اس سال فرورری میں جس وقت دہلی اور ممبئی میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے دفاتر پر انکم ٹیکس کی ریڈ ہو رہی تھی، تو اسی وقت لندن میں ایئر انڈیا کیلئے 470جہازوں کے سودے کیلئے بات چیت جاری تھی۔ بظاہر اس کی وجہ سے ہی برطانیہ اور امریکہ نے ان چھاپوں پر معنی خیز خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی۔ برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے اس دن شام کو ٹویٹر پر ایئر کرافٹ سودے پر خوشی ظاہر کرتے ہوئے مبارکباد بھی دی، مگر بی بی سی کے معاملے پر آنکھیں موند لیں۔ اسی طرح اپنے امریکی دورے کے دوران کہیں کوئی بھارت کے اندر رونما ہونے والے ایشو نہ اٹھائے، وزیر اعظم نریندر مودی اربوں ڈالر کے دفاعی سودوں کی ایک طویل فہرست اپنے ساتھ لے کر گئے ہیں۔ اب اگر کوئی یہ ایشو اٹھانا بھی چاہئے، تو بھارت سے پہلے ہتھیار بنانے والی کمپنیاں اس سے خود ہی نپٹ لیں گی۔ بتایا جاتا ہے کہ مودی کے دورے کے دوران تقریباً 25بلین ڈالر کے دفاعی سودوں کو حتمی شکل دی جائیگی۔ اگرچہ دونوں ممالک نے 2012 میں ڈیفنس ٹیکنالوجی اینڈ ٹریڈ انیشیٹو (DTTI) پر دستخط کیے تھے، لیکن روس کے ساتھ بھارت کے قریبی روابط کی وجہ سے امریکہ نے ابھی تک اہم ٹیکنالوجی کے تبادے سے گریز کیا تھا۔ امریکی وزیر دفاع جین لائیڈ جے آسٹن پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ جی ای ایف 414 انجنوں کی مشترکہ تیاری کیلئے بھارت میں ہی ایک یونٹ کھولنے کی منظوری دے گی۔ یہ جیٹ انجن بھارت اپنے فائٹر جیٹ تے جس میں استعمال کریگا۔ تے جس پچھلے بیس سالوں سے زائد عرصے سے تیاری کے مراحل میں ہے۔ مودی کی خریداری کی فہرست میں میزائل، طیارے، بکتر بند گاڑیاں، توپ خانہ، سمارٹ گولہ باری، ڈرون اور نگرانی کے نظام کی خریداری کے ساتھ ساتھ امریکی ہتھیاروں کی دیکھ بھال اور مرمت کیلئے بھارت میں ہی کارخانہ بنانے کا مجوزہ معاہدہ بھی شامل ہے۔ اگر یہ کارخانہ بھارت میں قائم ہوتا ہے، تو خطے میں جو ممالک امریکی ہتھیاروں پر انحصار کرتے ہیں، اس کی صفائی اور مرمت کیلئے ان کو ان ہتھیاروں کو وقتاً فوقتاً بھارت بھیجنا پڑے گا۔ مودی کے دورہ کے دوران 3 بلین ڈالر مالیت کے 30 MQ-9B پریڈیٹر ڈرون خریداری کے معاہدہ کو بھی حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ اس معاہدے پر ان ڈرونز کو تیار کرنے والی کمپنی جنرل اٹامکس کے ساتھ کئی سال قبل دستخط کیے گئے ہیں، لیکن چونکہ ان کی تیاری میں جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کی گئی تھی، اس لئے امریکی حکومت کی منظوری نہ ہونے کی وجہ سے انکی ترسیل زیر التواء تھی۔ حالیہ عرصے میں بھارت دفاعی ساز و سامان کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک بن گیا ہے۔ جس میں امریکہ کی طرف سے اب تک خریدے گئے دفاعی سازوسامان میں C-130J سپر ہرکولیس ٹرانسپورٹ ہوائی جہاز، C17 گلوب ماسٹر، بوئنگ کے اپاچی اٹیک ہیلی کاپٹر AH-64، چنوک ہیلی کاپٹر CH-47، P-8I سمندری نگرانی کے طیارے، اور M777 ہووٹزر شامل ہیں۔ پچھلے دو برس سے دفاع سے متعلق مشترکہ ورکنگ گروپس نے دفاعی صنعتی تعاون کے مشترکہ منصوبوں جن میں طیارہ بردار بحری جہاز، جیٹ انجن، اور کیمیائی حیاتیاتی تحفظ کے آلات کی تعمیر اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور اس سلسلے میں ایک روڈ میپ تیار کیا ہے۔ ستمبر 2021 میں، مودی نے جنرل اٹامکس کے بھارتی نژاد سربراہ وویک لال سے ملاقات کی تھی، جو اس وقت بھارت کیلئے ایک ترپ کا پتہ ہیں اور وہی دفاعی سودوں پر امریکی حکومت کی منظوری کیلئے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فنانشل ایکسپریس کے مطابق، لال نے بوئنگ میں اپنے کیریئر کے دوران بھارت کو کئی اہم ہتھیار وں کی فراہمی کے سودوں کی منظوری دی تھی۔ جن میں بحریہ کے لیے 3 بلین ڈالر مالیت کے P8I اینٹی سب میرین وارفیئر (ASW) طیاروں کی فراہمی اور 4 بلین ڈالرکے 10 C-17 (فوجی نقل و حمل) طیارے شامل ہیں۔ اس کے بعد جب انہیں لاک ہیڈ مارٹن (LM) ایروناٹکس میں حکمت عملی اور کاروباری ترقی کا نائب صدر مقرر کیا گیا، تو انہوں نے بھارتی بحریہ کے لیے طویل عرصے سے زیر التوا اینٹی آبدوز اور ان کا پتہ لگانے والے MH60R ہیلی کاپٹروں کی فراہمی یقینی بنائی تھی۔ یہ تمام سودے اب بائیڈن انتظامیہ کی منظوری کے منتظر ہیں۔ بھارت شاید واحد ملک ہوگا جو ایک طرف امریکہ کے ساتھ مشترکہ دفاعی پیداوار کا خواہاں ہے اور دوسری طرف روس کے ساتھ بھی اسی طرح کی مشترکہ پیداواری سہولیات رکھتا ہے۔ بھارت، روس کے ساتھ مشترکہ طور پر براہموس سپرسونک میزائل اور اریہانت کلاس آبدوز (SSBN) تیار کر رہا ہے، جن میں جوہری میزائل داغنے کی صلاحیت ہوگی۔ ایک اور انفرادیت یہ ہے کہ بھار ت کے پاس روسی اور امریکی دفاعی فضائی نظام موجود ہیں۔ 2018 میں بھارت نے روس سے S-400 فضائی دفاعی نظام خریدا ۔ اس کے ساتھ فضائیہ کیلئے امریکہ سے Raytheon کا نیشنل ایڈوانسڈ سرفیس ٹو ایئر میزائل سسٹم-2 (NASAMS-2) بھی خریدا ۔ماہرین کا خیال ہے کہ S-400 کا مقصد چینی میزائلوں سے تحفظ فراہم کرنا ہے جبکہ امریکی NASAMS پاکستان سے حملہ آور ہوائی جہازوں کی دراندازی کو روکے گا۔ماہرین کے مطابق، NASAMS کو سرحدی علاقوں میں حساس فوجی تنصیبات کی حفاظت کے لیے خریدا گیا تھا، تاکہ ایسی فضائی جھڑپوں کو روکا جا سکے، جیسا کہ 27 فروری 2019 کو بھارتی اور پاکستانی لڑاکا طیاروں کے درمیان ہوئی تھی، جس میں پاکستان نے بھارت کا ایک میگ طیارہ گراکر اس کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کو گرفتارکیا گیا تھا۔ اس نظام کی عدم موجوگی کی وجہ سے بھارت نے غلطی سے اپنا ہی ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر بھی مار گرایا جس سے اسکے دو پائلٹ اور چار اہلکار ہلاک ہو گئے۔ حیرت انگیز طور پر، 2019 میں، امریکہ نے روسی S-400s خریدنے کی وجہ سے اپنے نیٹو اتحادی ترکی کو F-35 لڑاکا جیٹ پروگرام سے معطل کر دیا اور اسکے خلاف تکنیکی پابندیا ں بھی عائد کیں۔ مگر ایسی کارروائی بھارت کے خلاف نہیں کی گئی۔ امریکہ نے اس سے قبل ایران پر سخت پابندیاں عائد کرنے کے باوجود بھارت کو ایرانی بندرگاہ چابہارکی تعمیر کرنے کیلئے استثناء دیا تھا۔ روس کے ساتھ بھارت کے جاری رابطوں کو درگذر کرتے ہوئے امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت ایشیا پیسیفک خطے میں ایک فعال کردار ادا کرے، جسے امریکہ نے انڈو پیسفک کا نام دیا ہے۔ نئی دہلی میں ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت ہمالیہ اور ملاکا اسٹریٹ میںآزادانہ آمد و رفت پر منڈلاتے خطرات کی حد تک چین کے خلاف امریکی مدد کا خواہاں تو ہے ، مگر وہ کسی فوجی اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔ دوسری طرف امریکہ کو ملاکا اسٹریٹ یا ہمالیہ سے زیادہ سائوتھ چینا سی اور آبنائے تائیوان میں ایک طاقتور حلیف کی ضرورت ہے۔ لہذا، بڑا سوال یہ ہے کہ کیا صدر بائیڈن مودی کو امریکی قیادت والے اتحاد میں شامل ہونے اور پورے ایشیا پیسیفک خطے میں اپنے مفادات کی حفاظت کروانے میں کامیاب ہوجائینگے؟ اس سوال کا جواب دینے سے قبل مودی کو یقینا سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کی خود نوشت سوانح حیات پڑھنی چاہئے، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ جب انہوں نے پاکستانی صدر جنرل ضیاء الحق کی طیارہ حادثہ میں ہلاک ہونے کی خبر سنی، تو ان کے دماغ میں سوال اٹھا کہ ’’امریکہ کا اتحادی ہونا کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؟ غیر جانبدار ہونا یقینا اچھا ہے، مگر امریکہ کا دشمن ہونا سب سے محفوظ ترین راستہ ہے۔‘‘ ہتھیاروں کے ذخیرے یا فوجی اتحاد کبھی بھی سلامتی کی ضمانت نہیں ہوسکتے ہیں۔ پر امن سرحدیں، پڑوسیوں کے ساتھ بہتر تعلقات اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونا نیزبین الاقوامی تعلقات میں ایک محتاط رد عمل ہی کسی ملک کی سلامتی کے ضامن ہوسکتے ہیں ۔جتنی جلدی یہ نقطہ بھارت کے ارباب حل و عقد سمجھ سکیں، ان کیلئے اور اس خطے کیلئے بہتر ہے۔