دسمبر کا مہینہ غالباً ہر انسان کی زندگی میں ایک خاص نسبت ضرور رکھتا ہے۔ دسمبر کی سردی ، دھند اور بارش کہیں خوبصورت یادوں کی چادر اوڑھے لیٹی ہوتی ہے تو کہیں کسی کے دل میں اپنوں کے بچھڑنے کا غم لیے سلگتی رہتی ہے۔ میری زندگی میں دسمبر دونوں احساسات کے امتزاج کا نام ہے۔ اپنے شریکِ حیات سے ملنے کی خوشی اور گھنی چھاؤں جیسے ایک عزیز سے بچھڑنے کا غم ! اب خوشی اور غم کے دونوں پہلو دریا کے کناروں کی مانند ایک ساتھ بہتے چلے جا رہے ہیں اور زندگی رواں دواں ہے۔ اس دنیائے فانی میں ہمیں بہت کم لوگ ایسے ملتے ہیں جو ہمارے لیے مشعل راہ ثابت ہوتے ہیں اور حقیقتاً اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے ایک بہترین عنایت ہوتے ہیں۔ جو اللّٰہ والے ہوتے ہیں اور اللّٰہ کی یاد دلاتے رہتے ہیں ، انکی سادگی، عاجزی اور پرخلوص کاوشیں ہمیں آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہیں۔ میری زندگی میں بھی چند ایسے افراد شامل ہیں جنہوں نے نہ صرف ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا بلکہ بنا کچھ کہے راہوں کے کانٹے چننے میں بھی مدد کی اور بلاشبہ ایسے افراد کا میسر ہونا کسی نعمت سے کم نہیں۔ میرا شمار ان خوش نصیبوں میں ہوتا ہے جنہیں زندگی کے کٹھن سفر میں اپنے روحانی استاد، روحانی باپ اور ایک بے لوث محبت کرنے والے انسان کا ساتھ نصیب ہوا۔ آج میں جس مقام پر ہوں اس میں والدین کی دعاؤں کیساتھ میرے محسن اور روحانی باپ مسعود اقبال صاحب نے ایک سیڑھی کا کردار ادا کیا ہے۔ مجھے 31 دسمبر 2012 کی وہ صبح آج بھی یاد ہے جب شدید دھند کے باعث وہ ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوئے اور اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ میں اس وقت اسلام آباد میں تھا جب صبح ساڑھے سات بجے ہمیں فون کال پر انکے حادثے کی اطلاع موصول ہوئی۔ ہم فوراً سے لاہور کیلئے روانہ ہوئے اور ہمارے وہاں پہنچنے تک انہیں جناح ہسپتال والوں نے وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا تھا۔ ہیلمیٹ پہننے کے باوجود انہیں سر پر شدید چوٹیں آئیں اور دماغ بری طرح متاثر ہوا۔ چار دن تک وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد چار جنوری 2013 کی صبح تین بجے، بروز جمعہ مبارک میرے پیارے والد (فادر ان لائ) ، ایک انتہائی محنتی، مخلص اور نیک انسان ہمیں ہمیشہ کے لیے اداس کر گئے۔ دس سال ہونے کو ہیں ہمارے دلوں میں انکی یادیں آج بھی تازہ ہیں اور یہ خلا کوئی بھر نہیں سکا۔ نیز آج بھی اس شخص کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے جس نے انہیں جائے حادثہ سے ہسپتال منتقل کیا۔ لاہور فیصل ٹاؤن کا وہ یو ٹرن ہمیں ان کا بچھڑنا یاد دلاتا ہے اور آج بھی میرا وہاں سے گزر ہو تو میں دعائے مغفرت کرنا نہیں بھولتا۔ میںقارئین کرام کو بتاتا چلوں کہ مندرجہ بالا تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ بعض حادثات انسان کی زندگی پر بہت گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔ میں گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں روڈ سیفٹی کے پراجیکٹ پر کام کر رہا ہوں اور جس دن یہ حادثہ رونما ہوا میں نے خود سے تہیہ کیا کہ پاکستان میں ٹریفک حادثات کی روک تھام اور قوانین میں بہتری کے لیے جہاں تک ہو سکا اپنا بھرپور کردار ادا کروں گا۔ کیونکہ ہر سال نجانے کتنے ہزاروں افراد اپنے پیاروں سے بچھڑ جاتے ہیں۔ ایک لمحے کی غفلت انہیں اپنوں سے جدا کر دیتی ہے اور کوئی نشان اور سراغ نہیں ملتا۔ میرے والد مرحوم کے ساتھ جب یہ حادثہ پیش آیا تو وہ تنہا اپنے دفتر کی جانب رواں دواں تھے۔ موٹر سائیکل کو انتہائی محتاط انداز سے چلانا اور ہیملٹ کا لازمی استعمال انکا معمول تھا۔ صبح کا وقت، سنسان سڑکیں اور شدید دھند۔ہم آج تک نہیں جان پائے کہ حادثے کی وجہ کیا تھی؟ کیا انکی غلطی تھی یا یو ٹرن لیتے ہوئے دوسری جانب سے آتی تیز رفتار گاڑی انہیں دیکھ نہ سکی؟ کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ کی ذات کے، جس نے ہر شے کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ بیشک ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور ہر انسان کا وقت معین ہے۔ لیکن کیا تمام ٹریفک حادثات کو ہم اللہ کی مرضی، اذن الٰہی ، یا رضائے رب کہہ کر ٹال سکتے ہیں؟ پاکستان میں ٹریفک حادثات سے سالانہ ہزاروں افراد اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور حادثات کی بنیادی وجہ انسانی غلطی یا سواری میں تکنیکی خرابی ہوتی ہے۔ جب میں نے روڈ سیفٹی کا پراجیکٹ شروع کیا تو بیشتر افراد نے اسے غیر ضروری سمجھا اور اس موضوع کو اتنی اہمیت نہیں دی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اگر ٹریفک نظام کو بہترین بنا لیا جائے، سڑکوں اور ٹریفک قوانین میں جدید رجحانات اور ٹیکنالوجی کو متعارف کرایا جائے، انسانی غلطیوں پر قابو پا لیا جائے تو حادثات سے حتی الامکان بچا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے وطن عزیز میں سب سے خطرناک اور جان لیوا سواری موٹر سائیکل ہے اور بلاشبہ اس پر فی الفور پابندی عائد ہونی چاہیے۔ میں جانتا ہوں کہ متوسط اور غریب طبقے کیلئے یہ آسان اور نسبتاً سستی سواری ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہماری عوام جس غیر سنجیدگی اور لا ابالی انداز میں موٹر سائیکل کو استعمال کرتی ہے یہ اپنے ساتھ دوسروں کی جان کو خطرات سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔ تیز رفتاری، ون وہیلنگ، دائیں بائیں مڑتے ہوئے اشاروں کا استعمال نہ کرنا، ٹریفک لائٹس اور سنگلز کی خلاف ورزی کرنا، شدید دھند ، بارش اور سموگ میں بھی احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنا، شاہراہوں پر ریس لگانا اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں جان گنوا بیٹھنا ہمارے لوگوں کا معمول ہے۔ ہم روزانہ اخبارات و رسائل میں ٹریفک حادثات کی سنگین خبریں پڑھتے ہیں، افسوس کرتے ہیں ، ڈرائیور حضرات کی غفلت پر انہیں کوستے ہیں لیکن کوئی سبق نہیں سیکھتے ، کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے اور چند لمحوں بعد سڑکوں پر نکل کر وہی غلطیاں دہراتے ہیں۔ پاکستانی عوام اگر سمجھداری اور سنجیدگی سے اپنی ڈرائیونگ عادات درست کرئے تو قیمتی جانوں کے ضیاع اور لاکھوں کے مالی و جانی نقصانات سے بچا جا سکتی ہے۔ (جاری ہے)