ترقی کا خواہاں پاکستان ابھارنے کے لئے مشترکہ کوششیں کہاں سے شروع کی جائیں یہ پارلیمنٹ طے کر سکتی ہے۔دوسری صورت میں ملک بدستور انتشار کے نرغے میں رہے گا۔